الیکشن 85ء کے بعد جس روز نواز شریف چیف منسٹر پنجاب منتخب ہوئے درویش کی ملاقات میاں طفیل محمد سے ہوئی، جھٹ سے پوچھا ’’میاں صاحب آپ نواز شریف کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کو کیسے دیکھتے ہیں؟‘‘۔ بولے ’’آپ بتائیں آپ کے تاثرات کیا ہیں؟‘‘ عرض کی ’’میاں صاحب مجھے تو نواز شریف اپنے بالمقابل افراد میں سب سے اچھے لگتے ہیں، اس لئے خوشی محسوس ہوئی ہے‘‘۔ اس پر تب کے بعد امیر جماعت اسلامی میاں طفیل صاحب گویا ہوئے ’’میرے بھی یہی احساسات ہیں‘‘۔ مابعد 88ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو پرائم منسٹر منتخب ہوئیں تو میرے ایک خط کے جواب میں میاں صاحب نے ان سے متعلق خاصے سخت الفاظ لکھے بلکہ ایک حدیث کا حوالہ بھی دیا جسکامفہوم کچھ یوں ہےکہ وہ قوم کیسے فلاح پاسکتی ہے جس نے ایک عورت کو اپنا لیڈر چن لیا ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کو قیادت کے منصب پر فائز ہوتے ہی روایتی مذہبی طبقات کی اچھی خاصی مخالفتوں اور منافرتوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر الحمد للہ آج حالات نے اتنا زیادہ پلٹا کھایا ہے کہ محترمہ مریم نواز کی مخالفت دیگر حوالوں سے تو ہے اور شاید مزید ہوگی لیکن مذہبی حوالوں سے ختم ہو چکی ہے۔ محترمہ مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون چیف منسٹر منتخب ہوئی ہیں تو ان کیلئے ماحول ناصرف مذہبی لحاظ سے خوشگوار ہے بلکہ طاقتوروں کی طرف سے بھی کسی نوع کے تحفظات نہیں ہیں۔ عوامی سطح پر بھی انہیں محترمہ بے نظیر کی طرح ایک دبنگ لیڈر کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ بی بی کی سرپرستی کیلئےان کے سر پر باپ کا سایہ نہیں تھا جبکہ مریم بی بی کی خوش قسمتی ہے ان کو اپنےمنجھے ہوئے سیاستدان والدکی سیاسی رہنمائی ہر لمحہ میسر رہے گی اور پھر جناب پرویز رشید جیسے جہاندیدہ لیگی رہنمائوں کی ایک پوری کھیپ ہے جس کا تعاون انہیں کسی نوع کی کمی یا محرومی کا احساس تک نہیں ہونے دے گا۔ اس پس منظر میں افسر شاہی کا روایتی سرخ فیتہ انکے عزائم یا آئوٹ پٹ کی راہ میں رکاوٹیں نہیں ڈال سکے گا۔ رہ گئی اپوزیشن وہ بھی انہیں بلیک میل کرنے سے قاصر رہے گی کیونکہ انہیں پنجاب میں سمپل میجارٹی کے باعث کسی چھوٹے گروہ کی محتاجی نہ ہوگی۔ پنجاب میں مریم نواز حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہی یہ ہوگا کہ وہ کس طرح پنجاب کے بظاہر منقسم مینڈیٹ کو ن لیگ کی جھولی میں ڈالتی ہیں جس طرح ان کے والد نے اسی اور نوے کی دہائیوں میں اپنی خدمت اور کارکردگی سے پورے پنجاب کو اپنے ساتھ جوڑ لیا تھا، 1997ء کے انتخابی نتائج قابل ملاحظہ ہیں ۔ مریم بی بی کی کامیابی تب مانی جائے گی جب اگلے انتخابی معرکے میں وہ اپنی پارٹی کو اسی مقامِ شریف تک لے آنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ کوئی مانے نہ مانے جس طرح ایک زمانے میں پنجاب کا غریب اور متوسط نوجوان بھٹو کا دیوانہ تھا جسے نواز شریف نے اپنی طرف کھینچ لیا، اسی سے ملتی جلتی صورتحال پنجاب کے نوجوانوں میں ایک کھلاڑی نے پیدا کر رکھی تھی۔ درویش جس طرح بلاول کو یہ کہتا رہا ہے کہ وہ اپنے نانا کو کاپی کرنے کی بجائے اپنی والدہ مرحومہ کو اپنا رول ماڈل بنائیں مگر وہ ناکام رہا اسی طرح مریم بی بی اپنی من مانیاں کرنے کی بجائے اگر اپنے والد کی عاجزی، سادگی، ٹھوس کارکردگی، دھیمے لب ولہجے میں اپنے ٹارگٹ کے حصول پر گہری نظر اور جدوجہد کو اپنائیں گی تو کامیاب ہونگی وہ نواز شریف کا فخر ہیں، اپنے باپ کی بے باک، بہادر اور پرعزم بیٹی ہیں اب انہوں نے خود کو حوصلہ مند زیرک، معاملہ فہم اور سب کو ساتھ لیکر چلنے والی لیڈر بن کر دکھانا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر پنجاب کے بارہ کروڑ عوام کے دکھوں کا مداوا کرتے ہوئے ان سب کی محبتوں کو سمیٹنا ہے گڈگورننس کی نئی مثالیں قائم کرنے کے چیلنج پر پورا اترنا ہے۔ انہوں نے اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کے دوران مسائل کی درست نشاندہی کی ہے اپنے اس ادراک، وژن اور ترقی کے بیانیے کو عملی جامہ پہنانا ہے تاکہ کل کلاں کوئی اسے کھلاڑی جیسی نمائشی بڑھکیں نہ کہہ سکے۔ غربت، بیروزگاری، مہنگائی، امن عامہ، صحت، تعلیم اور بالخصوص خواتین کیلئے محفوظ ماحول، کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس مگر سیاسی مخالفین کیلئے ٹالرنس مذہبی جنونیت کا خاتمہ بلاامتیاز مذہب، نسل یا جنس سب کیلئے مساوی مواقع اور پھر یہ مشن کہ خواتین کے خلاف ہراسمنٹ میری ریڈلائن ہے بالخصوص اچھرہ میں ایک بے گناہ خاتون کو جس طرح خوفزدہ کرتے ہوئے اس کی زندگی کو خطرے میں ڈالا گیا اس جنونی مائنڈ سیٹ کا خاتمہ بھی محترمہ مریم نواز شریف کیلئے چیلنج ہونا چاہئے۔ آپ کو نواز شریف ہی کا نہیں پنجاب کے 12کروڑ عوام بالخصوص پاکستانی خواتین کا اپنی آئوٹ پٹ سےفخر بننا ہے، اپنے مخالفین کو برا کہنے دھمکیاں دینے یا سخت زبان بولنےسے کچھ نہیں ہوتا سادگی و عاجزی اور وقار کے ساتھ عوامی خدمت کے ذریعے جب سوسائٹی کے دبے ہوئے کمزور و مظلوم طبقات و افراد کے دکھوں کا مداوا کریں گی تو مخالفین ازخود فارغ ہو جائیںگے۔