26 ؍جنوری2023ء کو پنجاب کی نگراں کابینہ نے حلف اٹھایا تھا مجھےفخر ہے کہ میں اس کا حصہ تھا۔ ہماری ذمہ داری انتخابات کروانا تھالیکن ہم نے صوبے کے عوام کی فلاح وبہبود اور دیگر امور پر بھی فوکس رکھا۔ پہلے دن سے ہی وزیراعلیٰ سید محسن نقوی کی قیادت میں صوبے اور اسکے عوام کی مشکلات کم کرنے کیلئے’’ محسن سپیڈ‘‘ سے تعمیروترقی سمیت عوام کو ممکنہ سہولتوں کی فراہمی کیلئے جو اقدامات کیے، پاکستان اور خاص طورپر صوبہ پنجاب کی75سالہ تاریخ میں انکی نظیر نہیں ملتی۔ ہم لوگوں نے نیک نیتی کیساتھ مختصر مدت میں صوبے کی کایا پلٹ کر رکھ دی، ہماری کارکردگی سے جہاں لوگ مطمئن ہوئے وہاں مخالفین نے بھی ہماری کاوشوں کا اعتراف کیا۔ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے سید محسن نقوی کے وژن نے پنجاب میں ترقی کی نئی راہیں کھولیں،8وزراء اور2 مشیروں پر مشتمل کابینہ کے اراکین نے اسی وژن کی روشنی میں خدمت کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ نگراں وزراء نے تنخواہیں لیں اور نہ ہی سرکاری مراعات سے استفادہ کیا۔
صوبہ بھر میں شہروں کے ساتھ تحصیل اور یونین کونسلوں کی سطح پر پسماندہ علاقوں میں بھی ہسپتال ، سڑکیں، لائبریریاں، لیبارٹریز، جم خانہ کلب، سپورٹس سٹیڈیم، پارک، فلائی اوورز اور انڈر پاس بنائے، الیکٹرک موٹر سائیکلز دیں، فروغ تعلیم کے علاوہ دوائوں اور ایمبولینس گاڑیوں کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا، 100سے زائد خدمت مراکز قائم کئے گئے، جہاں فائیو سٹار ہوٹلوںجیسی سہولتیںفراہم کی گئیں۔ تھانہ کلچر کو تبدیل کیا،737تھانوں کیلئے نئی عمارتیں تعمیر کرائی گئیں اور تمام تھانوں کیلئے اراضی بھی خرید ی گئی۔30سمارٹ پولیس سٹیشن بنائے گئے۔ پولیس کو جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی کیلئے اقدامات کئے۔ اس بات کا کریڈٹ بھی نگراں حکومت کو جاتا ہے کہ ہمارے دور میں صوبے میں جرائم کی شرح میں 25فیصد کمی آئی۔22 فیصد ٹیچنگ ہسپتالوں کیساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ اور تحصیل ہیڈ کوارٹرز کی سطح پر100 سے زائد ہسپتالوں کی تزئین و آرائش کرائی گئی اور انہیں جدید طبی سہولتیں فراہم کی گئیں۔
ہسپتالوںمیں کمپیوٹرائزڈ نظام رائج کیا گیا۔ ڈسٹرکٹ لیول پر پوسٹ گریجویٹ کلاسز کااجرا کیا گیا۔ رورل ایمبولینس سروس اور24گھنٹے علاج کی سہولت سمیت رورل ہیلتھ سینٹر اور بنیادی مراکز صحت کو بھی جدید سہولتوںسے آراستہ کیا گیا۔ ہزاروں افسران و ملازمین کو اگلے گریڈ میں ترقی دی گئی۔ جعلی ادویات کے خلاف زیروٹالرنس کی پالیسی پرعملدرآمد کیا گیا۔ لاکھوں افراد کو ہیپاٹائٹس، ٹی بی اور ایڈز کی تشخیص اور علاج کی سہولت فراہم کی گئی۔ تمام جیلوں میں قائم ہسپتالوں کی حالت بہتربنائی۔ ملک کا پہلا سر کاری کینسر ہسپتال بنایا۔ شعبہ اطلاعات میں انفارمیشن کا جدید ترین نظام اپنایا گیا۔ یونیسیف اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تعاون سے پنجاب بھر میں لاتعداد پروجیکٹس کا آغاز کیا گیا۔
پنجاب کی5ڈرگ لیبارٹریز کی ڈبلیو ایچ او سے سرٹیفکیشن کروائی گئی جبکہ ہمارے مقابلے میں بھارت میں صرف 3لیبارٹریزعالمی ادارہ صحت سے منظور شدہ ہیں۔ عوام کو ادویات کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔ ڈرگ اتھارٹی کو فعال کیا گیا۔ بلڈ بینک سمیت دیگر شعبہ جات کی بہتری کیلئے اقدامات کیے گئے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی تعلیم کی بہتری اور سہولتوں کی فراہمی کا کام ترجیحی بنیادوں پر کیا گیا۔ رِنگ روڈز سمیت134سڑکیں تعمیرکرائی گئیں، جن کی لمبائی تقریباً2000 کلو میٹر ہے ۔صوبے میں 3 ارب ڈالر سے زائد کپاس کی اضافی پیداوار ہوئی۔ ہم نے کسی بھی عوامی منصوبے کیلئے قرض نہیں لیا، ہم نے فیڈرل حکومت کا صوبے پر600ارب ڈالر کا قرضہ ادا کیا اور جاتے ہوئے900ارب روپے سرپلس چھوڑے۔ ہمارے معاشی اقدامات کی بدولت ملکی برآمدات میں اضافہ ہوا، ڈالر کی قدر میں کمی آئی۔ صوبے میں کرپشن اور سفارش کلچر کی حوصلہ شکنی کی گئی، ماضی کی بحرانی کیفیت پر آنسو بہانے یا سابقہ حکومتوں پر الزام دھرنے کی بجائے اپنی ترجیحات کا مثبت تعین کیا اور ثابت کیا کہ ملکی ترقی کیلئے وسائل کی کمی سے زیادہ نیتوں کا عمل دخل ہے۔ قوم کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ملک میں جمہوریت ہے یا آمریت۔ لوگ ملک میں امن وامان و انصاف، تعلیم، صحت اور روزگار چاہتے ہیں۔ جب تک ذاتی مفادات کی سوچ کو پس پشت ڈال کر ملک و ملت کے روشن مستقبل کی جانب توجہ نہیں دینگے ہم کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ میرا ذاتی مشاہدہ اور تجربہ یہی ہے کہ کام بلند بانگ دعوئوں اوروعدوں سے نہیں، کرنے سے ہوتے ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے اتنے سارے کام کر کے دکھائے۔
(صاحبِ مضمون سابق وزیر صحت و بہبود آبادی پنجاب ہیں)