• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے لاہور جیسی رونقیں اور کہاں؟تاہم اسلام آباد کی گہما گہمی بھی قابلِ دید تھی ،مری میں میٹھی سردی اور تیز ہواؤں کا سامنا کرنا پڑا مگر پارلیمنٹ ہاؤس کا نظارہ اُس سے بھی زیادہ تند و تلخ تھا البتہ ایوانِ صدر کی تقریب بے ذائقہ تھی۔ احسن اقبال اور رانا تنویر حسین سے ملاقاتیں اور باتیں خوشگوار تھیں مگر زیادہ لطف سابق سیکرٹری خارجہ ڈاکٹر اسد مجید خان سے ہونے والی ملاقات میں آیا ، ڈاکٹر صاحب اسے’’آف دی ریکارڈ‘‘ قرار نہ بھی دیتے تو کوئی مضائقہ نہ تھا کیونکہ وہ ایک منجھے ہوئے سفارت کار کی حیثیت سے ڈپلومیسی کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ کہاوت ہے کامیاب ڈپلومیٹ وہ ہوتا ہے جو تین گھنٹے بھرپور بحث کرے مگر کام کی کوئی چیز دوسرے کے پلے نہ پڑنے دے یاہتھے نہ چڑھنے دے۔ ‎یہ الگ بحث ہے کہ ان کا تحریر کردہ سائفر ایک سیاسی اناڑی لیکن ورلڈ کپ جیتنے والے کھلاڑی کے ہتھے چڑھ گیا تو اس نے کہا’’ میں اس سائفر کے ساتھ کھیلوں گا‘‘ مگر اس کھیل کھیل میں وہ خود اس کا المناک یا ٹریجڈی کردار بن گیا۔ ڈاکٹر اسد مجید کے اس سائفر کو بیچ میں ڈال کر وہ جس امریکا پر اپنی حکومت گرانے کا الزام عائد کر رہے تھے آج اُسی امریکہ سے ڈالروں کے عوض لابنگ پر مجبور ہے۔ بھٹو اور محترمہ بے نظیر کی رہائی کیلئے تو پھر بھی عالمی اپیلیں آتی تھیں آپ کیلئے وہ بھی کہیں سے نہیں آئیں۔‎یہ درویش کے بر عکس ڈاکٹر اسد مجیدبی جے پی کی مودی حکومت کےبڑے ناقد ہیں ،کہنے لگےکہ بڑی اچھی روایت چلی آرہی تھی کہ دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستان اور انڈیا کا کوئی نیا سفیر آتا تھا تو ہر دوہمسایہ ممالک کے سفراء ایک دوسرے سے کرٹسی کال یا ملاقات کرتے، اس دو طرفہ تعلق سے علاقائی تعاون و استحکام میں ایک نوع کی معاونت ملتی تھی مگر موجودہ صورتحال میں اس سب کا خاتمہ ہوچکا ہے جواباً عرض کیا کہ یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے یقیناً قابلِ افسوس ہے لیکن اس کی جڑیں ہمیں اپنے ہی جذباتی ماضی میں کہیں مل جائیں گی۔ اپنے اپنے پسندیدہ رائٹرز کے ریفرنسز بھی پیش کیے گئے علاقائی تنازعات و عالمی حالات پر ڈاکٹر صاحب کی گہری نظر اور براہِ راست پیش آنے والے تجربات سے استفادے کا موقع بھی میسر آیا ۔‎ایسی ہی ایک تفصیلی ملاقات معروف ریسرچ سکالر اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود صاحب سے انکی رہائش گاہ پر ہوئی ۔ ان کی علمی شخصیت میں گہرائی و گیرائی کے ساتھ آفاقی وسعت تھی انہوں نے جہاں اپنی دو نئی کتب ”امت مسلمۂ دہشت گردی کے گرداب میں“ اور ”مسلم معاشرت کی سیاسی و قانونی تشکیل“ عنایت فرمائیں وہیں الہیات سے متعلقہ تندوتلخ سوالات کا نہ صرف یہ کہ خندہ پیشانی سے سامنا کیا بلکہ بحث کا پورا موقع دیا۔ مذاہب عالم کا تقابلی جائزہ اور حالاتِ حاضرہ پر سیر حاصل گفتگو و فیضیابی کا طویل موقع میسر آیا۔ اس بزرگی میں بھی ڈاکٹر خالد مسعود کی ہمت و محنت نوجوان سے بڑھ کر ہے بیگم صاحبہ کی صحت البتہ اس مرتبہ ناساز تھی قدرت ہر ان دو محترم شخصیات پر اپنی برکتوں کا نزول رکھے۔‎ہمارے دوست وسیم الطاف یورپ کی طویل یاترا سے واپس لوٹے تھے ان سے ملاقاتوں اور بحثوں کا احوال شروع کیا تو کالم میں کسی اور بات کی گنجائش نہیں رہے گی سب سے بڑھ کر ہمارے شکریے کے حقدار پیارے دوست جنگ اور جیو کے معروف صحافی اعزاز سید ہیں جنہوں نے حالیہ اسلام آباد یاترا میں دوستی و تعاون کا حق ادا کیا، سہیل چوہدری،شکیل چوہدری، فہد شہباز، عاطف بھائی اور ثناء بھائی کی محبتوں کا بھی شکریہ۔‎آخر میں جمہوریت کے فیضان اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو خراجِ تحسین،پر امن انتقالِ اقتدار کا جمہوری اسلوب مغربی فکر و فلسفے کا ایسا کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے ان دنوں اس کا نظارہ اسلام آباد میں ملاحظہ کیا ۔ پارلیمنٹ میں نومنتخب وزیراعظم کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی کے ممبران نے جو شور شرابہ پیہم جاری رکھا اور نوازشریف کے منہ پر وہ جو کچھ بولتے رہے اگرچہ اخلاقی لحاظ سے اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی تحسین نہیں کی جاسکتی مگر برداشت و حوصلہ مندی اور آزادی اظہار کی اقدارسب جمہوریت کی برکات ہیں جس کی قدر کی جانی چاہیے ہمارے یہ دوست جس طرح دھاندلی کا راگ الاپتے ہوئے وزیراعظم کے انتخاب کو غیر آئینی قرار دے رہے تھے ذرا سوچیں اگر یہ دھاندلی ہے تو پھر آپ لوگوں نے خود حلف اٹھاتے ہوئے ان اداروں کا حصہ بننا کیوں قبول کیا؟ آپ کے صدر نے غیر آئینی وزیراعظم سے حلف کس اصول کے تحت اٹھوایا؟ اداروں پر طعنہ زنی کرنے کی بجائے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آپ لوگ احتجاج بھی تہذیب کے دائرے میں رہ کر کریں، یہ ملک تو رہا ایک طرف کیا آپ کی اپنی پارٹی اب کسی دوسرے 9مئی کی متحمل ہوسکتی ہے؟ کھلاڑی صاحب کو یہ بات ضرور سوچنی چاہئے۔

تازہ ترین