(گزشتہ سے پیوستہ)
ہم کیسی قوم ہیں ہم نے تو وہ تاریخی والٹن ایئرپورٹ جہاں قائد اعظم کئی مرتبہ تشریف لائے جہاں مہاجرین کے کیمپ تھے جہاں مہاجرین کے لیے گلاب دیوی ہسپتال کے ڈاکٹروں نے ایک عارضی ہسپتال قائم کیا تھا ہم نے وہ تاریخی جگہ محفوظ نہ کی ۔کس کس بات کا ذکر کریں۔
ہم کو کس کے غم نے مارا،یہ کہانی پھرسہی
نام آئے گا تمہارا، یہ کہانی پھر سہی
خیر 1955میں لاہور کالج میں بی ایس سی کلاسز کے لیے مرد اساتذہ کی مدد لی جاتی تھی ، مرد اساتذہ کی وجہ سے اس کالج میں سائنس کی تعلیم کا معیار بہت بلند ہوا اور آج بھی اس کالج میں سائنس کی تعلیم کا معیار بہت اعلیٰ ہے اور کالج کی موجودہ پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر اقصیٰ شبیر جو کہ باہر کے ممالک سے تعلیم یافتہ ہیں ان کی قیادت میں یقیناًمستقبل میں کالج کا شعبہ سائنس کے علاوہ آرٹس کا معیار بھی بہت بلند ہوگا ۔آئی ٹی میں بھی اس وقت کالج بہت بہترین تعلیم دے رہا ہے کالج کا شعبہ نفسیات پروفیسر ڈاکٹر آمنہ معظم کی نگرانی میں طالبات کے نفسیاتی مسائل پر بہت ریسرچ کر رہا ہے۔ ماضی میں کبھی اس طرف توجہ نہیں دی گئی تھی۔ بات ہم کر رہے تھے سر گنگا رام کی اس خوبصورت عمارت کی جس کا فن تعمیر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے آج بھی اس کے تمام کمرے روشن اور ہوادار ہیں اگر بجلی نہ بھی ہو تو آپ اولڈ لائبریری میں بڑے سکون سے پڑھ سکتے ہیں۔ پتہ نہیں کس عقلمند نے نئی تعمیرات میں ایسا انداز اختیار کیا ہے جہاں اب بغیر اے سی اور لائٹ کےآپ کسی بھی کمرے میں نہیں بیٹھ سکتے یقین کریں لاہور کالج یونیورسٹی کا کالج سیکشن جس میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں ہوتی ہیں اس کی عمارت یونیورسٹی کی نئی تعمیرات سےآج بھی ہزار درجے بہتر، خوبصورت، پرسکون، ہوادار، ٹھنڈی اور روشن ہے۔ ہمارے خیال میں لاہور میں خواتین کے کالجوں میں یہ واحد کالج ہے جس نے انتہائی خوبصورت اور معلوماتی میوزیم بنایا ہے جب کالج میںبجلی نہیں تھی تو کیروسین آئل کے لیمپ استعمال ہوتے تھے ایک تاریخی کیروسین آئل کا لیمپ بھی یہاں رکھا ہوا ہے ۔ جغرافیہ ڈیپارٹمنٹ میں استعمال ہونے والے پرانے آلات بھی یہاں ہیں۔ کالج کی تمام سابق پرنسپلوں اور یونیورسٹی کےتمام سابق وائس چانسلروں کی تصاویر یہاں لگی ہوئی ہیں۔لاہور کالج کا انٹر سیکشن علیحدہ اور یونیورسٹی علیحدہ علیحدہ ہے۔ یہ ایک خوبصورت تاریخی میوزیم ہے جس سے لاہور کالج کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے۔ قدیم خوبصورت فرنیچر،پرانی کرسیاں، ڈریسنگ ٹیبل سو برس قدیم کتابیں بھی اور کالج کے پرانے پراسپیکٹس تک اس میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔ کاش دوسرے تعلیمی ادارے بھی ایسا کریں کالج میں باقاعدہ ایک عبایہ روم ہے جہاں طالبات اپنے عبایہ پہنتی اور اتارا کرتی تھیںگو کہ اب اس کی حالت کچھ ٹھیک نہیں امید ہے کہ لاہور کالج انٹرمیڈیٹ سلیکشن کی موجودہ پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر اقصیٰ شبیر ا س کالج کی تمام پرانی روایات زندہ کریں گی۔ اس کا سوئمنگ پول دوبارہ قابل استعمال کریں گی۔ کالج کی تمام نمایاں طالبات جو کہ اب زندگی کے مختلف شعبوں میں بڑی کامیاب زندگی بسر کر کے ملک و قوم کی خدمت کر رہی ہیں ان کی تصویریں لگی ہوئی ہیں۔ کاش ایسی خوبصورت روایات کا آغاز دیگر کالج اور یونیورسٹیاں بھی کریں۔
لیں جناب ہم کئی برس بعد مشن روڈ جا پہنچے اتوار کا دن تھا لاہور شہر غیر لاہوریوں سے خالی اور کسی حد تک محفوظ تھا سو ہم جا پہنچے قدیم دو سینما گھروں ناز، نگینہ اور اس کے ساتھ سینٹ جانزچیپل ہے۔چیپل چھوٹا چرچ ہوتا ہے مگر اس میں تعلیم و تربیت کا انتظام بھی ہوتا ہے بہت کم لاہوریوں کو اس کا پتہ ہوگا کہ چیپل اور چرچ میں کیا فرق ہوتا ہےچیپل میں مسیحی عبادت بھی کرتے ہیں اور تعلیم و تربیت بھی دیتے ہیں۔ سینٹ جونز چیپل بہت خوبصورت فن تعمیر کا نمونہ ہے اسکی ڈارک براؤن اینٹیں اور پھر اس پر پرانی طرز کی کھڑکیاں اور کچھ حصہ فرش کا دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔بیل بوٹے اور مختلف رنگوں والا فرش بہت خوبصورت ہے اس چیپل میں لکڑی کا جو خوبصورت کام کیا گیا ہے ویسی نفاست ہم نے آج تک نہیں دیکھی،آپ دیکھیں گے کہ گورے کیا زبردست کام کرتے تھے۔ 1870کا تیار کردہ فرنیچرآج بھی اسی حالت میں ہے کرسیوں کی ڈیزائننگ کیا خوبصورت ہے یہ چیپل جس زمانے میں یہاں قائم کیا گیا تھا اس وقت یہ سارا علاقہ ایک جنگل کا سماں پیش کرتا تھا اس چیپل کے پاس بہت وسیع رقبہ تھا۔ ناز اور نگینہ سینما اس چیپل کی زمین لیز لے کر بنائے گئے ہیں ۔ نازسینما میں1967۔ 1966 میں پاکستان کی پہلی رنگین فلم نائلہ لگی تھی جو ہم نے اپنے والدین کے ہمراہ دیکھی تھی۔اس فلم کی ہیروئن شمیم آرا اور ہیرو دو تھے درپن اور سنتوش کمار اس فلم نے بڑا ریکارڈ بزنس کیا تھا کبھی یہ دونوں سینما بڑے آباد تھے ۔اب نگینہ سینما تو ایک مشروب ساز فیکٹری کاگودام بن گیا ہے اور نازسینما اب اسٹیج ڈراموں کو وقف ہوچکا ہے۔ دونوں سینما گھر کے احاطے اور چیپل سے منسلک جگہ پر سکھ دور کی برجی بھی ہے اس کی تاریخ آئندہ بیان کریں گے کبھی برجی چاروں طرف سے کھلی تھی اور اس کی حالت بہت اچھی تھی مگر اب اس برجی پر کسی نے لوہے کا دروازہ لگا دیا ہے اور تالا بھی، ہم اب اس تلاش میں ہیں کہ اس برجی کااب کون سا محکمہ والی وارث ہے۔ سینٹ جونز چیپل پورا علاقہ قیام پاکستان سے قبل پنجاب دہلی، کلکتہ ،سیلون( سری لنکا) اور آسٹریلیا کابھی علاقہ اس کی حدود میں تھا ڈارسیسیس اس کا اصل نام سینٹ جا نز (مشنری) ڈیونیٹی اسکول تھا یہ چیپل پہلے انارکلی کے قریب ایک کرائے کے بنگلے میں تھا اور 1871 میں یہ موجودہ جگہ جو کہ مہا سنگھ کا باغ تھا اس میں آگیاڈیونیٹی ا سکول میں اسٹوڈنٹس کی ٹریننگ بھی کی جاتی ہے۔ ڈیونیٹی چیپل کے ساتھ پرنسپل کا گھر لائبریری کلاس رومز اور اساتذہ کیلئے کمرے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ افراد کے لیے کوارٹرز تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ کوارٹرزآج بھی موجود ہیں اور ایک احاطے کی صورت میں ہیں۔ جہاں پر سب کے کوارٹرز ایک دوسرے کے سامنے ہیں اور درمیان میں کھلا احاطہ ہے ہم نے جس زمانے میں یہ چیپل دیکھا تھا اس زمانے میں یہاں پر باغ تھا اور چیپل کے جانے کا راستہ بڑا وسیع تھا اب تو ایک گلی میں سے جانا پڑتا ہے۔ شروع میں اس چیپل میں صرف چار سٹوڈنٹس تھے اس چیپل کی عمارت اگرچہ لال اینٹوں سے بنائی گئی تھی اور شمالی اٹلی کا فن تعمیر اپنایاگیا تھا مگر اب یہ لال اینٹ کی عمارت براؤن رنگ اختیار کر چکی ہے۔ (جاری ہے)