• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا نظریہ 1956ء میں پیش کیا گیا جس کے بانی مشہور سائنسدان John McCarthyتھے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کمپیوٹر سائنس کا وہ شعبہ ہے جو انسانی ذہن کو بائی پاس کرکے اس سے کئی گنا زیادہ سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے والی مشین تیار کرتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کا اصل مقصد ایسی مشینوں کی تیاری ہے جو بالکل انسانوں کی طرح سوچنے، سمجھنے اور سیکنڈوں میں انسانی ہدایت پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں جس کی زندہ مثال روبوٹس ہیں۔ ڈاکٹر Crouzwell جو پیش گوئی کے حوالے سے عالمی شہرت رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت ہمارے دماغ کو MRI کے ذریعے پڑھ کر اسے مختلف کوڈ اور الیکٹرونکس سرکٹ سے منسلک کردے گی اور 2030ء تک آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال سے مشینیں انسانی ذہن سے زیادہ ذہین اور تیز ہوجائیں گی اور ہم انسانی دماغ کو الیکٹرونک ذرائع سے پڑھنے کے قابل ہوجائیں گے۔

آج کل سوشل میڈیا پر ایک خوبصورت روبوٹ لڑکی ماحول کو سمجھتے ہوئے انسان سے بات چیت، سوالوں کے صحیح جواب اور ہدایات پر عمل کرتی دکھائی دیتی ہے ۔گوگل انٹرنیٹ سرچ انجن، انگلیوں اور چہرے کی Biomatric، میزائل ٹیکنالوجی اور دیگر مہلک ہتھیار صنعتی آٹو مائزیشن اور 3D ورچوئل گیمز آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مرہون منت ہیں۔ سوشل میڈیا اور زندگی کے تمام شعبوں میں مصنوعی ذہانت حاوی ہوتی جارہی ہے اور اس ٹیکنالوجی کو اپنا کر انسان اپنی ذاتی صفات ترک کرتا جارہا ہے۔ مشہور برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے مصنوعی ذہانت کو انسانیت کیلئے خطرہ قرار دیا تھا۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ مصنوعی ذہانت 2025ء تک ساڑھے 8کروڑ افراد سے روزگار چھین لے گی لیکن اس ٹیکنالوجی سے نئی نوکریاں بھی پیدا کی جاسکتی ہیں اور ماہرین اِسے مستقبل کی کھربوں ڈالر کی انڈسٹری قرار دے رہے ہیں۔ حال ہی میں یورپی یونین نے لوگوں کے فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ کے ذاتی ڈیٹا کی خلاف ورزیوں پر میٹا کو 413 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی جس کی کمپنی 3D ورچوئل گیمز بناتی ہے جسے بنانے میں خطیر رقم اور وقت درکار ہوتا ہے لیکن اگر ویڈیو گیم کامیاب ہوجائے تو اس سے لاکھوں ڈالرز کی آمدنی ہوتی ہے جس کو دیکھتے ہوئے ہم سوچ سکتے ہیں کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت اور میٹا وژن ہماری دنیا کو کتنا بدل سکتا ہے۔

پاکستان دنیا میں نوجوانوں کی سب سے زیادہ آبادی والا چھٹا بڑا ملک ہے اور پاکستان دنیا کی فری لانسنگ مارکیٹ میں چوتھے نمبر پر آگیا ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کیلئے صدارتی اقدامات کے تحت مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس، کلائوڈ کمپویٹنگ، ایچ کمپویٹنگ، بلاک چین، انٹرنیٹ سے متعلقہ شعبوں میں تربیت اور بزنس کے مواقع پیدا کئے جارہے ہیں۔ نسٹ (NUST) یونیورسٹی نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے جدید ڈرون بنایا ہے جو سینکڑوں لوگوں کا کام کرسکتا ہے جس میں شہر، ریلوے ٹریک اور سرحدوں کی 24 گھنٹے نگرانی شامل ہے۔ ستمبر 2019ء میں، میں نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کے 5رکنی وفد کی قیادت کی تھی اور چین کی کونسل برائے فروغ عالمی سرمایہ کاری (CCIIP)کی دعوت پر چین کے شہر ژیامین میں ’’چائنا انویسٹمنٹ فورم‘‘ میں شرکت کی جہاں میری ملاقات ان 25 پاکستانی طلباء سے ہوئی جو چینی حکومت کی اسکالر شپ پر ژیامین یونیورسٹی میں آرٹیفشل انٹیلی جنس اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز کے شعبوں میں پی ایچ ڈی کررہے تھے۔ ان میں ایک پاکستانی ڈاکٹر عامر جنہوں نے ژیامین یونیورسٹی سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں پی ایچ ڈی کی تھی اور اب ژیامین میں کینسر بائیو ٹیک ریسرچ سینٹر میں کام کررہے ہیں، نے لیبارٹری کے دورے کے دوران مجھے بتایا کہ ان کی لیبارٹری آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے دنیا کے کینسر مالیکولز Mutation کا ٹیسٹ کرتی ہے جو کینسر کے علاج کیلئے نہایت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے دنیا تیزی سے چوتھے صنعتی انقلاب کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے دنیا میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف چین اپنی قومی سلامتی کے دفاع کیلئے فوجی سرگرمیوں میں آرٹیفشل انٹیلی جنس اور 5G کا استعمال کر رہا ہے تو دوسری طرف امریکہ کی فیس بک، واٹس اپ اور ٹویٹر جیسی کئی بڑی کمپنیاں مصنوعی ذہانت کے ذریعے منٹوں میں کروڑوں افراد کا ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اس کی بنیاد پر اہم پالیسیاں بنانے کے قابل ہو گئی ہیں، اس کی وجہ سے مصنوعی ذہانت اور میٹا کو دنیا کا صنعتی انقلاب قرار دیا جارہا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان اس میدان میں ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور میٹا کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے PDM دور حکومت میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے سنگاپور میں میٹاورس کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی تھی کیونکہ اس شعبے میں فروغ اور سرمایہ کاری کے بغیر پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نہیں ہو سکتا لہٰذا ہمیں مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے صنعتوں سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں مہارت حاصل کرنا ہوگی جو مستقبل کا تقاضا ہے۔

تازہ ترین