• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی گجرات کے ضلع جوناگڑھ کے ایک چھوٹے سے گائوں میں اسکول ٹیچرہیراچند گوردھن بھائی کے ہاں پیدا ہونے والے دھیرو بھائی نے معاش کی خاطر برطانیہ کی باجگزا رکالونی Adenکا سفر کیا ۔وہاں پیٹرول پمپ پر نوکری کی ۔اس طرح کے معمولی کام کرکے کچھ پیسے جمع کئے اور 1958ء میں بھارت واپس آکر اپنے کزن کے ساتھ ذاتی کاروبار شروع کیا۔بمبئی کے مسجد بندر علاقے میں کھولا گیا پہلا دفتر 350مربع فٹ پر مشتمل تھاجس میں صرف ایک میز اور تین کرسیاں تھیں۔چند برس بعد ہی اختلافات شروع ہوگئے تو دھیرو بھائی نے 1965ء میں اپنے کزن کے ساتھ شراکت داری ختم کرکے علیحدہ بزنس شروع کرلیا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کا شمار شہر اور پھر ملک کی بڑی بڑی کاروباری شخصیات میں ہونے لگا۔24جون 2002ء کواس پر فالج کا جان لیوا حملہ ہوا۔یہ دوسرا حملہ تھا پہلی بار فروری1986ء میں اٹیک ہوا جس کے نتیجے میں دایاں ہاتھ مفلوج ہوگیا مگر اس بارایک ہفتہ قوما میں رہنے کے بعد فوت ہوگیا۔جس طرح ہر امیر خاندان میں ہوتا ہے ،یہاں بھی اثاثہ جات کی تقسیم کیلئےجھگڑے ہونے لگے۔چونکہ کسی قسم کی وصیت موجود نہیں تھی اس لئےدونوں بھائی مکیش اور انیل میں اختلافات پیدا ہوگئے۔2005ء میں ان دونوں کی والدہ کوکلا بین دھیرو بھائی نے مصالحت کروائی اورکاروبار کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔تیل اور گیس کا بزنس مکیش کے حوالے کردیا گیا جبکہ بجلی ،ٹیلی کمیونیکیشن اور فنانشل سروسزکا کام انیل نے سنبھال لیا ۔بظاہر زیادہ اثاثہ جات اور کاروباری دفاتر انیل کے حصے میں آئے لیکن غلط فیصلوں کے سبب وہ نہ صرف دیوالیہ ہوگئے بلکہ ایک موقع پر مکیش کو اپنے چھوٹے بھائی انیل کو جیل جانے سے بچانے کیلئے سویڈش کمپنی کو 8کروڑ ڈالر اپنی جیب سے ادا کرنا پڑے۔انیل امبانی جن کے اثاثہ جات کی مالیت 2008ء میں42ارب ڈالر تھی ،اب ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں اور وہ سڑک پر آچکے ہیں جبکہ مکیش امبانی کی دولت کا تخمینہ 120ارب ڈالر ہے اور ان کا شمار دنیا کے دس امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔

مکیش امبانی کے صرف ایک کاروبار ریلائنس انڈسٹریز کی سالانہ آمدنی 100ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔مارچ کے آغاز میں مکیش امبانی نے اپنے بیٹے اننت امبانی کی منگنی کی خوشی میںPre-Wedding کے نام سے شاندار تقریبات کا انعقاد کیا تو ہمارے ہاں تبصروں ،تجزیوں اور لطیفہ گوئی و جگت بازی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔جام نگر میں کئی دن تک جاری رہنے والی شاہانہ تقریبات میں دولہاکی والدہ نے چار کروڑ 70پائونڈ کا زمرد کا ہار پہنا ہوا تھا۔دنیا بھر سے آئے 1200مہمانوں کیلئے پرتعیش خیمے ہی نہیں چوٹی کے باورچیوں کے تیار کردہ 500پکوان بھی زیر بحث آئے۔صرف کیٹرنگ کا معاہدہ 2کروڑ پائونڈ میںہوا۔عامر خان ، سلمان خان اور شاہ رُخ خان جیسے فلمی ستارے مہمانوں کا استقبال کرتے اور ناچتے گاتے دکھائی دیئے۔مارک زکر برگ ،بل گیٹس ،ایوانکا ٹرمپ اور دیگر غیر ملکی مہمانوں کی آمد کے پیش نظر بھارتی حکومت کومغربی گجرات میں جام نگر کے ہوائی اڈے کو عارضی طور پر اپ گریڈ کرنا پڑا ،بظاہر یوں محسوس ہوا کہ اس تقریب پر بہت بڑی رقم خرچ کردی گئی ہے مگر مکیش امبانی کی مجموعی دولت کے حسا ب سے یہ کچھ بھی نہیں۔ان تقریبات کے اخراجات 12کروڑ پائونڈ بتائے گئے ہیں جو امبانی کے 120ارب ڈالر کا محض 0.1فیصد بنتا ہے۔ ایک سوال ضرورہے کہ ہمارے ہاں مکیش امبانی جیسے بڑے بزنس مین کیوں نہیں ہیں؟ سوال تو بنتا ہے کہ وہاں اڈانی،امبانی، برلا اور ٹاٹا ہیں تو یہاںکاروباری شخصیات کیوں نہیں ہیں۔سطحی اور جذباتی جواب تو یہی بنتا ہے کہ ہم نے کاروبار کرنے کے بجائے انتہاپسندی، غدار سازی اورکفر کے فتووں کو اپنا دھندہ بنالیا ہے۔ میں چاہوں گا کہ مختصراً منطقی انداز میں اس مرض کی تشخیص کرنے کی کوشش کی جائے۔ہمارے ہاں بھی کاروبارکا رجحان ہوا کرتا تھا مگر کھوکھلے نعروں کا سبز باغ دکھانے والوں نے یہ پراپیگنڈا کرکے ملک کا بیڑہ غرق کردیا کہ ملک کی دولت پر 22خاندانوں کی اجارہ داری ہے ۔ ہمارے ہاں کاروبار کرنا اپنا سکون غارت کرنے کے مترادف ہے۔آپ کسی بڑے بزنس مین سے بات کرکے دیکھ لیں ،وہ لگاتار بلیک میلنگ سے تنگ آچکا ہوگا۔پولیس حکام کی دھمکیاں،ایف بی آر کی طرف سے رشوت کے بڑھتے ہوئے تقاضے ، بعض صحافیوں کی بلیک میلنگ ،حکومتوں کی دھونس دھاندلی ،عدالتوں کی مداخلت ،سیاسی جماعتوں کی طرف سے فنڈز کا تقاضا،خفیہ اداروں کی طرف سے ملکی مفاد کے نام پر شروع کئے گئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے احکامات اور سب سے بڑھ کر سیاسی عدم استحکام ،جسے جب موقع ملتا ہے اپنے اثاثہ جات بیچ کر ملک سے باہر نکل جاتا ہے۔ریاست کی پالیسی بھی یہی رہی ہے کہ قوم کو بھکاری بنادیا جائے۔انہیں قرض دیکر کاروبار کروانے اور اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے بجائے امداد کی بھیک دی جائے۔بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام، رمضان میں راشن اور آٹے کے تھیلے ،اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔جو تھوڑا بہت کماتے ہیں ،ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر انکی کمر توڑ دی جائے۔آپ ریاست اور حکومت کو چھوڑیں،مجموعی طور پر معاشرے میں یہی سوچ پنپ رہی ہے کہ امیر لوگ ظالم ہیں۔کام چور،نااہل اور تساہل پسند لوگ اس مغالطے کا شکار ہوگئے ہیں کہ یہ فیکٹریوں،کارخانوں اور ملوں والے ہمارا حق کھارہے ہیں۔حالانکہ بزنس مین تو اَن داتا ہوتا ہے ،اس کی سرمایہ کاری سے کئی گھروں میںچولہا جلتا ہے۔جب ہم سرمایہ دار کو ہی رشک کے بجائے حسد، نفرت اور تعصب کی نگاہ سے دیکھیں گے تو پھرہمارے ہاں اڈانی،امبانی ، ٹاٹا اور برلا کیسے پیدا ہوں گے؟

تازہ ترین