• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تشکیل ’’اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے ‘‘ کی عملی تفسیر تھی ۔ 1857 میں شروع ہونے والی جدو جہدِ آزادی اگست 1947ء کو فاتحانہ انداز سے انجام پذیر ہوئی، مگر اس سفر میں لاکھوں انسانوں کو نئی مسلم مملکت تک پہنچنے کے لیے آگ وخون کا ہولناک دریا عبور کرنا پڑا۔ 

ایک نئی صبح، نئی سحر ،نئی روشنی سے فیض یاب ہونے، غلامی کے درد بھرے ماضی کو بھلانے، ترقی، خوش حالی، بلندی کی نئی راہوں کے حصول کی خواہشوں، اُمیدوں اور آدرشوں کے ساتھ منزل پر پہنچنے کے پُر صعوبت، اذیت ناک، تکلیف دہ اور طویل سفر میں جنگ گروپ آف نیوز پیپرز کے بانی میر صحافت، میر خلیل الر حمٰن بھی اس ہر اول دستے میں شامل تھے جس نے ذرائع ابلاغ کے توسط سے ہندوستان کی آزادی کی فیصلہ کن جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے محاذپر مورچہ سنبھالنے کا عزم کیا۔ 

دہلی کے گرم سیاسی ماحول میں ایک پیسے کے اخبار سے اپنی کامیابی کی بنیاد رکھی۔ جنگ اخبار کے ذریعے ایک طرف تحریک ِ پاکستان کو آگے بڑھایا، اسے کامیابی سے ہم کنار ہونے میں مدد دی ، دوسری طرف ان مقاصد کو عزیز رکھا جس کی بنیاد پہ ملک وجود میں آیا۔ قیامِ پاکستان کی عٖظیم جدوجہد کی لمحہ بہ لمحہ داستان کے وہ ناقابلِ فراموش باب جس میں قلم سے جہدِ مسلسل سنہری حروف میں رقم ہے، میر صاحب کے قابلِ ستائش کردار سے پُر ہیں۔ 

وہ صحافت کے مسلمہ قائد کی حثیت سے جہاں تازہ آبادکرتے رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی سب سے بڑی صحافی ایمپائر بنا ڈالی۔ گرچہ میر صحافت نے ایسے پر آشوب دور میں صحافت کی دہلیز پر قدم رکھا جب دوسری جنگ ِعظیم کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں دنیا کے مختلف خطّوں میں آزادی کی تحریکیں اُبھرنے لگی تھیں لیکن ان کے تخلیقی ذہن اور صلاحیتوں نے انہیں نئی راہیں دکھائیں، البتہ عالمی سیاست کے تناظر میں جب برِ صغیر میں مسلمانوں کی آزادی کی تحریک فیصلہ کُن مرحلے کی جانب بڑھ رہی تھی تو بانیٔ جنگ نے اس تحریک کے دوران تن تنہا دہلی سے ’’روز نامہ جنگ‘‘کا اجراء کیا۔ 

یہ ایک ایسے دور میں ہوا تھا جس میں کسی اخبار کو زندہ رہنے کے لئے کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہونا ضروری تھا۔ میر خلیل الرحمن کو جنگ کی ادارتی پالیسی کے متعلق کسی شش و پنج میں پڑنے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ یہ بالکل واضح تھا کہ جنگ صرف اور صرف آل انڈیا مسلم لیگ کا ترجمان ہوگا اور ایک نئے وطن کے حصول کی جنگ میں اسلامیان برصغیر کے ہراوّل دستے کا کردارادا کرے گا۔

اس دور کے چند شماروں کے اداریوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ نے اپنی یہ جنگ بڑی کامیابی سے لڑی۔ ان اداریوں میں جہاں بعض میں مسلم لیگ کی پالیسی اور پروگرام کو بیان کیاگیا، وہیں کانگریس اور دیگر ہندو اور مسلم لیگ کی مخالف مسلم سیاسی جماعتوں اور حکومت برطانیہ کے اعتراضات کا جواب دیا گیا۔ آہستہ آہستہ جنگ کا شمار مسلمانوں کے انتہا پسند اردو اخباروں میں ہونے لگا۔ 1941ء کے دوران دہلی سے شائع ہونے والے’’انتہا پسند‘‘ اخبارات کی جو سہ ماہی رپورٹ جاری ہوئی۔ اس میں سولہویں نمبر پر روزنامہ جنگ کا نام درج تھا۔

میر خلیل الرحمن نے ذرائع ابلاغ کے میدان میں برطانیہ اور کانگریس کے خلاف جو محاذ سنبھالا تھا وہ اس پر ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے تھے کہ سیاسی حالات نے کروٹ بدلی اور برصغیر میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے۔ 

اس زمانے کا مسلم پریس کمزور تھا لیکن اس نے کمزور ہونے کے باوجود تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسلم پریس خصوصاً دہلی سے نکلنے والے اخبارات و رسائل نے مسلمانوں میں تحریک پاکستان کا جذبہ پیدا کر نے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ پیش پیش تھا۔ 

چونکہ ’’جنگ‘‘ دہلی ہندوستان بھرکے مسلمانوں کی آواز، مسلم لیگ اور پاکستان کا حامی تھا۔ اس لئے یہ بھارتی حکومت کے عتاب کا خاص نشانہ تھا۔ میر صاحب کی متاثر کن تحریروں نے بھی تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 

ادھر میرخلیل الرحمن نے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ پاکستان اور قائداعظم کے حق میں آواز بلند کرتے رہیں گے بعد ازاں قیامِ پاکستان کے بعد ’’ روزنامہ جنگ‘‘ ایک نئے ملک کی تعمیر اور استحکام کے ملی جذبے سے سر شارایک تحریک بن کر اُبھرا۔ 

یہ عہد ساز اور تاریخی سفر آسان نہیں تھا۔ غلامی، آزادی ، جمہوریت ،آزمائش اور مسلسل آزمائش کے مختلف مراحل پر جس طرح ’’جنگ‘‘ کا نام اور کام آگے بڑھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

میر صاحب، صحافت کے مسلمہ قائد کی حثیت سے ایک کے بعددوسرا پڑاؤ ڈالتے اوراک جہانِ تازہ آباد کرتے رہے۔یہ ایسا اعزاز ہے جو صحافت کی تاریخ میں کم لوگوں کے حصّے میں آیا، ایسےلوگ پوری دنیا میں انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، جو کسی بھی زبان میں اخبار نکالیں اور اسے دنیا یا اپنے ملک کا سب سے بڑا اخبار بنا دیں۔ میر صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو صحافت کی سب سے بڑی صحافیانہ ایمپائر قائم اور اسےمستحکم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 

یہ ان کا ایسا کارنامہ ہے جو اردو صحافت اور جمہوری جدو جہد کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا ، جو یقیناََ ہمالیہ کی خطرناک وادیوں سے بار بار گزرتے رہنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ وہ صحافت کی بھٹی میں تپنے کے بعد کندن بنے۔ اللہ نے انہیں جو ہر شناس آنکھیں دیں۔

صحافت ہی نہیں ،قومی زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی ایسے لوگ خال خال ہی ہوں گے جو ’’وژن‘‘کی نعمت سے میر صاحب کی طر ح سر فراز کیے گئے ہوں۔ انہوں نے سیاست دانی یا سیاست گری کی کبھی کوشش نہیں کی۔ 

وہ جمہوریت، آمریت نماجمہوریت اور جمہوریت نما آمریت سب کو ہنس کر جھیل گئے۔ اردو صحافت کو ایک نیا رخ، ایک نیا رنگ اور نئی وسعت دی۔ بلا شبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج اردو صحافت جس بین الاقوامی معیار پر نظر آتی ہے، اس میں سب سے اہم کردار جنگ اخبار نے ادا کیا اور اس کا سہرا، میر صحافت کے سر جاتا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میر صاحب نے روزنامہ جنگ کو ایک گروپ آف پبلی کیشنز کی شکل دی۔ یہ ان کی غیر معمولی ذہانت، تجربہ اور استقامت تھی کہ وہ اپنے اخبارات کو عوامی مقبولیت کی انتہا تک پہنچاتے، عوام کے ذوق مطالعہ کو پرکھتے، جدید اور قدیم صحافت، پرانی اور نئی نسل کے تقاضوں کو سمو کر تازہ بہ تازہ رکھتے۔ 

انہوں نے خبروں کی تیز فراہمی کے ساتھ اس کو پاکستان اور بیرون ممالک سے جدید ذرائع خبر رساں سے حاصل کرکے سادہ اور رنگین تصاویر کا مجموعہ بھی بنایا اوردینی و قومی موضوعات پر خاص ایڈیشن شائع کرکے پاکستان کی صحافت میں خصوصی امتیاز بھی حاصل کیا، نہ صرف یہ بلکہ اردو صحافت کی تاریخ گو کہ پرانی ہے مگر اسے جدید فنی خطوط پر استوار کرنے اور جدید ترین ٹیکنالوجی متعارف کرانے کا سہرا بھی میر صاحب ہی کے سر جاتا ہے۔ 

وہ پاکستان کی دنیا ئے صحافت میں پہلے فرد ہیں، جنہوں نے تیز رفتار پرنٹنگ مشینیں متعارف کرائیں۔ اردو اخبارات کو نوری نستعلیق کی طباعت کا حسن عطا کیا۔ سست روی کو برق رفتاری میں تبدیل کیا، اگر صحافت کو مملکت کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے تو میر صاحب نے اپنی شبانہ روز محنت اور لگن سے اپنے آپ کو پاکستان میں نیوز پیپر میڈیا کا پہلا ستون ثاثت کیا۔ ان کی ترقی کے راز میں ان کا صبر و تحمل بہت نمایاں رہا۔

ان کا دھیما انداز گفتگو، مدلل انداز بیاں مخالف کوبھی اپنی رائے بدلنے پر مجبور کردیتا تھا۔ ان کے مزاج میں حلم، بردباری اور علم پروری ایسی صفات تھیں، جنہوں نے ان کو ہردل عزیز بنادیا تھا ۔ سچ تویہ ہے کہ اُن کی اُصول پرستی، راست بازی وراست گوئی میں اقبال کا مردِ مومن نظر آتا تھا۔ 

صحافت کے مسلمہ قائد کی حیثیت سے وہ اک جہاں تازہ آباد کرتے رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی سب سے بڑی صحافتی امپائر بنا ڈالی اور بغیر تقاضائے صلہ وتعریف اپنے کارہائے نمایاں کے ذریعے تاریخ صحافت رقم کرتے چلے گئے۔ 

میرصاحب کو اخبارات کو کام یاب بنانے کاجوفن آتاتھا ، وہ اُنہوں نے کسی شخص یا ادارے سے نہیں سیکھا تھا، یہ اُن کی غیر معمولی ذہانت، تجربہ اور استقامت تھی کہ وہ عوام کے ذوقِ مطالعہ کو پرکھتے اور پھر جدید وقدیم صحافت، پرانی اقدار اور نئی نسل کے تقاضوں کو سموکر اپنے اخبارات کوتازہ بہ تازہ رکھتے۔ ان کی جدت پسندی نے اردو اور انگریزی صحافت میں نئی نئی راہیں تلاش کیں۔ وہ تضع سے مبرا، اخباری دنیا کے مردِ میداں تھے۔ ان کی حیثیت ایک تاریخ ساز صحافی کی تھی۔ 

وہ خودساز شخصیت تھے۔ انہوں نے کسی مخصوص پارٹی کا نقیب بننے کے بجائے ہمیشہ ملک وملت کا ترجمان بننے کو ترجیح دی ۔ وہ کسی حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے وابستہ نہیں ہوئے۔ ان کی وفاداری اس دیس اور اس سرزمین سے رہی۔ ان کا ہاتھ ہمیشہ پاکستان کے عوام کی نبض پررہا ۔ آج ان کے لگائے ہوئے پودے خواص کے لیے بھی ہیں اور عوام کے لیے بھی۔ انہوں نے اپنا خون پسینہ اس شجر سایہ دار وثمر آور کی آبیاری میں صرف کیا۔ 

 ان کی شبانہ روز تگ ودو میں آزادی صحافت کے ایسے سنہری اوراق بھی ہیں، جن پر صرف اورصرف میر صاحب کی مہر ثبت ہے۔ اُن کی محبت کا محور ’’جنگ‘‘ تھا ۔معروف صحافی، شورش ملک مرحوم نے میر صاحب کے حوالے سے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’میں میر خلیل الرحمٰن اسکول آف جرنلزم کا ایسا گریجویٹ ہوں جس کی صحافتی تربیت اس مشفق استاد نے (میر صاحب) پروف ریڈر، مترجم، سب ایڈیٹر، فیچرر ائٹر، نیوز ایڈیٹر اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر تک تمام ترتوجہ اور محنت سے کی۔

میرا اور ان کا تعلق ہمیشہ ایک استاداور شاگرد کا رہا، میں نے ان سے اتنا کچھ سیکھا کہ اگریہ کہوں کہ، میری عمر بھر کا سرمایہ ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ میرصاحب کارکنوں کواپنا سرمایہ سمجھتے۔ ان کی بہبود، تربیت اور انداز کا ر پر کڑی نظر رکھتے اور باتوں باتوں میں اتنے سبق سکھا جاتے کہ اگر ان پر مکمل توجہ دی جائے تو کوئی کارکن صحافت تو کیا کسی بھی شعبہ زندگی میں مار نہیں کھاسکتا، میرصحافت نے ایک چراغ سے ہزاروں چراغ جلائے، جو صحافیوں کے روپ میں پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ‘‘۔

آ ج میر صاحب کی برسی ہے ۔25جنوری 1992 کو صحافت کا ایک تاریخ ساز عہد تمام ہوا۔ گزرتے وقت کے ساتھ اُن کی کامیابیاں، اخلاقی برتری اور ذہانت مسلم ہوتی چلی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔آمین 

میر صاحب کی بذلہ سنجی

میر صاحب کی تنبیہہ کا انداز بہت خوبصورت تھا ان کا کوئی جملہ جس میں خواہ اظہار ناراضگی ہو، اصلاح سے عاری نہیں ہوتا۔ وہ کسی بھی اسٹاف ممبر سے بات کرتے کرتے بھانپ لیا کرتے کہ کس حد تک ان کے سامنے بیٹھے ہوئے شخص نے اَثر لیا ہے، کہیں اس کو انہوں نے ہرٹ تو نہیں کر دیا۔ اگر وہ ایسا محسوس کرتے تو اپنا لہجہ بدل دیتے۔ 

ان کا انداز تخاطب محبت، شفقت، نصیحت اور تنبیہہ کے ساتھ کچھ اس طرح ہوتا جیسے وہ حقیقتاً باپ یا بھائی کا درجہ رکھتے ہوں، وہ کہا بھی کرتے کہ ’’جنگ‘‘ میری اولاد ہے۔ اسٹاف کی ایک تقریب میں جس کے وہ مہمان خصوصی تھے ایک ممبر واحد بن ہاشم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج اس تقریب میں نہ کوئی مہمان ہے نہ کوئی مہمان نواز، آج ہمارے درمیان میر صاحب تشریف فرما ہیں جو ہمارے خاندان کے سربراہ ہیں، جنگ ایک خاندان کا نام ہے‘‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنگ گروپ کا اسٹاف ان سے کتنی والہانہ محبت کرتا تھا۔

’’نواب میر خلیل یار جنگ‘‘

بر صغیر پاک وہند ہی میں نہیں ،مغرب میں بھی میر صاحب کے دم قدم سے اردو کی ترویج ہوئی۔ لندن سے نکل کرجنگ اخبار پورے یورپ میں اردو دانوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور وطن کی سفارت کا سامان فراہم کرتا ہے۔ معروف صحافی، مختار زمن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’دنیا کی اہم زبانوں میں شاید سب سے کم عمر زبان ’’اردو‘‘ ہے، لیکن ککڑی کی بیل کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ دلی، لکھنؤ، دکن تو اب تاریخ کا حصہ ہیں لیکن جنوبی ایشیا کو تو چھوڑیے۔ 

آج اردو بولنے اور سمجھنے والے یورپ، امریکا، کینیڈا سمیت دنیا کے کونے کونے تک پھیلے ہوئے ہیں اور عاشقان اردو کی تسکین کے لئے جنگ ہر جگہ موجود ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی جنگ اخبار نے اردو کی ترویج و ترقی کے لئے جنگی ساز کا کردار اداکیا۔ 

مورخ تاریخ داستان، اردو میں یہ رقم کرے گا کہ بیسویں صدی ختم ہونے سے پہلے اردو اخبار کی اشاعت لاکھوں تک پہنچ گئی تھی اردو کی جڑیں کئی ملکوں میں پھل گئیں اور یہ میر خلیل الرحمان کی سعی مسلسل کا کرشمہ تھا۔ 

اگر آج اردو کے عاشق اور اردو کو علوم عالیہ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میڈیم کی حیثیت دینے والے ایک اور قابل احترام ’’میر‘‘ یعنی میر عثمان علی خان وائی دکن زندہ ہوتے تو روزنامہ جنگ کے صلح پسند مالک و مدیر کو ’’نواب میر خلیل یار جنگ‘‘ کے خطاب سے نوازتے‘‘۔