• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ایک دوست ’’ع‘‘ کا کہنا ہے کہ وہ ’’سر منڈواتے ہی اولے پڑے‘‘ والا محاورہ بچپن سے سنتا آ رہا تھا چنانچہ اس نے اس محاورے کے صحیح یا غلط ہونے کا اندازہ لگانے کے لئے الٹے استرے سے اپنا سر منڈوا ڈالا بلکہ بعد میں حجام سے فرمائش بھی کی کہ وہ آم کی کھوکھلی گٹھلی سے اس ’’سائبیریا‘‘ میں خرخرا بھی کرے۔ یہ خرخرا کرانے کا خیال اس کے دل میں یوں آیا کہ بقول اس کےگھوڑے کو جب اس کا سائیس خرخرا کر رہا ہوتا ہے تو گھوڑے کے چہرے پر وہ شانتی نظر آتی ہے جو ایک طویل گیان دھیان کے بعد سادھوئوں کے چہروں ہی پر نظر آ سکتی ہے۔ مگر ع کا کہنا ہے کہ الٹے استرے سے سرمنڈوانے اور پھر آم کی گٹھلی سے خرخرا کرانے کے بعد جب اس شانتی کا معائنہ کرنے کے لئے آئینے میں اپنا سر دیکھا تو اسے شانتی کا احساس تو نہ ہوا البتہ اندازہ ہوا کہ کچھ لوگ سوتے وقت بھی سر پر سے ٹوپی کیوں نہیں اتارتے؟ ع اس سارے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ لوگ دراصل ٹوپی سے ’’ستار العیوب‘‘ کا کام لیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ سرمنڈوانے کے بعد اولے پڑنے والی بات دراصل استعارہ ہے یعنی اولے چہرے پر بارہ بجنے کی صورت میں بھی پڑ سکتے ہیں اور گل رخوں کی سرد مہری بھی اولے پڑنے ہی کے مترادف ہے۔

مگر میں ع کو جانتا ہوں وہ ایک قنوطی شخص نہیں ہے بلکہ وہ ہر حالت میں ’’انسان عظیم ہے خدایا‘‘ گنگنانے والا شخص ہے، خواہ یہ عظیم اپنے برادر محمد عظیم کی طرح برائے نام عظیم ہی کیوں نہ ہو۔چنانچہ ان دنوں ع ہر وقت سرمنڈوانے کے ’’فضائل‘‘ بیان کرتا رہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سرمنڈوانے سے پہلے اس کے دماغ پر مختلف طرح کے بوجھ رہتے تھے، سرمنڈوانے سے چند اونس بوجھ کم ہوگیا ہے، پہلے وہ بزرگوں کے سامنے بھی ننگے سر جاتا تھا اب چھوٹوں کے سامنے بھی اس وقت تک نہیں آتا جب تک سر کو ٹوپی سے ڈھانپ نہ لے، پہلے کچھ صالحین اسے لچا لفنگا سمجھتے تھے مگر اب ان سے ع کے تعلقات بہتر ہو گئے ہیں۔مثلاً وہ ایک صاحب دستار کے اور بھی زیادہ قریب ہوگیا ہے کیونکہ ع نے انہیں بتایا ہے کہ یہ ہیئت کذائی میں نے آپ سے اظہار یک جہتی کے لئے اپنائی ہے۔

ع نے سرمنڈوانے کی جہاں اور بہت سی برکتیں گنوائی ہیں وہاں ایک برکت یہ بھی گنوائی ہے کہ جب سرپر بال تھے تو وہ گرتے بہت تھے اب جبکہ سر پر بال نہیں ہیں لہٰذا وہ گرتے بھی نہیں ہیں اور یوں اس کی ایک فکر بالکل ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ اس تجربے سے ع اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اگر غریب ختم کردیئے جائیں تو غربت بالکل ختم ہو کر رہ جائے گی اسے یقین ہے کہ صاحبان اقتدار اس کے اس نسخے پر پہلے سے زیادہ دلجمعی کے ساتھ عمل کریں گے۔ ع کے نزدیک سرمنڈوانا ایک بہت ٹائم سیونگ فعل ہے۔ پہلے صبح کی تیاری میں زیادہ وقت بال سنوارنے میں لگتا تھا اب یہ وقت بالوں کی بجائے بال بچوں پر صرف کیا جاسکتا ہے کیونکہ بالوں کی سیوا صرف اتنی رہ گئی ہے کہ صبح اٹھ کر ٹشو پیپر سے سر صاف کر دیا جائے یا منہ دھوتے وقت درمیان والی دو انگلیوں سے سر پر مسح کرلیا جائے۔ تاہم ان دنوں ایک اختیاط لازمی ہے اور وہ یہ کہ اگر سر پر ٹوپی نہ ہو تو بازار سے گزرتے وقت ان مفسد قسم کے لوگوں پر کڑی نظر رکھی جائے جو بال صفا لوگوں کو دیکھ کر دائیں ہاتھ کو مٹھی کی شکل دیتے ہیں اور پھر درمیان والی انگلی کے جوڑ والے حصے کو خم دے کر اس سے ٹھونگے کا کام لیتے ہیں یہ خطرناک ہتھیار ہے جس سے سر میں روبڑا بھی پڑسکتا ہے۔

میرا دوست ع ان چھوٹے موٹے خطرات کو خاطر میں نہیں لاتا تاہم کچھ امور ایسے ہیں جن سے وہ خاصا پریشان ہے اس کا کہنا ہے کہ ان دنوں اس کا موڈ اکثر خراب رہتا ہے جس پر لوگ پوچھتے ہیں کہ صبح تم نے کس کا منہ دیکھا تھا حالانکہ اس نے آئینے میں صبح صبح اپنا ہی منہ دیکھا ہوتا ہے، سر پر مسلسل ٹوپی رکھنے سے اس کے سر میں کھجلی بھی ہوتی ہے اور کھجلی کے لئے ٹوپی اتارنا پڑتی ہے۔ یہ کھجلی تنہائی میں ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن پبلک میں ہونے کا مطلب ’’بصد سامان رسوائی سربازار می رقصم‘‘ والے مصرع کی عملی تفسیر بیان کرنا ہے۔ ع کو سرمنڈوانے کے بعد سے ایک تشویش یہ بھی ہے کہ کالے بالوں کی بجائے ننھے منے سفید بال جڑوں میں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ خضاب تو انسان لگاتا ہے، قدرت تو نئے بال ڈائی کرکے نہیں بھیجتی۔ تاہم ع اب صرف بال چاہتا ہے خواہ وہ سفید ہی کیوں نہ نکلیں اس کا کہنا ہے کہ ’’رازق‘‘ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے چنانچہ کالے یا سفید بالوں سے کوئی فرق نہیںپڑتا۔ ان دنوں ع اقبال کا یہ مصرعہ بطور دعا گنگناتا رہتا ہے، جس میں شاہیں بچوں کو ’’بال و پر‘‘ دینے کی دعا کی گئی ہے۔

تازہ ترین