• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علت و معلول یعنی Effect & Cause ایک کونیاتی تصور ہے جو نہ صرف فلسفہ و سائنس بلکہ ہماری معاشرت کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہے۔

روزمرہ معاملات میں اگر کسی آفت یا پریشانی سے پالا پڑ جائے تو عقل کو بروئے کار لاتے ہوئے اثرات کو دور کرنے کی بجائے سبب کا تدارک کیا جاتا ہے۔ جیسے کسی نہر یا دریا کےکنارے شگاف پڑ جائے تو بہتے پانی کو خشک یا کنٹرول کرنے کی بجائے شگاف کو پُر کیا جاتا ہے ۔ بچہ بوجہ بھوک رو رہا ہو تو اسے کھیلنے کے لیے کھلونے یا پارک کی سیر نہیں کرائی جاتی بلکہ کھانا دیا جاتا ہے کیونکہ ماں جانتی ہے کہ اس کے رونے کا سبب بھوک ہے۔

گویا یہ بات اصول کا درجہ رکھتی ہے کہ سبب کو کنٹرول کر کے ہم اثرات کو بھی قابو میں لا سکتے ہیں اب اگر اس اصول کو پاکستان کے سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو آپ کو پہیہ الٹا چلتا دکھائی دے گا کیونکہ ملکی معاملات میں ہر وقت اثرات پر واویلا ہوتا رہتا ہے جبکہ اسباب پر منہ بند رکھا جاتا ہے۔ جب کسی کا گلا دبایا جائے گا تو وہ ضرور آنکھیں نکالے گا ۔ ہمارے حالات و واقعات کے پس منظر میں کاز اینڈ ایفیکٹ کی یہ ایک ادنیٰ سی مثال ہے جو معروضی طور پر بھی صادر آتی ہے اور مفہوم کے اعتبار سے بھی درست معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں آنکھیں نکالنے پر شور و غل تو مچ جاتا ہے تاہم گلا دبانے پر یعنی cause پر کوئی بات نہیں کرتا۔

حالیہ الیکشن کے نتائج پر کیا جیتنے والا اور کیا ہارنے والا سب ہی آنکھیں نکال رہے ہیں تاہم کوئی الیکشن کمیشن سے نہیں پوچھ رہا کہ آخر آپ نے گلے دبانے جیسی حرکات کیوں کی ہیں؟ اور تو اور الیکشن کمیشن کی بے اعتنائی پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ جنہوں نے نتائج میں تاخیر یا دوسری بے اعتدالیوں پر معذرت خواہانہ انداز تک نہیں اپنایا۔ یوں تو ہمارے ہاں شکست کو تسلیم کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے اور ہر الیکشن میں ہارنے والا دھاندلی کا الزام لگا کر احتجاج کا حق استعمال کرتا ہے تاہم اس الیکشن کے تو انداز ہی نرالے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں اب کی بار دھاندلی عریانی کی حد تک عیاں تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ جیتنے والے بھی خوش نہیں ہیں اور ہارنے والے بھی ہجر کی سی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اب اس سبب یعنی cause کے باعث وطن عزیز میں پھر جلسے، جلوس، ریلیاں ، احتجاج اور سڑکوں کی بندش جاری ہے۔ میرے آج کے کالم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگر ہم مضر سیاسی اسباب کو پیدا نہ کریں تو لامحالہ طور پر ملک میں عدم استحکام جیسے مضر اثرات مرتب نہ ہوں مثلاً اگر ہر الیکشن میں عوامی رائے کا احترام کیا جاتا تو ملک میں مستحکم حکومتیں بنتیں اور ملک استحکام کی منزل سے سرفراز ہوتا۔ اگر اچھی/ بری حکومتوں کو پانچ سال پورے کرنے دیے جائیں تو انتخابات میں عوام خود ووٹ کے ذریعے ان کا احتساب کر دیں۔ اگر پانچ سال کسی سیاسی جماعت کو کھل کھیلنے کی اجازت دی جاتی تو وہ کبھی مظلومیت کا لبادہ نہ اوڑھ سکتی۔ اگر ملک میں جمہوریت قائم کرنے کی شوقین پارٹیاں اپنے اندر بھی جمہوریت نافذ کرتیں تو آج پاکستانی عوام چند خاندانوںکے غلام نہ ہوتے۔ قریب تھا کہ آئندہ الیکشن میں ملک سے پی ٹی آئی کا صفایا ہو جاتا مگر بیس تیس اراکین پارلیمنٹ نے سال ڈیڑھ سال پہلے ہی رجیم چینج کا ایسا کھیل کھیلا جو ملک میں افراتفری کا سبب بنا اور پھر وہی ہوا جو ہر مرتبہ حکمراں سیاسی پارٹیوں کو نصیب ہوتا رہا ہے یعنی پی ٹی آئی کے ہاتھ بھی مظلومیت کا کارڈ لگ گیا اور یوں پارٹی کے مردہ تن کو نئی زندگی نصیب ہوئی۔ کم و بیش تمام حکمراں سیاسی پارٹیوں کو مظلومیت کا کارڈ مل چکا ہے آئندہ بھی شاید ملتا رہے یہی وجہ ہے کہ اس الیکشن میں بھی آپ نے یہ بیانیے سنے ہوں گے کہ’’ اگر ہماری حکومت جاری رہتی تو ہم یہ کرتے........ وہ کرتے.... وغیرہ وغیرہ ‘‘۔

اس سارے منظر نامے میں قارئین کرام اگر وارے نیارے ہیں تو سیاسی جماعتوں کے اور اگر نقصان ہو رہا ہے تو فقط وطن اور ہم وطنوں کا۔ Effect & Cause کی یہ ستم ظریفی ہمارے ہاں ہر سطح پر در آئی ہے۔ جب اشرافیہ یا حکمرانوں کی جانب سے جینے کے حقوق نہیں دیے جاتے تو عوام الناس میں اس کے یقینی اثرات ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آئے دن سڑکوں پر ڈاکٹرز ، وکیل، بے روزگار، نابینا افراد ، کلرک، زمیندار و صحافی وغیرہ احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ستم بالائےستم یہ کہ جب تک سڑکیں بلاک نہ کی جائیں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اس معاشرتی رجحان کو اب ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کی نچلی سطح ہو یا ایوان ہائے حکومت، ہر سطح پر اسباب کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم بہت کچھ کھو چکے ہیں اب مزید کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا ۔ عوام سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے متنفر ہو چکے ہیں بلکہ اس سسٹم سے ہی متنفر ہو چکے ہیں اس سے پہلے کہ ملک سے منہ موڑ لیں انہیں واپس لانا ہوگا۔ ٹھیک ہے جمہوریت میں احتجاج ہر کسی کا جمہوری حق ہے مگر اب عام آدمی سڑکوں پر ہا ہو اور شور و غل سے تنگ آ چکا ہے۔ وہ سکون چاہتا ہے۔ آخر پچھتر سال سے جلسے جلوس ریلیاں احتجاجی تحریکیں اور فسادات ہی اس ملک کا مقدر کیوںہیں ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ ہم causes کی روک تھام نہیں کرتے بس effects کا رونا روتے رہتے ہیں۔آخری جملہ.... ! پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنا مشکل ہے شگاف پُر کریں اور مزید شگاف نہ ہونے دیں ملک سکون میں آ جائے گا۔

تازہ ترین