• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں اٹلی کے دارالحکومت روم میں اقوام متحدہ کی عالمی خوراک کانفرنس نے ’’اعلان خوراک‘‘ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 2020ء تک دنیا بھر میں بھوکوں کی تعداد میں پچاس فیصد تک کمی کردی جائے گی۔ دنیا کے ایک ارب افراد کو بھوک سے بچانے کے لئے موثر پروگرام ترتیب دیا جائے گا۔ خوراک کی پیداوار میں اضافے کیلئے خصوصی مہم چلائی جائے گی اور دنیا بھر میں کسانوں کو اناج کی کاشت کے لئے ترغیبات دی جائیں گی۔ اس موقع پر ممبروں، ملکوں اور عالمی اداروں کی جانب سے عالمی خوراک پروگرام کو کامیاب بنانے کیلئے ساڑھے چھ ارب ڈالر فنڈز کی فراہمی کے وعدے کئے گئے۔ اسلامی ترقیاتی بینک نے اپنے بیت المال سے ڈیڑھ ارب، ورلڈ بینک نے اپنے خزانے سے ایک ارب بیس کروڑ اور افریقی ترقیاتی بینک نے اپنے جھولے سے ایک ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ امریکی وزیر خوراک اور ای یو کے سیکرٹری نے اس موقع پر کہا ہے کہ امریکہ دنیا سے بھوک کے خاتمے کیلئے اپنا ’’کردار ‘‘ ادا کرنے کو تیار ہے۔دنیا کی 6.6 بلین (ارب) آبادی کا 12فیصد حصہ قحط سالی کا شکار ہے۔ خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے مختلف ممالک کی حکومتوں کو متبادل ایندھن کی جانب سے توجہ مبذول کرنی پڑ رہی ہے جس کے نتیجے میں بائیو فیول پودوں کی پیداوار میں اضافہ کردیا گیا ہے اور غذائی اجناس کیلئے زمین کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ بائیو فیول پودوں کی پیداوار کے نتیجہ میں غذائی اجناس مثلاً گیہوں ، سویا بین ، چاول ، مکئی اور پام آئل کی پیداوار میں کمی واقع ہوگئی ہے یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر دنیا آج معاشی و قحط سالی کے بحران کا شکار ہے، مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ، ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاء کی قلت، قدرتی وسائل کا غیر ضروری استعمال، اشیاء کی قیمت کے تعین پر ملٹی کمپنیوں کی اجارہ داری ، فصلوں کی پیداوار میں گراوٹ جیسے امراض نے پوری معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے جس کے سبب پوری انسانیت مسائل و پریشانیوں میں مبتلا ہوچکی ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے اور عالمی خوراک و معاشی بحران کے خاتمے کے لئے سوشلسٹ نظام معیشت وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔ آج دنیا ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام پر مشتمل صدیوں پرانا نظام معیشت زمیں بوس ہورہا ہے اور ایک ایسے نظام معیشت کا طلب گار ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی لعنت سے نکال کر تمام لوگوں کو معاشی ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرسکے۔ آج دنیا میں 33 ممالک ایسے ہیں جہاں لوگوں کو غذا نہ ملنے کی وجہ سے فسادات ہورہے ہیں ان میں ایک ملک کشور حسین شادباد بھی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم و بیش نصف پاکستانی مہنگائی میں اضافہ کے باعث خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ گزشتہ ماہ بھوک و افلاس کا شکار افراد کی تعداد میں 35فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد 6کروڑ کے لگ بھگ تھی جو آج بڑھ کر 7کروڑ 70لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ غریب آدمی کی قوت خرید قریباً 50فی صد تک کم ہوگئی ہے۔ عالمی خوراک پروگرام کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 30 ملین ٹن آٹا (سالانہ) استعمال ہوتا ہے جو اب نایاب یا کمیاب ہے یہی وجہ ہے کہ پاک سرزمین کے 35اضلاع کے باشندے غذائی قحط سالی کا شکار ہیں۔ یہ گمبھیر صورت حال صرف پاکستان ہی میں نہیں پائی جاتی آسٹریلیا جو گیہوں برآمد کرنے والے ملکوں میں سر فہرست تھا اسے بھی 60سالہ تاریخ کے شدید بحران کا سامنا ہے، وہاں 2012ء میں 22.5 ملین ٹن گیہوں کے مقابلے میں 2013ء کے دوران 15.5 ملین ٹن گیہوں پیدا ہوئی۔ امریکہ کو بھی اسی قسم کے حالات کا سامنا ہے۔ ترکی میں تو گزشتہ سال 15.5 ملین ٹن گیہوں کے مقابلے میں صرف 5لاکھ ٹن پیداوار ہوئی یہاں تک کہ کینیڈا ، فرانس ، برازیل ، چین، بھارت ، جرمنی اور ارجنٹینا سمیت گندم اور گیہوں اگانے والے تمام ممالک اس خشک سالی و قحط سالی کا شکار ہوئے۔ یہاں میں ملک عزیز کا مقابلہ بھارت سے کرنا چاہوں گا۔ تقسیم ملک کے بعد زرخیز پنجاب ہمارے حصے میں آیا اور بھارت کو بنجر، ناہموار غیر زرخیز پنجاب ملا لیکن ہوا یہ کہ بھارتی پنجاب میں 33لاکھ ایک ہزار ایکڑ رقبہ پر گیہوں کاشت کی جاتی ہے جبکہ مملکت خداداد کے کسان 59لاکھ 34ہزار ایکڑ کے رقبہ پر بوائی کرتے ہیں لیکن ہم سے کم رقبہ پر کاشت کاری کے باوجود ’’دشمن ملک‘‘ میں زیادہ اناج اگتا ہے۔ بھارتی کسان ایک ایکڑ سے قریباً 5ہزار کلو گرام گیہوں حاصل کرتا ہے جبکہ پاکستانی کاشت کار قسمت کا دھنی ہو تو پھر بھی پیداوار 2400 کلو گرام سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ ہمارے پنجاب کے 2لاکھ پانچ ہزار 349 مربع کلو میٹر رقبے میں سے ایک کروڑ 11لاکھ 40ہزار ایکڑ اراضی قابل کاشت ہے جبکہ ہمارے ’’دشمن نمبر1‘‘ کے 50ہزار 362 کلومیٹر رقبے میں سے صرف 42لاکھ 66ہزار ایکڑ زمین پر فصل اگائی جاسکتی ہے۔ یہاں میں آسٹریلیا ، برازیل ، امریکہ ، کینیڈا کی بات نہیں کررہا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بھارت کم زرعی رقبہ رکھنے کے باوجود ہم سے زیادہ پیداوار کرنے کا اہل ہے ہم سے زیادہ فصل حاصل کرتا ہے؟ آخر کچھ تو وجہ ہوگی ان دونوں پنجابوں کی آب و ہوا، رہن سہن، رسم و رواج اور محنت مشقت ایک ہے تو نتائج کیوں ایک سے نہیں آتے؟ کیا ان دونوں پنجابوں کی زمینیں زرخیزی میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں؟ پھر بھارتی پنجاب ہم سے آگے کیوں ہے؟ یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے جو ہم اگلے کالم کیلئے اٹھا رکھتے ہیں… چلتے چلتے ایک خبر سن لیجئے! سندھ کا کل زرعی رقبہ 11لاکھ ایکڑ کے قریب ہے جس میں سے قریباً 8لاکھ ایکڑ سے زائد پانچ بڑے خاندانوں کی ملکیت اور جاگیر ہے ان پنج پیروں میں مخدوم طالب المولی، جتوئی ، بھٹو، تالپور اور پیر آف رانی پور شامل ہیں۔
بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا
مجھے تو آج طلب کرلیا ہے صحرا نے
تازہ ترین