مارچ ہماری تاریخ کا وہ مہینہ ہے جس میں پاکستان کے قیام کی قرارداد پیش کی گئی، اسی ماہ رمضان المبارک کا بھی آغاز ہورہا ہے جس میں پاکستان کا قیام عمل میں آیاتھا،مگر دکھ اس بات کا ہے کہ76سال گزرنے کے باوجود آج بھی ہم مشکلات سے دوچار ہیں، 241 ملین آبادی پرمشتمل جوہری قوت سے لیس جنوبی ایشیا کے اس ملک کو متعدد بحران اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اقتدار سنبھالنے والی نئی حکومت کو کچھ چیلنجوں کا سامناہے۔ جوریکارڈ سطح کی مہنگائی اور سست شرح افزائش سے متاثرہ معیشت کو سنبھالے گی ،پاکستان میں عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کے لیے سیاسی رابطوں کے بعد سامنے آنے والی مخلوط حکومت کو معیشت، سیکورٹی اور سیاسی معاملات کے علاوہ کئی اداروںکی نجکاری اور ایف بی آر اصلاحات سمیت کئی کڑے امتحانوں کا سامناہے۔
حالیہ انتخابات کے بعد اگرچہ کوئی ایک جماعت اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ وہ اکیلے حکومت بنا سکے،پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف نے آٹھ فروری کےانتخابات کے بعد کہا کہ ہمارا فرض ہے کہ اس ملک کو بھنور سے نکالنے کی تدبیر کریں۔سب کو دعوت دیتے ہیں کہ اس زخمی پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ہمارے ساتھ بیٹھیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت ملک کو بھنور سے نکالنے کے لئے کسی ایک جماعت کا کندھا اس قابل نہیں کہ وہ پاکستان کو جلد مشکلات سے باہر لاسکے، اس کے لئے تمام جماعتوں کو اپنے کاندھوں پر بوجھ برداشت کرنا ہوگا،کابینہ کا حصہ بننا ہوگا، صرف آئینی عہدے لے کر مزے لینے کا وقت گزر چکا ہے، پی ٹی آئی حکومت نے ملک کی معیشت کا جس طرح بیڑا غرق کیا،نو مئی کے واقعے نے عالمی سر مایہ کاروں کے اعتماد کو جو ٹھیس پہنچائی وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
ملک میں استحکام کے لیے کم از کم دس سال چاہئیں، پاکستان اس وقت کسی سیاسی لڑائی ،محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا سب کومل کر بیٹھنا ہوگا، معاملات طے کرنے ہوں گے، عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی اولین ترجیح ہونی چاہئے، الارمنگ چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے جس کا اثر پاکستان کی زراعت کے شعبے پر براہ راست پڑے گا، اس حوالے سے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہو گی۔ مہنگائی پر قابو پانا، ملک میں سرمایہ کاری لانا، معاشی میدان میں مضبوطی اور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی۔زرعی اصلاحات، تعلیم اور صحت کے شعبے میں ترقیاتی کام، انفراسٹرکچر کی بہتری ،کاروبار اور روزگارکی فراہمی کے ساتھ ساتھ آئی ٹی کے شعبے میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔بجلی چوری ،ٹیکس چوری کی روک تھام ،غیر ضروری اخراجات، سرکاری دفاتر میںمہمانوں کے لئے چائے بسکٹ کے بجٹ کا خاتمہ کرنا ہوگا،صنعت کاری، ٹور ازم کوفروغ دینا ہوگا، مشیران اور معاونین کی تعداد میں کمی لانا ہوگی، ترقی کے لیے درمیانی اور طویل مدتی ترقیاتی پروگراموں ہی سے ملک کو معاشی استحکام حاصل ہو سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم مشکلات سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔پارلیمنٹ اور حکومت کو کئی چیلنجزورثے میں ملے ہیں۔یہ چیلنجز کثیر الجہتی نوعیت کے ہیں۔مئی جون میں بجٹ پیش ہونا ہے جو نئی حکومت کے لیے پہلا چیلنج ہو گا۔ حکومت کوغیرمنقولہ بڑی بڑی جائیدادوں پر دولت ٹیکس کی شرح بڑھانی ہوگی ،ایکڑوں پر پھیلے ہوئے فارم ہائوسز کے مالکان پر ٹیکس عائدکرنا ہوگا ، اس کی شرح جائیداد کے تناسب سے مقرر کی جائے،معدنیات کے شعبے سے ہم اپنی مشکلات کو دور کرسکتے ہیں ، افغانستان، بھارت اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں ، وزیر اعظم کو نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کی مشاورت سے نئی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی،ایران کے ساتھ حالیہ سرحدی جھڑپ اورمشرقی مغربی سرحدوں پربھارتی خطرات کے پیش نظر سیکورٹی معاملات بھی ایک اہم چیلنج ہیں۔سفارتی سطح پرچین کے ساتھ تعلقات کومحفوظ اور مضبوط بنانا ہوگا۔
مشکل حالات سے دوچارملک کو آگے لے جانے کے لئے سیاسی مکالمےسے اتفاق رائےپیدا کرنا ہوگا،پی پی نے وفاقی کابینہ کا بوجھ اٹھانے سے بظاہر انکار کردیا ہے،مگر ایم کیوایم اپنے کارڈ پہلی مرتبہ سیاسی برد باری کے ساتھ استعمال کررہی ہے،مہنگائی کی روک تھام کے لئے احتسابی عمل میں تیزی لانا ہوگی، خود ساختہ گرانی سے عوام پریشان ہیں، اگر حکومت اس جانب توجہ دے تو مہنگائی میں 30فیصد کمی فوری طور پرلائی جاسکتی ہے۔
اس وقت چاروں صوبائی حکومتوں کا قیام عمل میں آچکا ہے ،18ویں ترمیم کے بعد کئی معاملات میں وفاق سے زیادہ ذمے داری ان حکومتوں کے کاندھوں پر ہے،جن میں عوام کو کھانے پینے میں ریلیف دینا، پانی کی فراہمی،روزگارکے وسائل پیدا کرنا،ان حوالوں سے صوبائی حکومتوں کو اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا ہوگا،حالیہ انتخابات کو پی ٹی آئی نے متنازع بنانےمیں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر یہ بات خوش آئند ہے کہ بانی کے بغیر اس جماعت کی موجودہ قیادت نے کئی اچھے اور جمہوری فیصلے کئے،قومی اور دیگر اسمبلیوں میں حلف اٹھانا، کے پی کے میں حکومت بنانا، انتخابی نتائج پراپنے تحفظات کے بارے میں اعلیٰ عدالتوں اور الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا، ان کا احسن اقدام ہے، اس سے ان کی نئی سیاسی سمت کا بھی احساس ہورہا ہے،جس کا حکومت اور دیگر اداروں کو بھی خیرمقدم کرنا چاہئے۔
امید ہے کہ پی ٹی آئی کے نئے قائدین اپنا تمام جمہوری حق منتخب ایوانوں میں ہی استعمال کریں گے، ملک اس وقت سڑک کی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے جس کا احساس تمام سیاسی قیادت کو کرنا ہوگا۔