ملک میں نئی حکومت آچکی ہے۔ شدید منہگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام نے یہ امید لگائی ہوئی ہے کہ شاید نئی حکومت کوئی کرشمہ کردکھائے اور ان کے لیے زندگی ’’کچھ آسان‘‘ ہوجائے۔ذرایع ابلاغ کی ترقی کی وجہ سے وہ بھی اب باخبر رہنے لگے ہیں اور انہیں بھی پتا ہے کہ ملک کی معیشت کی سانسیں اکھڑی ہوئی ہیں، لہذا یہ حکومت بھی ان کےلیے راحت کا زیادہ سامان نہیں کرسکتی۔
تلخ مگر سچ بات یہ ہے کہ ملک کی معیشت واقعتا وینٹی لیٹر پر ہے۔ اگر ہمارے سیاست دانوں اور اشرافیہ نے اب بھی ملک کے اقتصادی حالات کو ماضی کی طرح ہی سمجھنے اور برتنے کی کوشش کی تو وہ بہت بڑی بھول کریں گےاور اس کے نتیجے میں ملک میں انارکی پھیلنے کا خطرہ پہلے سے بھی بڑھ جائے گا۔
شاید اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم ،میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنے انتخاب کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مل کر فیصلہ کرلیں کہ پاکستان کی تاریخ بدلنی ہے، ہم ہمالیہ نما چیلنجز کو عبور کریں گے۔ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کام مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں، ہم مل کر پاکستان کو عظیم بنائیں گے۔
شہباز شریف کا ملک کو درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ این ایف سی کی صوبوں کو ادائیگی کے بعد7ہزار300ارب بچتے ہیں، اس میں سود کی ادائیگی8ہزار ارب روپے ہے، ہم آج تک80ہزار ارب کے بیرونی اور اندرونی قرضے لے چکے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ایک چیلنج بجلی کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کا ہے۔ بجلی کا گردشی قرضہ 2 ہزار300ارب روپے ہوگیا ہے،3ہزار800 ارب کی بجلی ترسیل کی جاتی ہے، 2ہزار800ارب روپے کی وصولی ہوتی ہے۔ بجلی کی پیداوار اور وصولی میں 1000 ارب روپے کا فرق ہے۔ قومی اداروں میں 600 ارب روپے کا خسارہ ہے، بجلی اور ٹیکس چوری قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس کا بوجھ غریب پر آتا ہے۔ بجلی اور ٹیکس چوری کا کینسر جڑ سے اکھاڑ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ارادہ ہے کہ5لاکھ نوجوانوں کو خصوصی تربیت دیں۔ زراعت معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ چھوٹے کسانوں کے لیے ٹیوب ویل پروگرام شروع کریں گے۔ دنیا سے اعلیٰ بیج منگوا کر کسان کو پہلی مرتبہ مفت بیچ دینے کی کوشش کریں گے۔ جعلی ادویات اور کھاد کا صوبوں کے ساتھ مل کر خاتمہ کریں گے۔وزیر اعظم نے صحت و تعلیم کے حوالے سے کہا کہ کوشش ہوگی کہ ہر صوبےاور وفاق میں جدید اسپتال اور علاج کی سہولتیں دیں۔
ہونہار بچوں کے لیے بیرون ملک جامعات میں تعلیم کے اخراجات وفاقی حکومت دے گی۔ نظام عدل بہتر بنائیں گے۔ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔ بلوچستان کی محرومی کا مکمل ادراک ہے۔ بلوچستان کے زعما کی ناراضگی جائز ہے، لاپتا افراد کے مسئلے کو حل کیے بغیر بلوچستان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا جاسکتا۔ پہلی فرصت میں بلوچستان کے زعما کے ساتھ بیٹھیں گے اور بات کریں گے۔ بلوچستان کی ترقی، امن اور خوش حالی پاکستان کی خوش حالی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان نے کہاکہ خارجہ پالیسی میں ہم کسی گریٹ گیم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ دوستوں میں اضافہ کریں گے۔ مخالفین میں کمی لائیں گے۔ امریکا سے تاریخی تعلقات پہلے ٹھیک کرنے ہیں، پھر استوار کرنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یوریی یونین اور خلیجی کونسل سے رابطے مستحکم کریں گے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ ہماری مدد کی ہے۔ ہم اس کے شکر گزار رہیں گے۔ کویت، بحرین اور ایران کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، انہیں آگے لے کر جائیں گے۔
بڑھتی ہوئی غربت
گزشتہ برس ستمبر کے مہینے میں اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھاکہ کچھ ہی عرصے میں پاکستان میں دو کروڑ افراد کے غربت کی لکیر سے نیچے چلے جانے کا خدشہ ہے۔ بے روزگاری میں دس فی صد سالانہ کی شرح سے اضافے کی وجہ سے ہر سال تیس لاکھ افراد غریب طبقے میں شامل ہونے لگے ہیں۔ پاکستان میں متوسط طبقہ بیالیس فی صد سے گھٹ کرتینتیس فی صد رہ گیا ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے، یو این ڈی پی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا معاشی بدحالی کے سبب متوسط طبقے میں نمایاں کمی ہو رہی ہے۔
آزادی کے وقت پاکستان ایک غریب ملک تھا، لیکن یہ چین، بھارت اور بہت سے ان ملکوں کے مقابلے میں خوش حال تھا جو آج ’’ابھرتی ہوئی معیشت‘‘ (Emerging Economies) بنے ہوئے ہیں ۔ پاکستان کی نصف سے زائد دولت پر ملک کی ایک فی صد آبادی کا قبضہ ہے۔
یہ درست ہے کہ دنیا کے گمبھیر مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جیسے آبادی ،بھوک اورغربت میں اضافہ۔ دنیا میں پس ماندگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی مجموعی دولت پر ایک سو خاندان، اڑسٹھ فی صد دولت پر قابض ہیں۔ باقی تیس فی صد دولت ساڑھے آٹھ ارب انسانوں کے حصے میں آتی ہے۔ اس لحاظ سے دنیا کی آبادی بھوک، افلاس اور تنگ دستی کا شکار ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ آج کی دنیا نے بے مثال ترقی کی ہے۔ اگر ساٹھ لاکھ برسوں کی تاریخ کا جائزہ لیں اور اندازہ کریں کہ ترقی زیادہ کی یا تباہی و بربادی زیادہ۔ تو پنا چلتا ہے کہ دنیا کی تباہی و بربادی میں قدرتی ماحول کی اونچ نیچ کا بھی بڑا دخل رہاہے۔ اس طویل عرصے میں انسانوں نے غربت ،بھوک اورجہالت ختم کرنے پر پر کم محنت کی، ورنہ اس عرصے میں پوری دنیاارضی جنت بن جاتی۔ لوگ غربت ،پس ماندگی، بھوک، جنگ و جدل کا نام تک نہ جانتے۔
سچ ہے کہ انسان نے وقت زیادہ برباد کیا۔ اب جاکر ہوش آیا، مگر ماضی بعید کے امراض، غربت، پس ماندگی اور بھوک کو جڑ سے ختم نہ کر سکا۔ یہ ایک انسانی المیہ ہے کہ ہر رات پوری دنیا میں 68لاکھ افراد رات افراد بھوکے سوتے ہیں۔ غربت اورپس ماندگی نے ان کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ دوسری طرف امارات اور شان و شوکت نے دنیا کو شدید متاثر کیا ہے۔
نئی حکومت کو درپیش اقتصادی آزمائشیں
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے اقتصادی حالات اور نئی حکومت سے عوام کو وابستہ امیدوں کے تناظر میں اس وقت بڑا چیلینج یہ ہے کہ مستحکم حکومت بن جائے، کیوں کہ اقتصادی استحکام کی بنیاد مستحکم حکومت ہے۔اس کے بعد پہلے مرحلے میں نئی حکومت کو چند اہم اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ منہگائی پر قابو پانا، ملک میں سرمایہ کاری لانا، اقتصادی میدان میں استحکام لانا اور آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی۔ دوسرے مرحلے میں زرعی اصلاحات، تعلیم اور صحت کے شعبے میں ترقیاتی کام، انفرااسٹرکچر کی بہتری تاکہ کاروبار اور روزگار کے مواقع بڑھیں اور تعلیم ، بالخصوص آئی ٹی کے شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
نئی منتخب حکومت کا فوری چیلنج آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوں گے، جو 1.2 ارب ڈالرز کا جائزہ زیر التوا ہے اس کے لیے مذاکرات کا سلسلہ آئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ شروع ہونا ہے۔ اس کے بعد ایف بی آر میں اصلاحات اور اس کی تنظیم نو کا منصوبہ ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو درپیش اقتصادی مسائل حل کرنے کے لیے فوری ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اورغیر معمولی فیصلوں کے بغیر یہ مسائل حل ہونے والے نہیں ہیں۔ اسی لیے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے عہدے کا حلف اٹھانے کے چند گھٹنے بعد ملک کی اقتصادی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس طلب کیا تھا۔
وزیراعظم نے اجلاس میں آئی ایم ایف کی ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی کے حوالے سے بات چیت کو فوری طور پر آگے بڑھانے، معیشت کی بحالی، حکومتی بورڈزکےاراکین کی مراعات میں کمی کرنےکےلیے حکمت عملی بنانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ اس اجلاس میں وزیرِ اعظم نے پاور اور گیس سیکٹرز کی اسمارٹ میٹرنگ پر منتقلی، ایف بی آر اور دیگر اداروں کی آٹومیشن اور درمیانے اور چھوٹے درجے کے کاروبار کے فروغ کے لیے لائحہ عمل تیار کرنےکےلیے بھی ہدایات دیں۔
اقتصادی تجزیہ کاروں کے نزدیک پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنجز میں اس وقت آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کا حصول انتہائی ضروری ہے اور ان کےبہ قول اس کے لیے نئی حکومت کو کئی سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ آئی ایم ایف کا اسٹینڈ بائی معاہدہ رواں ماہ ختم ہونے والا ہے اس لیے پاکستان نئے معاہدے کے لیے بات چیت میں تیزی لانا چاہتا ہے۔ لیکن پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض پروگرام آسان شرائط پر ملتا نظر نہیں آتا بلکہ اس کے لیے حکومت کو جہاں اسٹینڈ بائی پروگرام کام یابی سے مکمل کرنا ہوگا وہیں آئندہ پروگرام کے لیے مزید سخت شرائط پر بھی عمل درآمد کرنا ہوگاجس سے عوام کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ موجودہ صورتِ حال میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کے ساتھ کئی ضروری اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجاویز بھی سامنے آرہی ہیں۔ ان اقدامات سے عام آدمی بہ راہ راست متاثر ہوگا۔
ان حالات میں حکومت کو فوری طور پر آمدن بڑھانے اور اخراجات کم کرنے کے اقدامات اٹھانے ہوں گے، لیکن اب تک اس کے لیے بنائی گئی حکمتِ عملی صرف اعلانات تک محدودہے۔ دوسری جانب ٹیکس نیٹ میں نئے شعبوں کو شامل کرنے، سرکاری اداروں میں اصلاحات متعارف کروا کر خسارہ کم کرنے اور وسائل کی بچت کے لیے کفایت شعاری کے اقدامات اٹھانے کی اب تک کوئی خاص حکمت عملی نظر نہیں آتی۔
ایک اور اہم آزمائش بجٹ خسارہ کم کرنے کی ہے۔ وہیں آئی ایم ایف کی ہدایات کے تحت جاری کھاتوں کا خسارہ بھی بہتر بنانا ہوگا۔ اگر بجٹ خسارہ کم رکھنے کی کوشش کی گئی تو غیر ترقیاتی اخراجات اور حکومت کا حجم چھوٹا کرنے کے بجائے سماجی شعبے اور ترقیاتی اخراجات ہی میں کٹوتی کی جائے گی۔ عوام کی روزمرہ زندگی پر یہ اقدامات منفی انداز میں اثر انداز ہوں گے اور ترقی کی رفتار کم ہوسکتی ہے۔
نئی حکومت کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش قرضوں کی ادائیگی کے لیے بہت بھاری رقم کا انتظام بھی ہے۔یاد رہے کہ اگلے مالی سال میں ہمیں تقریباً 25 ارب ڈالرزکے بیرونی قرضے اداکرنے ہیں جو ہمارے زرِ مبادلہ کےموجودہ ذخائر سے تین گنا زیادہ ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی بھی ہمارے لیے بڑا خطرہ
پاکستان دنیاکے ان ممالک میں سر فہرست ہے جنہیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ ہماری معیشت کو اس سے بہ راہ راست اور شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ عالمی حِدّت،خشک سالی اور کووڈ ۔19نے بھی پاکستان سمیت عالمی معیشت اور سماجی معاملات کو شدید نقصان پہنچایاہے۔
مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کووڈ۔19سے دنیا کو جو نقصانات اٹھانے پڑے اس کے مقابلے میں براعظم افریقاکم متاثر ہوا۔ مگر کووڈ۔19نے دنیا کی معیشت کو شدید متاثر کیا جس سے غربت، منہگائی، بےروزگاری میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ سماجی معاملات کو بھی زبردست زک پہنچی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ۔19کے نقصانات کو پورا کرنے اور سدھار لانے میں کم از کم بیس سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
اس حوالےسے بیش ترماہرین ماحولیات ، معاشیات اور سماجیات کا کہنا ہے کہ دنیا کو اپنی نئی نسلوں کو ایک گرم اور مسائل سے دو چار دنیا میں زندگی گزارنے کا عادی بنانا ہوگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ قدرتی ماحول اور موسمی تبدیلیاں انسانوں کو مزید پریشان کرتی رہیں گی۔
موجودہ حالات میں موسمی اورقدرتی ماحول میں تبدیلیوں کے حوالے سے بعض ترقی پذیر ممالک کا مؤقف ہے کہ دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کے کارخانوں نے کاریں اور تعیشات کا سامان بنانے اور انہیں استعمال کرنے میں اضافہ کیاجس سے دنیا میں آلودگی میں اضافہ ہوا۔ آلودگی میں اضافے کا ذمے دار وہ بھی ہے جو ان ملکوں سے لاکھوں کاریں اور تعیشات کا سامان خریدتا اور استعمال کرتا ہے۔ اس حوالے سے آلودگی کو سرحدوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ غریب ممالک قدرتی آفات کا شکار ہونے کے بعد امیر ممالک سے امداد ضرور طلب کر سکتے ہیں۔
آلودگی کا مطلب صرف کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں نہیں ہے، تاہم یہ ایک اہم عامل ضرور ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس دھوئیں کا توڑ کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن ترقی پذیرممالک میں صفائی ستھرائی، صحت عامہ وغیرہ پر توجہ کم ہے۔
ان کا طرز زندگی اور معمولات آلودگی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ چناں چہ ہمیں اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ اور چیلنج موسمیاتی تبدیلی کا ہے، جس کا اثر پاکستان کی زراعت کے شعبے پر بہ راہ راست پڑے گا۔اس ضمن میں فوری لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہوگی۔
اچھی خبریں
ماہرینِ اقتصادیات کے مطابق آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی پرو گرام اور کرنسی مارکیٹ میں افواہیں پھیلانے والوں کےخلاف کارروائی کی وجہ سے پاکستانی روپیہ چھ ماہ میں کافی حد تک مستحکم رہا ہے۔ نگراں حکومت نے جم کاری کا عمل جاری رکھا اورمنہگائی بڑھنے کی شرح میں کسی حد تک ٹھہراؤ دیکھا گیا ہے۔ اسی طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بہتری دیکھی گئی ہے اور خسارہ سات ماہ میں 71 فی صد سے کم ہوا ہے۔ لیکن دوسری جانب نگراں حکومت کے ناقدین کہتے ہیں کہ گزشتہ سال کے سات ماہ کی نسبت اس مالی سال کے سات ماہ کے دوران ترسیلاتِ زر میں تین فی صد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے اور پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں قابلِ ذکر بہتری بھی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ریونیو میں کمی کو مقامی مارکیٹ سے بھاری قرض لے کر پورا کیا جارہا ہے جس سے جاری اخراجات کی رفتار اور خسارے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
ایسے میں یہ اچھی خبر آئی ہے کہ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز، نے پاکستان میں منہگائی اور معاشی دباؤ میں کمی کی توقع کے پیش نظرپاکستان کی ریٹنگ منفی سے مستحکم کردیہے۔ موڈیز کے مطابق رواں سال پاکستان میں اقتصادی ترقی کی شرح دو فی صد تک ہوسکتی ہے اور افراط زر کی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں انتیس فی صد سے کم ہوکرتیئس فی صد رہےگی۔موڈیز نے پاکستان کے بینکاری کے شعبے کی ریٹنگ مستحکم کردی ہے۔
معیشتوں کی درجہ بندی کرنے والے ادارے کے مطابق بینکاری کے شعبے کا منافع آئندہ سال شرح سود اور بلند ٹیکسز کی وجہ سے کم ہوسکتا ہے۔ پاکستان نے مشکل وقت میں بینکوں کی مدد کی جس سے ڈیپازیٹرز کا نقصان نہیں ہوا۔ موڈیز کے مطابق بینکوں کے منافع سے بہتر فنڈنگ، لیکویڈٹی، معاشی چیلنجز اور سیاسی بحران سے نمٹنے میں مدد ملی۔ موڈیز کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بینکاری کے نظام پر معاشی اور مالیاتی دباؤ کم ہورہا ہے۔
اس سے قبل جنوری میں آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ رواں مالی سال میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح نمودو فی صد رہنے کا امکان ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ کے مطابق جولائی 2023 سے پاکستانی معیشت درست سمت میں ہے۔ حکومتی زرمبادلہ کے ذخائر 4.5 سے بڑھ کر 8.2 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا پاکستان نے اقتصادی بہتری کے لیے تمام اہداف حاصل کیے۔ پاکستان میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق رواں مالی سال میں ملک میں بے روزگاری کی شرح آٹھ فی صد رہنے کی توقع ہے۔ صنعتی شعبہ مشکلات کا شکار ہے جس کی شرح نمو محض ڈھائی فی صد ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زرعی شعبہ5.1فی صدکی شرح سے ترقی کر رہا ہے۔ رواں مالی سال میں محصولات اور گرانٹس جی ڈی پی کے 12.5 فی صدرہ سکتی ہیں۔ پاکستان نے ڈالر کی اسمگلنگ کو سرحدوں پر کنٹرول کیا۔ رواں مالی سال میں بجٹ کا خسارہ جی ڈی پی کے7.6فی صد رہنے کا امکان ہے اور رواں مالی سال میں جاری کھاتے کا خسارہ جی ڈی پی کے 1.6 فی صد تک رہ سکتا ہے۔
ہم کرسکتے ہیں، اگر چاہیں تو
ہمیں آمدن میں کمی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کے نتیجے میں جاری کھاتے میں خسارے کا سامنا ہے۔ اس مسئلے کے حل کےلیےاقتصادی ماہرین کی جانب سے دواہم ترین حل پیش کیے جاتے ہیں۔ اوّل یہ کہ محصولات کا دائرہ دیگر شعبوں اور افراد تک بھی بڑھایاجائے۔ دوم برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ موخر الذکرعمل کے لیے ہمیں طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنا پڑے گی اور انفرا اسٹرکچر بنانا پڑے گا۔ لیکن اولذکر عمل کے لیے ہمیں محض ایک مستحکم فیصلہ کرنا ہوگا اور اس پر ڈٹ جانا ہوگا۔ اس ضمن میں پاکستان بزنس کونسل ہمیں کچھ عرصہ قبل ایک راہ دکھاچکی ہے۔
اس نے ہمیں پندرہ سو ارب روپےکے اضافی محاصل کی وصولی کا آسان راستہ بتایاہے۔ پاکستان بزنس کونسل کا کہنا ہے کہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانےکے بجائے زراعت، پراپرٹی، ہول سیل اور ریٹیل سے وصولیاں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ عوام پر بوجھ ڈالے بغیر محاصل کی وصولیوں میں 1500ارب روپے کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ زراعت اور پراپرٹی ٹیکس سے صوبے 288ارب روپے کے مزید محصولات جمع کرسکتے ہیں۔ ہول سیل، ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ کو ٹیکس کی موثر نگرانی میں لاکر وفاق 1230ارب روپے جمع کرسکتا ہے۔ 195ارب روپے کے پوٹینشل کے باوجود صوبے زراعت سےمحض تین ارب روپے وصول کررہے ہیں۔
پاکستان بزنس کونسل کے مطابق پراپرٹی ٹیکس کی مدمیں 116ارب روپے کی گنجائش کے باوجود 20ارب روپے کی وصولیاں کی جارہی ہیں۔ ہول سیل ریٹیل، رئیل اسٹیٹ سے کم وصولی اور انڈر انوائسنگ سے وفاق 1385ارب روپے کے ٹیکس سے محروم ہے ۔وفاق ہول سیل ،ریٹیل، رئیل اسٹیٹ سے صرف 150ارب روپے وصول کررہا ہے۔
ہول سیل، ریٹیل ٹریڈ سے ٹیکس وصولیاں 43ارب روپے تک محدود ہیں،حالاں کہ 277ارب روپے تک کی گنجائش موجودہے۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ سے ٹیکس وصولیاں 107ارب روپے تک محدود ہیں،حالاں کہ 234ارب روپے کی گنجائش موجود ہے اور انڈر انوائسنگ سے ملکی معیشت کو سالانہ 488ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
دوسری جانب محصولات کے شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں امیر برآمد کنندگان، لاکھوں ایکڑ اراضی رکھنے والے کاشت کاروں، تاجروں، خوردہ فروشوں اور رئیل اسٹیٹ میں کام کرنے والےافرادبس برائے نام ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ حکومت تن خواہ دار طبقے سے جس قدر ٹیکس لے رہی ہے وہ پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ اگر حکومت ٹیکس نیٹ میں اضافے کی خواہش مند ہے تو اسے اب دیگر شعبہ جات کی جانب دیکھنا ہوگا۔
انہوں نے نشان دہی کی کہ ملکی دولت (جی ڈی پی) میں 22 فی صد سے زیادہ زراعت کا حصہ ہے۔ لیکن وہاں سے جمع ہونے والا ٹیکس ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت نےتن خوا دار طبقے پر ٹیکس کا مزید بوجھ ڈالنے کے عالمی بینک کی تجویزپر عمل کیا تو اس سے کم آمدن والے طبقے میں بے چینی بڑھے گی اوراور ٹیکس چوری میں اضافہ ہو گا۔ لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکل پائیں گے۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں عالمی بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں حکومتِ پاکستان کو تجویز دی تھی کہ وہ تن خواہ دار طبقے کے سب سے نچلے سلیب پر بھی ٹیکس لگائے جو ماہانہ 50 ہزار روپے یا اس سے بھی کم کما رہے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں تن خواہ دار طبقے نے مجموعی طورپر264ارب روپے ٹیکس ادا کیا جب کہ پاکستان کے امیر ترین برآمد کنندگان نے محض 74 ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا تھا۔چند ماہ قبل آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر، کرسٹلینا جارجیوا نےاس وقت کے نگراں وزیرِ اعظم، انوار الحق کاکڑ سے ملاقات کے بعد ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ فنڈ نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ملک میں غریبوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے امیر طبقے پر ٹیکس لگائے۔تاہم محاصل سے متعلق امور کے ماہرین سمیت کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے، کیوں کہ ایسا کرنے سے حکم راں اشرافیہ کے مفادات پرکاری ضرب لگتی ہے۔
ان ماہرین کے مطابق بہ راہ راست ٹیکسز کُل ٹیکسز کا محض30فی صد ہیں۔ حکومت کا زیادہ تر انحصار ِان ڈائریکٹ ٹیکسز پر ہے جو غریب اور امیریک ساں ادا کرتے ہیں۔ غریب طبقے کی آمدن محدود ہونےکے باوجود انہیں زیادہ رقم حکومتی خزانے میں جمع کرانی پڑتی ہے۔ ملک میں ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں کی تعداد محض 30 لاکھ ہے اور یہاں ملکی دولت (جی ڈی پی) کا محض 10.2 فی صدمحاصل کی مد میں جمع ہوتا ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ غریبوں کا مزید خون نچوڑنے کے بجائے امیرں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔اور ہم یہ کرسکتے ہیں، اگر چاہیں تو۔