• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پشاور ہائیکورٹ: مخصوص نشستوں کا معاملہ، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے تیاری کیلئے وقت مانگ لیا

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

پشاور ہائی کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے تیاری کے لیے وقت دینے کی استدعا کر لی۔

عدالتِ عالیہ کا جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے جس میں جسٹس اعجاز انور، جسٹس ایس ایم عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشد علی شامل ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ نے 6 آئینی سوالات اٹھائے ہیں، جبکہ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختون خوا کو آج طلب کر رکھا ہے۔

عدالتِ عالیہ نے آئینی سوالات پر اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سے معاونت طلب کی ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، رہنما پیپلز پارٹی فیصل کریم کنڈی اور نیئر بخاری عدالت میں پیش ہوئے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا، سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا، پی ٹی آئی کے تمام امیدوار آزاد تصور ہوئے، آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے سوال کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل کا کوئی امیدوار الیکشن میں کامیاب ہوا؟

سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوا۔

جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے خود آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا، آپ نے 21 فرروی کو مخصوص نشستوں کی لسٹ دی؟

سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ہم نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کرنے کے بعد لسٹ دی۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ مخصوص نشستیں خالی چھوڑ دی جائیں تو پھر پارلیمنٹ مکمل نہیں ہو گی۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ مخصوص نشستیں دوسری پارٹیوں کو نہیں دی جا سکتیں، اگلے الیکشن تک خالی رہیں گی۔

عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل بھی پہنچ گئے، بیرسٹر ظفر نہیں آئے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ مجھے وقت دیں کہ میں تھوڑی تیاری کر لوں۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ سے کہا کہ آپ ہر وقت تیار رہتے ہیں، ہم انٹیرم ریلیف واپس لے لیں گے۔

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کل سینیٹ کے انتخابات بھی ہیں۔

اٹارنی جنرل کے دلائل

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، سیاسی جماعت انتخابات میں نشستیں لینے کے بعد پارلیمانی جماعت بن جاتی ہے، پھر پارلیمانی جماعت کو آزاد امیدوار جوائن کر سکتے ہیں۔

جسٹس سید ارشد علی نے سوال کیا کہ سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت ہے یا نہیں؟ سنی اتحاد کونسل کا پارلیمانی لیڈر اسمبلی میں ہو گا یا نہیں؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ اس پر بعد میں دلائل دوں گا، مخصوص نشستیں پارلیمانی پارٹی کو ملتی ہیں، الیکشن جیتنے والی جماعت کو مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں، پارٹی کو وہی سیٹیں ملیں گی جن پر لسٹیں جمع کی گئی ہوں۔

عدالت نے سوال کیا کہ جس پارٹی نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ ہی جمع نہیں کرائی ہو اس کا کیا ہو گا؟

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ جس جماعت نے لسٹ جمع کرائی ہو اور سیٹیں جیت جائے اس کے لیے تو قانون ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ جی بالکل ان کے لیے قانون ہے، ایسی کوئی سیاسی جماعت نہیں دیکھی جس نے مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہ کرائی ہو، الیکشن ایکٹ 2017ء میں مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کا ذکر ہے، آرٹیکل 61 کے تحت مخصوص نشستوں کی تقسیم ہوتی ہے، عام انتخابات کے موقع پر مخصوص نشستوں کے لیےکاغذاتِ نامزدگی جمع ہوتے ہیں، سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع نہیں ہوئے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل

الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فارمولا سادہ ہے، ایک سیٹ لازمی ہے، عدالت نے جو سوالات اٹھائے اس پر بات کروں گا، الیکشن ایکٹ سیکشن 104 کے مطابق درخواست گزار پارٹی سیاسی پارٹی ہی نہیں، سنی اتحاد کونسل نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا اور دیگر شرائط پوری نہیں کیں، سیاسی جماعت کے لیے لازمی ہے کہ اپنے نشان کے تحت انتخابات میں حصہ لے، سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، مخصوص نشستوں کے لیے فہرست بھی آخری تاریخ سے قبل دینا ضروری ہے۔

عدالت نے کہا کہ یہاں تک ہم مانتے ہیں کہ انہوں نے پہلے لسٹ جمع نہیں کی۔

جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ فی الحال تو قانون میں اس مسئلے کا حل نظر نہیں آ رہا، کیوں نا اسے پارلیمنٹ بھیجا جائے تاکہ مسئلےکا حل نکل سکے؟ کیا یہ ہم پارلیمنٹ بھیج سکتے ہیں؟ کیا پارلیمنٹ اس کا حل نکال سکتا ہے؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اٹارنی جنرل یہ جواب دیں گے، میں الیکشن کمیشن کی حد تک محدود ہوں۔

جسٹس ارشد علی نے کہا کہ جو صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے پارلیمنٹ نے اس کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ آخری تاریخ کے بعد سے متعلق تو سپریم کورٹ کے واضح فیصلے ہیں، مخصوص نشستوں کی فہرست فارم 66 پر ہوتی ہے لیکن انہوں نے فارم 66 دیا ہی نہیں، مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ ہوتی ہے، یہ فارم 66 ہے، یہ الگ فارم ہوتا ہے۔

جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ سکندر صاحب یہ فارم 45 اور 47 جیسا نہیں ہو گا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ان کا ابھی تک فارم 66 نہیں ہے، انہوں نے جمع نہیں کیا۔

عدالت نے سوال کیا کہ فارم 66 الیکشن کمیشن میں ابھی تک جمع نہیں کیا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ جی ان کا فارم 66 نہیں ہے، انہوں نے درخواست دی کہ آزاد امیدواروں نے پارٹی جوائن کر لی، ہمیں سیٹیں دے دیں، میرا مؤقف واضح ہے، یہ سیاسی جماعت نہیں اسے سیٹیں نہیں مل سکتیں۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے سوال کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں؟ پارلیمنٹ میں ان کے ارکان ہیں تو سیاسی جماعت ہے۔

جسٹس ارشد علی نے سوال کیا کہ اگر عدالت سیکشن 104 کو آئین سے متصادم قرار دے تو آپ کا کیا مؤقف ہو گا؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ عدالت کو لگے کہ سیکشن 104 آئین سے متصادم ہے تو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل مکمل کر لیے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان دوبارہ روسٹرم پر آ گئے جن سے جسٹس شکیل احمد نے سوال کیا کہ کیا یہ سیٹیں خالی رکھی جا سکتی ہیں؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رکھی جا سکتیں۔

عدالت نے سوال کیا کہ کیا یہ معاملہ ہم پارلیمنٹ بھیج سکتے ہیں؟ کیا پارلیمنٹ اس کا حل نکال سکتی ہے؟

جسٹس شکیل احمد نے سوال کیا کہ کیا مخصوص نشستیں کسی دوسری سیاسی جماعت میں تقسیم ہو سکتی ہیں؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ مخصوص نشستیں سیاسی جماعت سے نہیں صوبوں سے منسوب ہیں، مخصوص نشستیں کسی حال میں خالی نہیں رہ سکتیں، قومی اسمبلی میں مخصوص نشستیں صوبوں میں تناسب کے مطابق تقیسم ہوتی ہیں۔

عدالت نے سوال کیا کہ قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں کس فارمولے کے تحت تقسیم ہوتی ہیں؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ یہ فارمولا الیکشن ایکٹ میں دیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے وکیل کے دلائل

ان کے بعد پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے۔

جسٹس اعجاز انورنے ان سے سوال کیا کہ آپ یہ بتا دیں کہ صوبے میں آپ نے کتنی نشستیں جیتیں؟

فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ مجھے ابھی تعداد یاد نہیں، جنرل سیٹ آبادی کی بنیاد پر ہے، اقلیت کے لیے پورا ملک حلقہ ہوتا ہے، خواتین کی نشستیں ہر صوبے کے حلقوں کی بنیاد پر ہوتی ہیں، لفظ ’سیکیور‘ اور ’ون‘ میں فرق ہے، فرق یہ ہے کہ سیکیور میں آپ الیکشن نہیں لڑتے، ون کے لیے الیکشن لڑا جاتا ہے، یہ کہتے ہیں کہ ہماری سیٹیں لی گئی ہیں، یہ ان کی سیٹیں نہیں ہیں۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ہم بھی کہتے ہیں کہ یہ درخواست گزاروں کی سیٹیں نہیں، سیاسی جماعتوں کی ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے نشست جیتی ہے، جواب ہے بالکل نہیں جیتی، سنی اتحاد کونسل نے نشست نہیں جیتی اس لیے نشستوں کی تقسیم کار نہیں بنتی، اگر ایک پارٹی نشست نہیں جیتی تو کیسے اس کو جوائن کیا جا سکتا ہے، سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا، جس پارٹی نے الیکشن لڑنا ہو تو وہ لسٹ دے سکتی ہے، جس نے الیکشن نہیں لڑنا وہ لسٹ نہیں دے سکتی، سیٹیں سیکیور نہیں کرنی ہوتیں جیتنی ہوتی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے وکیل کے دلائل مکمل

اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کے دلائل مکمل ہو گئے۔

ن لیگی وکیل کے دلائل

مسلم لیگ ن کے وکیل بیرسٹر حارث عظمت نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیس پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں، یہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کا اختیار ہے، درخواست گزار پنجاب اور سندھ کی عدالت میں گئے ہیں، اس کیس کا اختیار صرف اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس ہے۔

جسٹس اعجاز انور نے سوال کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا دائر اختیار کہاں تک ہے؟

عدالت نے کہا کہ ترمذی کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ دونوں ہائی کورٹس کیس سن سکتی ہیں۔

جے یو آئی ایف کے وکیل کے دلائل

جے یو آئی ایف کے وکیل کامران مرتضیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آخری تاریخ کے بعد کوئی فہرست نہیں دی جا سکتی، یہ واضح ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں گی، جب فہرست نہیں دیں تو یہی مطلب ہے کہ مخصوص نشستیں نہیں دینی، سنی اتحاد کونسل نے تو الیکشن نہیں لڑا۔

جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ ویسے آپ نے بھی تو اس پارٹی کو فراخدلی سے آفر دی۔

جے یو آئی ایف کے وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ نہیں نہیں، ہم نے آفر نہیں دی۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ یہ تو ایسا ہوا ہے کہ مالِ غنیمت کی تقسیم ہوئی ہے، جو چیزیں باقی رہ جاتی ہیں پہلے والوں میں دوبارہ تقسیم کر دیتے ہیں۔

جے یو آئی ایف کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اس پارٹی سے ٹرین مس ہو گئی ہے۔

جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ آپ لوگوں نے بھی تو ان کے لیے دروازے کھولے تھے۔

وکیل نے کہا کہ ہماری ان سے اس پر بات نہیں ہوئی تھی۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ کو تو یہ اعتراض ہے کہ ہم نے مانگی نہیں اور ہمیں دے دی گئی ہیں۔

وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ انہوں نے دیگر ہائی کورٹ میں بھی کیسز کیے ہیں۔

جس پر جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ ان سے ہم ان درخواستوں کی کاپی لیں گے۔

جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے دلائل مکمل کر لیے۔

 سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی

جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کر دی۔

قومی خبریں سے مزید