• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج فیس بک پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جس کے الفاظ یہ تھے ’’جو نظام باجوہ+ فیض+ نیازی ڈاکٹرائن کے تحت پرزے پرزے ہو کر ملک کا بیڑہ غرق کر رہا تھا میاں نواز اسے کھینچ کر اس مقام تک لائے کہ اسے ازسر نو کھڑا کیا جاسکے۔ عین اس وقت میاں صاحب کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ اس نظام میں ’’میاں صاحب از نو باڈی‘‘ آرمی چیف کی تقرری، عدم اعتماد کا ووٹ، الیکشن ہر چیز پر میاں صاحب کی چھاپ تھی، جب حلوہ پک گیا اور کھانے کا وقت آیا تو میاں نوازشریف صاحب کہاں ہیں؟اب تو ان کی الیکشن وکٹری کو بھی مشکوک بنایا جا رہا ہے۔ میاں صاحب ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم، کی تصویر بنے ہوئے ہیں‘‘۔

میں نے یہ پوسٹ پڑھی اور لکھنے والے کے نام ’’خواجہ اشرف‘‘ پر نظر پڑی تو مجھے شبہ گزرا کہ یہ خواجہ صاحب برکلے امریکہ والے نہ ہوں، جو ربع صدی سے بھی پیشتر سیالکوٹ سے امریکہ ہجرت کر گئے تھے، بہت عمدہ افسانہ نگار حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں بھی اکثر نظر آ تےتھے۔ امریکہ میں ان سے بہت ملاقاتیں رہیں، بلکہ انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا ہوا تھا کہ میں امریکہ کے کسی بھی شہر میں ہوں گا اطلاع ملنے پر وہ وہاں پہنچ جائیں گے اور جب تک میں اس شہر میں ہوں گا وہ بھی اسی شہر میں مقیم رہیں گے۔ میاں نواز شریف صاحب سے ا ن کی ذہنی وابستگی بہت پرانی تھی جو متذکرہ پوسٹ میں بھی دکھائی دے رہی تھی۔ چنانچہ میں نے تصدیق کے لئے انہیں فون کیا تو دوسری طرف سے وہی جانی پہچانی محبت بھری آواز سنائی دی۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے ابھی فیس بک پر ان کی پوسٹ پڑھی اور میاں صاحب کے بارے میں ان کے جذبات پڑھ کر سوچ میں پڑ گیا کہ کیا یہ بندہ وہی ہے جو میاں صاحب سے زندگی بھر میں ایک دفعہ بھی نہیں ملا اور اب اتنے برس پردیس میں گزارنے کے بعد بھی اس کا لیڈر نواز شریف ہی ہے۔ جس پر خواجہ صاحب نے کہا جی میں وہی ہوں مگرموجودہ صورت حال سے خوش نہیں ہوں، جس کا اظہار میں نے اپنی پوسٹ میں کیا ہے۔

بات دراصل یہ ہے کہ سیاست ایک عجیب و غریب کھیل ہے اس میں ہار اور جیت دونوں ہوتی ہیں، ان دنوں تو ہماری سیاست کا کوئی ایک والی وارث نہیں، ایک ہی سمت سے دو مختلف پالیسیاں سامنے آ رہی ہیں، ہمارے بعض اداروں میں نو مئی کے سانحہ سے پہلے زبردست ڈسپلن پایا جاتا تھا مگر نیازی صاحب نے طویل اقتدار کی خواہش میں بہت کچھ تباہ و برباد کردیا۔ انتہائی گندی زبان، غلیظ الزامات، جھوٹی خبریں ہمارا کلچر بن کر رہ گیا۔ ادارے تقسیم کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں جو تاحال جاری ہیں، نواز شریف ملک کو اس صورت حال سے نکالنا چاہتے تھے چنانچہ الیکشن کمپین میں مسلم لیگ کا سلوگن ہی یہ تھا ’’پاکستان کو نواز دو‘‘، مگر نوازے کچھ اور لوگ گئے۔ اگر کوئی کہے کہ میاں صاحب کا اس ساری صورت حال میں کوئی حصہ نہیں تو شاید یہ بات ٹھیک نہیں۔ جہاں معاملات بہت الجھے ہوئے ہوں وہاں سلجھانے والے بسااوقات خود بھی الجھ جاتے ہیں۔ جو کچھ ہوا، حکومت سازی کے دوران جو حصے بخرے ہوئے، وہ کچھ ایسے کہ جس کے ہاتھ جو لگا وہ لے اڑا۔ اور ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہے، میاں شہباز شریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مقتدرہ سے کچھ باتیں منوائیں اور کچھ ماننے کیلئے میاں نواز شریف سے مشاورت کی، اللہ جانے ان کا مشورہ مانا گیا یا بات کل پر ٹال دی گئی۔ صدر آصف علی زرداری کی تقریب حلف وفاداری میں میاں صاحب کی باڈی لینگوئج کچھ اور ہی بتا رہی تھی۔ ویسے بھی حکومت سازی کے بعد سے میاں صاحب کی ملنساری کی روایت بھی کمزور پڑتی محسوس ہو رہی ہے۔یہ صورت حال ’’اَن لائک نواز شریف‘‘ ہے۔

مسئلہ ایک نہیں ایک سے کہیں زیادہ ہیں، ایک بڑا تضاد عمران خان کے حوالے سے بھی نظر آتا ہے، ایک طبقہ ان کی نو مئی کی سازش میںشرکت کو بھلا دینا چاہتا ہے اور دوسرا یہ جرم معاف کرنے کا حامی نہیں۔ اور یوں صورتحال گڈمڈ سی ہوکر رہ گئی ہے اور اداروں کے ڈسپلن پر سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ اس سچویشن میں میاں صاحب کو اپنی موجودگی کا بھرپور مظاہرہ کرنا چاہیے ، وہ پارٹی کی میٹنگز اور مشاورت میں شامل ضرور ہوتے ہوں گے مگر لوگ اپنے لیڈر کو اپنے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں، صحافیوں سے ملاقاتیں کریں، ادیبوں اور دانشوروں سے اپنے پرانے روابط بحال کریں اور اس کے علاوہ بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاسکتے ہیں، ضرور کریں۔ خواجہ اشرف اور ان کے دوسرے لاکھوں چاہنے والے انہیں فزیکلی بھی اپنے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں۔

آخر میں حال ہی میں شائع شدہ میری کلیات ’’ملاقاتوں کے بعد‘‘ سے چند اشعار۔

آنکھوں میں باقی رہ گئے اب تیرے خدوخال سے

لب پہ ہیں کچھ سوال سے دل میں ہیں کچھ ملال سے

تُو جو گیا تو یوں لگا تنہا ہوں کائنات میں

راتیں تھکی تھکی میری دن بھی میرے نڈھال سے

کام ہیں اور بھی مجھے کچھ تو کرو میرا خیال

آتے ہو جب خیال میں جاتے نہیں خیال سے

تجھ سے حسیں غزل کوئی مجھ سا غزل سرا کوئی

دنیا میں ہو اگر کوئی واضح کرو مثال سے

اس سے گلہ عطاؔ مجھے، اتنا سا ہے کہ وہ مجھے

سمجھا نہیں ہے آج تک، غافل ہے میرے حال سے

تازہ ترین