• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پشاور ہائی کورٹ نےیہ بات واضح کرتے ہوئے کہ جو پارٹیاں عام انتخابات میں حصہ نہیں لیتیں ،خصوصی نشستوں پر ان کا حق نہیں بنتا، الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئےسنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستیں خارج کردیں۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں جسٹس اعجاز انور، جسٹس عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔8فروری 2024ءکو ہونے والےعام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کیلئے ایک بڑا مسئلہ خواتین اور اقلیتوں کیلئے مختص نشستوں کا حصول بن کر ابھراہے ۔ جنوری کے اواخر میںالیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی الیکشن نہ کروانے پر پی ٹی آئی سےانتخابی نشان واپس لے لیا تھااور اس کے امیدواروں نے آزاد حیثیت سے عام انتخابات میں حصہ لیا۔الیکشن رولز 2017ءکے تحت آزاد حیثیت میں منتخب امیدوار الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات میں کامیابی کے حتمی نوٹیفیکیشن کے اجرا کے تین دن کے اندر کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار ایسا نہیں کرتے تو انھیں مخصوص نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑسکتے تھے۔یہ بات مدنظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی نے اپنے اراکین کو سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا حکم دیا تھا۔ سنی اتحاد کونسل پاکستان میں ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے ،جو 2001ءمیں قائم کی گئی تھی اور اس وقت اس میں جماعت اہل سنت، مرکزی جمعیت علمائے پاکستان، عالمی تنظیم اہل سنت، اتحادالمشائخ پاکستان،انجمن طلبہ اسلام اور انجمن اساتذ ہ پاکستان شامل تھیں ۔حالیہ انتخابات کی روشنی میں آزاد حیثیت سے جیتنے والے امیدوار جن کی اکثریت پی ٹی آئی کی ہم خیال یا اس کی رکنیت کی دعویدار ہے ،نے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے خیبر پختونخوا، پنجاب اور قومی اسمبلی میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ۔اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے 4مارچ کو جاری کردہ اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ سنی اتحاد کی درخواست میں قانونی سقم ہیں، جن کا کوئی حل موجود نہیں اور قانون کے مطابق جماعت نے مخصوص نشستوں کیلئے ضروری فہرستیں بھی مقررہ وقت پر فراہم نہیں کیں۔فیصلے میں کہا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی بلکہ سیاسی جماعتوں کو ان کی جیتی ہوئی سیٹوں کے تناسب سے دی جائیں گی۔اس فیصلے کی روشنی میں پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر علی ظفر نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قرار دیا تھا کہ مخصوص نشستوں کی وہی سیاسی جماعتیں مستحق ہوسکتی ہیں جو اپنے تشخص پر الیکشن جیت کر آئیں ۔یہی بات پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں ملتی ہے ،جس کی کارروائی میں بحث کے دوران فاضل بینچ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل علی ظفر پر واضح کیا کہ آپ نے ایسی پارٹی جوائن کی جس نے کوئی سیٹ جیتی ہی نہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے متن کے مطابق سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے انتخابی نشان کے باوجود آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا جس کی تصدیق خود ان کی پارٹی نے کی۔پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے اور انتخابی نشان نہ ملنے کے تناظر میں تجزیہ کار اور خود پی ٹی آئی کے بعض سرکردہ رہنما پیدا شدہ صورتحال کو اپنے ہی لوگوں کی غلطی قرار دے رہے ہیں۔شیر افضل کا کہنا ہے کہ سنی کونسل سے اتحاد ہماری غلطی تھی جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا، ان کے بقول پی ٹی آئی کے وکلا اب خود سیاستدان بن گئےہیں۔پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ جانے کا جو فیصلہ کیا ہے ،حالات کا تقاضا ہے کہ اس کے انجام پذیر ہونے کا انتظار کیا جائے اور تمام ارکان بلاتفریق پارلیمان کی کارروائی کا اس کے تقاضوں کے مطابق حصہ بنیں۔

تازہ ترین