• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کے انتخابات سر پر ہیں اور حکمراں مسلم لیگ اور پی پی پی کئی ہفتوں کی غیر یقینی صورتحال کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا میںسب سے بڑی جماعتیں بننے والی ہیں، دوسری طرف چونکہ پی ٹی آئی ماضی کا قصہ ہوگئی ہے اور اسمبلیوں میں عمران کے متوالے سنی اتحاد کونسل کے ہوچکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ سینیٹ انتخابات میں عمران خان کے یہ متوالے اپنی کیا قیمت لگواتے ہیں، بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ سینیٹ میں خیبرپختونخوا میںسے بڑی تعداد میں آزاد سینیٹرز خرید و فروخت کے ذریعے سینیٹ پہنچ جائیں گے۔ لیکن اس وقت قومی بحث میں سینیٹ کے انتخابات کو بے حد اہمیت حاصل ہونے کے باوجود، یہ حقیقت میں کیسے منعقد ہوتے ہیں یا یہ عمل کیسے کام کرتا ہے اس کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ بہت سے لوگوں کو علم ہی نہیں کہ سینیٹ الیکشن میں خاص طور پہ وہ سیاسی کارکنان جو نئی پارٹی میں جذباتی طور پہ شامل ہوتے ہیں جن کو لیڈرشپ نہیں جانتی وہاں سیاسی کارکن کم اور مال و دولت رکھنے والے زیادہ آسانی سے سینیٹرز بن جاتے ہیں۔ سینیٹ پارلیمنٹ کا ایوان بالا، 100 قانون سازوں کا ایک ادارہ ہے۔سینیٹرز میں استعفیٰ، نااہلی، یا دیگر غیر معمولی حالات کو چھوڑ کر ہر ایک کی مدت چھ سال ہوتی ہے۔ وہ سب ایک ہی وقت میں منتخب نہیں ہوتے ہیںبلکہ، آدھے ایک وقت میں منتخب ہوتے ہیں، اور باقی آدھے تین سال بعد۔48 سینیٹرز 2018 میں منتخب ہوئے تھے ، اپنی چھ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد 11 مارچ کو ریٹائر ہونے والے ہیں۔ لہٰذا، 2021ءکے انتخابات میں 48نئے سینیٹرز ایوان بالا میں شامل ہوئے۔ 12کے پی اور بلوچستان سے، 11 پنجاب اور سندھ سے اور دو اسلام آباد سے۔سینیٹ کے انتخابات براہ راست انتخابات نہیں ہیں، لہٰذا آپ ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیں گےجب تک کہ آپ ایم پی اے یا ایم این اے نہ ہوں۔ حالیہ انتخاب میں منتخب ہونے والے ایک ایم این اے اسلام آباد سے اور5 ایم پی اے صوبائی اسمبلیوں میں ممبر منتخب ہوئے جو کہ سینیٹر تھے ان کی خالی سیٹوں پہ تین سال کیلئے نئے سینیٹر کا الیکشن ہوا جس میں پی پی پی نے چار ن لیگ نے ایک اور جے یو آئی نےایک نشست حاصل کی ،جو تین سال کی مدت پوری کریںگے ۔

اسمبلیو ںمیں سب سے بڑی تنقید جس کا سینیٹ کے انتخابی طریقہ کار کو سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ہارس ٹریڈنگ یعنی ووٹ خریدنے کی گنجائش ہے۔ یہ بنیادی طور پر اس کی دو اہم خصوصیات سے پیدا ہوتا ہے: بالواسطہ انتخابات اور خفیہ رائے شماری، خفیہ رائے شماری کا مطلب ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ ووٹر (قانون ساز) نے کس کو اپنی ترجیح کے طور پر ووٹ دیاہے۔ اس طرح ووٹرز اپنی پارٹی کے امیدواروں کے علاوہ دوسرے امیدواروں کو ووٹ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔سینیٹ کے انتخابات میں چھوٹے صوبوں کا بھی نقصان ہوتا آیا ہے۔ جس میں بلوچستان کا نقصان میں اس لیے نقصان نہیں سمجھتا کہ وہاں صوبائی اسمبلی میں موجود ارکان خود اپنا ووٹ بیچنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اور یہی حال خیبرپختونخوا میںبھی دکھائی دیتا ہے، جہاں سے آزاد امیدوار بآسانی خریدو فروخت کر کے سینیٹر بن جاتے ہیں ۔تاہم میرے آج کے کالم کاموضوع بلوچستان اور خیبرپختونخواسے زیادہ سندھ ہے۔ جہاں کی صوبائی اسمبلی میں گزشتہ دنوں میں نے عجیب واقعات ہوتے دیکھے کہ اس اسمبلی میں پٹھان، پنجابی، ہزارے وال، بلوچ سمیت تمام قومیتوں کے لوگ موجود ہیں، یہ سندھ سے ایم۔پی اے بن جاتے ہیں مگر اپنے آپ کو سندھی کہلوانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ کیا یہ ہم نے کبھی دیکھا کہ خیبر پختون خوا یا پنجاب اسمبلی میں کوئی سندھی ایم پی اے منتخب ہوا ہو ؟ ہاں پنجاب اسمبلی کے جنوبی علاقوں سے چند بلوچ قبیلے ضرور ایم۔پی اے بننے میں کامیاب ہوئے مگر یہ اپنی شناخت بلوچ سے زیادہ پنجابی بتاتے ہیں۔ خیر چونکہ آئین اور قانون اس بات کی ممانعت نہیں کرتا اورایک سندھی ،ذوالفقار علی بھٹونے چونکہ یہ آئین بنایا ہے اس لیے ہمیں اس مسئلے سے زیادہ پریشانی نہیں۔ مگر دوسری طرف سندھ کے ساتھ ایک بڑی زیادتی پی پی پی کی قیادت کرتی آئی ہے وہ یہ کہ پنجاب سے پی پی پی اپنے لوگوں کو سینیٹرز منتخب کروانےکے بجائے سندھ سے کرواتی ہے۔ جیسا کہ ماضی میں مصطفیٰ کھوکھر، رحمان ملک، پلوشہ خان وغیرہ کو یہاں سے سینیٹر منتخب کروایا لیکن ان سمیت دیگر نے کبھی سینیٹ میں سندھ کے حقوق کی بات نہیں کی۔سندھی ایم پی ایز خصوصی طور پر پی پی پی کے ایم پی ایز کو شاباش دیتا ہوں کہ وہ کبھی ووٹوں کی خرید وفروخت میں ملوث نہیں ہوئے اور ہمیشہ اپنی جماعت کے نامزد سینیٹرز کو منتخب کروا کے پنجابی جیالوں کی لاج رکھی۔ لیکن پی پی پی قیادت سے گزارش ہے کہ اس بار سینیٹ انتخابات میں سندھ سے صرف سندھ کے رہنے والے شہریوں کو منتخب کروایا جائے۔ سندھ سے ایوان بالا میں اگر کوئی غیر سندھی بھیجنا بھی ہو تو اس کے لیے ضروری ہو کہ وہ خود کو سندھی کہلوائے ہو ورنہ یہ سندھ سے زیادتی ہے جسے دہرانا نہیں چاہئے۔

تازہ ترین