ہماری پھوپھی بڑی زندہ دل خاتون تھیں۔ اپنے وقت کے ہائی فیشن میں رہتیں اور فلموں کی بڑی شوقین۔بہار کالونی سے ہمارے ہاں صدر کے فلیٹ آتیں تو رات رک جاتیں اور ہمیں تا زہ دیکھی فلم کی کہانی سناتیں اور وہ بھی ایسے کہ کردار جی اٹھتے۔ پھر وہ ایک دن ہمیں فلم دکھانے لے گئیں۔ ریگل سینما میں ریحانہ اور یعقوب کی سگائی لگی ہوئی تھی۔ ہال کا اندھیرا، جگمگاتی اسکرین، چلتے پھرتے لو گ۔ اگلے دن ہماری بحث چھڑ گئی کہ جب ہیر وہیروئن گانا گا تے تھے تو باجے کی آواز کہاں سے آتی تھی۔ آ پا ہم سے دوبرس بڑی تھیں کہنے لگی تم نے دیکھا نہیں تھا،ہیرو کے ہاتھ میں باجا تھا اورہیروئن گاتی تھی۔ پھر و ہ باجا ہیروئن کودے دیتا اور خود گانے لگتا۔
اب آپ یہ سوچیئے کہ پھوپھی نے ہمیں جس تجربے کا تحفہ دیا اسکی کیاقیمت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری زندگی دو کاموں میں گزرتی ہے۔ پیسا کمانااور تجربات اکٹھے کرنا۔ پیسا کمانا تو سامنے کی بات ہے لیکن زندگی کے گوناگوں تجربات جمع کرنا اور اسے اپنا اثاثہ قرار دینا شاید ایک اجنبی تصور ہو۔تو ایسا کرتے ہیں کہ یہاں پر ٹھہر کر دیکھتے ہیں کہ زندگی کے تجربوں سے کیا مراد ہے؟
آپ اسکول جاتے ہیں۔ یہ ایک تجربہ ہے،جس نے کبھی اسکول کامنہ نہیں دیکھا وہ اس تجربے سے محروم ہے۔آپ کالج، یونیورسٹی گئے۔مگر میٹرک کے بعدجو ملازمت پرمجبو ر ہوگیا اسکی حسرت دیکھاچاہیے۔ آپ پڑھنے کے بعد ایک اچھی نوکری پر لگ گئے۔ بڑا اہم تجربہ ہے مگر بیروزگار کو تو یہ تجربہ ملا ہی نہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کی وضاحت ہو جائے کہ تجربے کے لفظ سے ہمارے ذہن میں انگریزی کے دو لفظ آتے ہیں ایکسپیریمنٹ اورایکسپیرینس۔ تو ہماری آج کی گفتگو میں تجربہ صرف ایکسپیرینس کے معنوںمیں استعمال ہو گا۔ پھر ایکسپیرینس کے بھی دو مفہوم ہیں۔ اول کسی کام کو سیکھ لینا، دوئم کسی واقعے کا اثر قبول کر نا۔تو یہ اثر کی کیفیت ہی زندگی کا تجربہ ہے۔
کچھ تجربے بڑے ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ چھوٹے بھی۔چھوٹی چھوٹی خوشیاں، نت نئے ذائقے، کوئی میچ جیتنا،کوئی جو شیلی تقریر کرنا، دوستوں کے ساتھ پہلی پکنک،''پرانی جینز اور گٹار'' بس یادیں رہ جاتی ہیں۔
کچھ تجربے وہ ہیں جو بغیر پیسوں کے مل جاتے ہیں۔ ابا کو فٹنس کا خیال آیا۔وہ فجر کے بعد واکنگ پر جانے لگے۔ ایک دن مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ ہم اپنے فلیٹ سے نکلے اور الفنسٹن اسٹریٹ سے ہوتے ہوئے ملکہ وکٹوریہ کے مجسمے تک پہنچ گئے۔ ابا تیز تیز چلتے تھے، مجھے ان کا ساتھ دینے کیلئے تھوڑی دوڑبھی لگا نا پڑتی تھی۔الفنسٹن صاحب کی سنسان سڑک، صبح کی ٹھنڈی ہوا اور ابا کا ساتھ۔ کیا ایسا تجربہ اب زندگی بھر ممکن ہے؟
اب ایک اور طرح کا تجربہ۔چیک زبان میں ایک کہاوت ہے کہ آپ جتنی زبانیں جانتے ہیں آپ اتنے ہی گنا ہو جاتے ہیں۔ چیکو سلواکیہ ایک چھوٹا سا ملک یوروپ کے مرکز میں، اب اور چھوٹا ہو گیا ہے ''جمہوریہ چیک''۔ اسکی آبادی ہمارے نارتھ ناظم آباد جتنی ہے۔کوئی انکی زبان کا ہے کو سیکھے گا، اس لئے ہمارے جتنے پرانے پروفیسر تھے وہ سب جرمن جانتے تھے،جو نئے اساتذہ وہ سب انگریزی۔ لیکن پرانے پروفیسروں نے بھی زمانے کے تیور دیکھ کر انگریزی سیکھ لی۔
وطن ِعزیز میں بھی کئی زبانیں جاننے کا چلن ہے۔ اردو اور انگریزی توسب کی زبان ہے، لیکن سندھی دوست تین زبانیں بولتے ہیں اور بلوچی احباب چار۔میں بھی ایک وقت میں چار زبانیں بول لیتا تھا۔ ہر زبان کے ساتھ اسکا کلچربھی چلا آتا ہے، ادب اور تاریخ کے دریچے کھلتے ہیں۔ اب کیا عرض کروں،میری چیک اورروسی کو زنگ لگ گیا ہے۔
ہمارے بزرگ عربی اور فارسی پر دسترس رکھتے تھے۔ ہم نے بھی بہار کالونی کے اسکول میں ساتویں جماعت میں فارسی پڑھی، غائب،حاضر، متکلم اور انکے واحد جمع، کل چھ صیغے ہوئے۔ پھر ماضی، حال،مستقبل، اب اٹھارہ صیغے ہوگئے۔ علوی صاحب نے ایسی ترتیب سے پڑھایا کہ مجھے آمد نامہ یاد کرنے کی ضرورت نہ پڑی۔ ششماہی امتحان کی کاپیاں ملیں تو ایک ہم جماعت نے کہا ''ذرا اپنی کا پی تو دکھاؤ'' میں نے دکھا دی۔پھر تو لڑکوں کا تانتا بندھ گیا۔ پتہ چلا کہ جن لڑکوں نے آمد نامہ کچھ آدھا،کچھ پو نا،لکھا تھا انکی کا پیوں پر ہمارے استاد نے لکھ دیا تھا کہ فلاں طالبعلم کی کاپی دیکھو۔ایک چھوٹی سی شاباش زندگی کا سرمایہ ہوگئی۔
ایک تجربہ دوست بنا نے کا ہے۔سن 1958 میں جب ہم ڈی۔جے۔ پہنچے تو ہماری ملاقات جمیعت کے ایک پرجوش کارکن سیہو گئی۔میرا جھکاؤ این۔ ایس۔ایف کی طرف۔ اب خالی پیریڈ ہے تو بحث ہورہی ہے۔ ریستوران میں بیٹھے تو بحث،کسی کے گھر پر ملے تو وہاں بھی۔ بارہ برس جھگڑتے گزر گئے۔ 1970 کے الیکشن سر پر آگئے۔ ہمارا اختلاف عروج پر۔ پھر کیا ہوا۔ ہم نے مشرقی پاکستان کھو دیا۔ ہمارا اختلاف کم ہو گیا۔ اسکے بعد ہم اسلامی سوشلزم اور نظام ِمصطفٰے کے دائرے میں گھومنے لگے۔ ہمارا اختلاف گھٹتا گیا۔
پچھلے بائیس برس سے ہم دونوں گلستان جوہر میں دو گلی کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ لیکن ہم ہر ہفتے نہیں ملتے، مہینے بھر میں بھی نہیں۔ جب دو ڈھائی مہینے ہو جاتے ہیں اور کچھ خالی خالی سا لگنے لگتا ہے تب ہماری ملاقات ہوتی ہے۔ اب میں کینیڈا آجاتا ہوں۔ آٹھ مہینے پر جاوں گا تو معلوم ہے کیا ہوگا؟ جو بات میں کروں گا وہ کہیں گے '' اقبال محسن تم نے بالکل ٹھیک بات کی''۔ جو وہ کہیں گے اس پر میں صاد کر دونگا۔ ہم بوڑھے نہیں ہوئے، نہ ہمارے دل۔ بس، اتفاق رائے کا پالا ہمیں مار گیا۔ ہماری دوستی کو چونسٹھ سال ہونے کو آتے ہیں، پر جب بیٹھتے ہیں تو لگتا ہے ڈی۔جے۔اٹھ کر ہمارے پاس آگیا۔
ایک تجربہ عشق کا ہے۔ ہر کسی کے نصیب میں کہاں۔ جس اہل دل کو ملا،مل گیا۔ عشق ہمارے ہاں شجر ممنوع ہے۔ البتہ حسن پرستی کی چھوٹ ہے۔ ہم اُسے ہی عشق سمجھ لیتے ہیں۔ بہر صورت،بڑا تجربہ ہے۔ اسکے لئے پیسا نہیں، آن اور جان کی بازی لگانا پڑتی ہے۔
آپ کو رفعت آفریدی اور کنور احسن کے قصّہ حسن و عشق کی خبر نہیں پہنچی؟ نارتھ ناظم آباد سے متصل ایک آبادی میں دو خوشحال خاندان ایک آفریدی دوسرا کنور، مدت سے ہمسائیگی اختیار کئے تھا۔ جب کنور احسن کے بڑے پیام لئے آفریدیوں کے گھر آئے تو انہوں نے منہ پھیر لیا۔ دونوں متوالوں نے فرار اختیار کی اور ملتان جا، کورٹ میر ج کرلی۔ آفریدیوں نے پرچہ اغوا کا کٹوایا اور احسن ہتھکڑیاں پہنے درمیان دوسپا ہیوں کے عدالت کے سامنے رو برو حاضرتھا کہ رفعت کے ماں جائے نے آتشیں اسلحے کا منہ کھول دیا۔ شہر کراچی ہل کر رہ گیا۔ چار گولیاں پیوستِ بدن ہوئیں، مگر جسے اللہ رکھے۔ رفعت کے بیان حلفی نے مقدمہ فیصل کر دیا۔ ملکوں ملکوں'' رومیو جولیٹ جدید'' کی داستان عام ہوئی اور ایک فرنگی ایلچی نے اپنے ملک کاپروانہ راہداری عطا کیا۔ احسن آج بھی پائے لنگ لئے پھرتا ہے پر مع اہل و عیال دیارِ مغرب میں شاداں و فرحاں ہے۔
یہ ہیں زندگی کے رنگا رنگ تجربے۔ انہیں کے اثرات سے ہماری شخصیت بنتی ہے۔ آپ زندگی کا میلہ کہہ لیجئے۔ کوئی اسے ''تری محفل '' کہے گا اور دونوں کو غم ہو گا کہ ''ہم نہ ہونگے ''۔ تو یہ ایک رویہ ہے جواس وقت سامنے آتا ہے جب چراغ کی لو ٹمٹما رہی ہوتی ہے۔ دوسرا رویہ یوں ہے کہ کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاوں گا۔ میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاونگا۔ وقت کے دھارے میں ہماری ہستی ایک قطرے کی سی ہے جسکی معرا ج دریا میں فنا ہو جانا ہے۔ جن کی زندگی تجربات سے بھری پُری ہوتی ہے وہ فنا کو قدرے آسانی سے گلے لگا لیتے ہیں۔
تو کیا اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم زندگی میں پیسا کماتے ہیں اور ان پیسوں سے اپنے لئے تجربے اکٹھے کرتے ہیں جن کے زیر اثر ہم جیتے ہیں۔ جب ہم زندگی کی شفق کے قریب پہچتے ہیں تویہی تجربات ہمارا سرمایہ ہوتے ہیں۔ کو نسا پیسا کب کما یا اور کہاں خرچ ہوا۔ نہ یاد رہتا ہے۔ نہ اسکی کوئی اہمیت ہے۔
اگر آپ اس نقطہ نظر سے اب بھی متفق نہیں تو آیئے زندگی کے کچھ اور پہلو دیکھتے ہیں جس سے یہ بھی کھل جائیگا کی بنجارہ کون اور بینک میں بیلنس کس چیز کا۔
٭٭٭
ہم میں سے کئی کم خوش قسمت واقع ہوئے ہیں۔ وہ جتنا کماتے ہیں اخراجات اس سے زیادہ۔ لیکن اکثریت کچھ نہ کچھ بچت کر لیتی ہے۔ ہمارے ہاں بچت بینک میں رکھنے کا رواج نہیں۔ پہلے گاڑی کی دھن پھر ''اپنا گھر اپنی جنت'' کی فکر، پھر بچوں کو یونیورسٹی بھیجنا اور بیٹیوں کو رخصت کرنا۔ ان سب کے بعد زندگی ر ہی تو اب ریٹائرمنٹ کیلئے اندوختہ۔
ہم میں سے اکثر کی زندگی کا یہی سانچہ ہے۔ آپ کی اب تک کی زندگی ایک ڈّھر ے پر چلی آرہی تھی۔ اسے آٹو پائلٹ کہتے ہیں۔ اگر آپ اس روش سے ہٹنا چاہتے تو آپ کو انقلابی بننا پڑتا۔ آپ گاڑی نہ خریدتے اور کہتے جب بائیس کروڑ عوام بسوں اور موٹر سائیکل پر چلتی ہے تو میں کیوں گاڑی کے پیچھے بھاگوں۔بیگم اپنا گھر بنانے کی اہمیت جتاتیں تو آپ کہہ دیتے، بیوقو ف گھر بناتے ہیں، عقلمند اس میں کرائے پر رہتے ہیں۔
اچھا ہوا،آپ ڈٹے رھے۔ لیکن ابھی آپ پچاس یا ساٹھ کے پیٹے میں ہیں۔ صحت بھی ہے۔ طبیعت میں جولانی بھی۔ بیگم بھی ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ آخر آپ کو ریٹائرڈ لائف کتنی ملے گی۔ اور اسکے لئے کتنی رقم درکار ہوگی۔ تو اگر آپ کوئی حساب لگا سکتے ہیں تو اضافی رقم خرچ کرنے نکلیئے۔ اس سے تجربے خرید ئے۔ ورنہ آپ سّتر کی دہائی میں داخل ہوئے تو پھر بہت سی چیزوں کے قابل نہیں رہیں گے اور جب آپ اسّی کی دہلیز پار کرلیں گے، پھر فیصلے بھی آپ کے ہاتھ میں نہیں رہیں گے۔ بچے بتایا کریں گے کہ آپ کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔۔اور اسکے آگے؟
سب ٹھا ٹھ پڑا رہ جاوے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ
جو میں یہ کہوں کہ اضافی رقم خرچ کرنے کا پلان بنا ئیے تو آپ کا جواب ہوگا '' واہ،میں اللّے تللّے میں اڑا دوں۔کیا میرے بچے نہیں۔ ان کا کوئی حق نہیں؟'' تو میرے عزیز دوست،آپ اپنے انتقال کا انتظار کیوں کر رہے ہیں۔ اضافی رقم کا جو حصہ آپ بچوں کی وراثت میں چھوڑ جانا چاہتے ہیں، وہ ابھی کیوں نہیں دے دیتے۔ اس رقم کی جو قدر انکے لئے ابھی ہے، دس سال بعد نہیں ہوگی۔ انکی اپنی آمدنی بڑھ چکی ہو گی وہ خود صاحب جائیداد ہو چکے ہونگے۔
لیکن آپ ایسا نہیں کرتے۔ آپ کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ اگر میں زیادہ زندہ رہ گیا تو؟ بس، اسی خوف سے آپکو چھٹکارہ پانا ہے۔ طویل العمری کے اخراجات کا خوف، سرجری اور اسپتال کے بلوں کا خوف۔ پینشن رک جانے کا خوف۔ اندیکھی اور انجانی صورتِ حال کا خوف۔ دور کیوں جائوں، میری اپنی مثال ہے۔ ایک کم بیس برس پہلے جب میں ریٹائر ہوا تو مجھے جو یکمشت رقم ملی وہ آٹھ لاکھ تھی۔ اتنی اس لئے کہ میری ملازمت میں ایک وقفہ آگیا تھا۔ لیکن یہ وہی رقم تھی جو اسوقت ہنڈا سٹی کی قیمت تھی۔
جب میں ڈین بنا تھا تو میرے پاس پندرہ سال پرانی خیبر تھی۔ ایک دلدار دوست نے کہا '' اب آپ نئی گاڑی لے لیجئے ''۔ ڈین کو چھ سو روپے الاؤنس ملتے تھے۔ میں نے جواباً کہا اگر اس سے نئی گاڑی ملتی ہے تو لے لیتا ہوں۔ خیر اس ترکی بہ ترکی کو جانے دیجئے۔ میرے پاس اب اچھاموقع تھا کہ پرانی خیبر کی جگہ نئی ہنڈا لے لوں۔ مگر برا ہو خوف کا، بیگم اکثر بیمار رہتی تھی،سوچ میں پڑ گیا کہ اسپتال داخل ہوئی تو میں پیسوں کیلئے کہاں بھا گتا پھروں گا۔
مگر پھر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ میر ی تقرری وائس چانسلر کی کرسی پر ہوگئی۔ اور اس سے فارغ ہونے کے بعد بھی میرے ہا تھ میں کام رہا اور ہر ماہ یافت ہوتی رہی۔ وہ آٹھ لاکھ پچھلے سال تک میرے اکاؤنٹ میں پڑے تھے۔ یہ تو ہوا خوف کا انجام۔ لیکن تین سال پہلے میں نے ارادہ کیا کہ اب مجھے نہ پیسے رکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی رہنے کے لئے ایک گھر کے علاوہ کوئی اور اثاثہ۔ چنانچہ وہ آٹھ لاکھ روپے اور جوکچھ اور تھا، سب نمٹا دیا۔ اوراب میرا بیلنس زیروکے قریب ہے۔
یہ ہے وہ مشورہ جو ''Die with Zero ''کے مصنف بِل پَر کنز ہر اس فرد کو دیتے ہیں جس کے پاس ایک اضافی رقم موجود ہے۔ ہم زندگی کے اُس سرے پر ہیں کہ کوچ کا نقارہ اب بجا کہ تب بجا۔ پر جب عمر کا آخر آتا ہے ایک لرزہ سا چڑھ جاتا ہے، کیا موت سے پہلے مرنا ہے، تم کو بہت کچھ کرنا ہے۔ لیجئے میں نے مسٹر پر کنز کو اپنے انشار جی سے خلط ملط کر دیا۔
چلتے چلتے ایک قصہ اور سن لیجئے۔ میاں بیوی اور دو بیٹوں کا ایک خوشحال کنبہ بڑے سے دو منزلہ مکان میں رہ رہا تھا۔ بیٹے ایک ایک کر کے بیرون ملک چلے گئے،کچھ برس بعد بیوی کا انتقال ہو گیا۔ اب یہ گھر انہیں بھائیں بھائیں کرنیلگا، روٹی پکا نے بوا آتی، جھاڑو پوچھا ماسی، جمعدار کچرا اٹھا لے جاتا، مالی پودوں کو پانی دینے آتا اوررات میں گیٹ پر چوکیدار۔ سوچ میں پڑ گئے کیا میں انہی ملازموں کی خدمت کیلئے زندہ ہوں؟ انہوں نے ایک پلان بنایا۔ مکان یا بنگلہ یا کو ٹھی آپ ا سے جو بھی کہیں، جتنے کڑوڑ میں بکتی تھی، بیچ دی۔اور پیسہ بینک میں رکھ دیا۔
ایک اچھے ہوٹل میں ایک کمرہ ماہانہ کرائے پر لے لیا۔ صبح کا ناشتہ کمرے میں آجاتا ہے، کچھ دیر اخبار پڑھا،کچھ ٹی وی دیکھا۔ دوپہرکے کھانے کیلئے ڈائنگ ہال آگئے۔ سہ پہر تھو ڑ ی دیر قیلولہ کرکے واکنگ پر نکل گئے۔ واپس آکر ہوٹل کی لابی میں بیٹھ گئے۔ کچھ دوست وہیں بن گئے۔ کچھ پرانے دوستوں کو فون کرکے بلا لیا کہ برج جمے گی، کافی چلے گی۔ ہر پندرھواڑے پکنک کا پروگرام بھی بن جاتا ہے۔ انکی صحت پہلے سے بہت بہتر ہے اور ہشاش بشاش رہتے ہیں۔
یہ تو ہوا قصہ، اب عمل کی دنیا میں آئیے۔جتنا جینے کی امید ہے، اسکا حساب کر لیا۔ جو بچوں کو دیناتھا دے دیا،جو فلاحی اداروں کو آپ دینا چاہتے ہیں، وہ بھی ابھی دیدیجئے۔ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ مانتا ہوں کہ آپ وقتاً فوقتاً نکالتے رہے ہیں، جو کچھ ہے وہ مال ِمزّ کی ہے۔ پھر بھی آپ کے پاس اب جو اندوختہ ہے تو اسے اپنے بچوں کے لئے نہ رکھئیے۔ آپ نے انکو اچھی تعلیم دلوائی،تربیت کا خیال رکھا۔ وہ بر سر ِروزگار ہو گئے۔ اب انکو اپنی دنیاآپ بنانے دیں۔
فیس بک والے مارک زکر برگ نے اپنی ننانوے فیصد دولت چیرٹی کو اورایک فیصد اپنی دونوں بیٹیوں کو دینے کا خط لکھ چکے۔ بل گیٹس صحت اور تعلیم کیلے ایک فاؤنڈیشن بنائے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے تینوں بچوں کو اچھی تعلیم دی اب وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں۔ ایک بڑا ورثہ دے کر ہم انہیں اپا ہج نہیں کر دینا چاہتے۔
بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں، ہم ملاز مت پیشہ کے پاس ریٹائرمنٹ پر بھلا کو نسی دولت کے انبار ہوتے ہیں۔ آپ کا بینک بیلنس آپ کی اولاد کیلئے بھی کو ئی بڑی رقم نہیں ہوگی۔ تو پھر کیوں نہ آپ اسے اپنے اوپرخرچ کریں۔
ہاں یہ ضرور ی ہے کہ خرچ کرنے کی ایک حکمت عملی وضع کیجئے۔ جیسے اپنے ملک کے شمالی علاقوں کی طرف چل پڑیں۔ گرمیوں میں نہیں، نو د و لتئے آپکو رستہ نہ دیں گے۔ آف سیزن میں اونی کوٹ پہن کر، ایک ہاتھ بیگم کے شانوں پر اور دوسرے ہاتھ میں چھڑی۔ یقین مانئیے آپ بڑے گر یس فل لگیں گے۔ ُملکِ خدا تنگ نیست - آپ سیاحت کیلئے کسی بھی کھونٹ جا سکتے ہیں۔ بچے ملک سے باہر ہیں تو بار بار جائیے۔ اگر آپ خود باہر ہیں تو وطن واپس آیئے۔
کیوں نہ آپ نیپال نکل جائیں۔ زیادہ دور بھی نہیں، زیادہ خرچہ بھی نہیں۔ امریکی اور یوروپی نوجوانوں کیلئینیپال دنیا کاآخریِ سرا ہے۔ یادش بخیر، ساٹھ کی دہائی میں ہپّی لڑکے لڑکیوں کا نعرہ مستانہ تھا ''کرسمس اِن کھٹمنڈو '' یا '' دوست، ملتے ہیں کھٹمنڈو میں ''۔ لیکن ایک چتاؤنی بھی آپ کے ساتھ کردوں۔ مستنصر نے ایک ہوٹل کا ذکر بڑے چاؤ سے کیا تھا۔ کچھ نوجوان وہاں پہنچے تو کہنے لگے ''یار مستنصر ہاتھ کر گیا۔ یہاں تو کچھ بھی ویسانہیں۔
شادی کی چالیسویں سالگرہ منائیے۔ میں تو پچاسویں منا چکا۔ دوستوں کی محفل جمائیے۔ بات بات پر دعوتیں کیجئے مگر بیگم پر بوجھ نہ ڈالئے۔ اچھے ہوٹل کب کام آینگے۔ عابدہ پروین کا کنسرٹ ہو یا آرٹس کونسل کا تھیٹر۔ عالمی اردو کا نفرانس ہویا کتب میلہ۔ اس کی رونق بڑھائیے۔ آپ نے سنا ہی ہوگا کہ آپکا مال وہی ہے جو کھا لیا، جو پہن لیا،جو صدقہ کردیا۔
اب بس ایک خرچہ باقی رہ گیا اور وہ ہے کفن کا۔ اپنے وطن میں کفن دفن پر کوئی قابل ذکر خرچ نہیں آتا۔ اس لئے یہ ہماری گفتگو کا حصہ نہیں بنتا۔ ہاں اگر قبر پر کتبہ دیارِ مغرب میں لگنا ہے تو اسکے لئے خاصی رقم چاہیئے اور اسکی ایڈوانس بکنگ بھی ہوتی ہے۔
دیکھئے نظیر اکبر آبادی اپنی ترنگ میں کیا کہہ گئے ہیں
کوڑی نہ رکھ کفن کو،تج دے مال و دھن کو
جس نے دیا ہے تن کو، دے گا وہی کفن کو
میں نہیں کہتا کہ آپ بے خطر اخراجات کی الاؤ میں کود جائیں۔ لیکن ہدف پر نظر رکھئیے کہ جب عمر کے ماہ و سال کی نقدی ختم ہو تو بینک اکاونٹ میں بھی نقدی صفر ہو۔
٭٭٭
( مرکزی خیال '' Die with Zero by Bill Perkins '' سے مستعار لیا گیا ہے)