• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں معیشت ٹھیک کرنے کیلئے جب بھی کوئی نیا ’’وزیر خزانہ‘‘لایا جاتا ہے تو بیچارے عام افراد ’’بکریوں‘‘کی طر ح سہم جاتے ہیں کیونکہ ہر بار بھیڑیئے ،شیر ،چیتے اور دیگر خوفناک جانور محفوظ رہتے ہیں اور برق گرتی ہے تو بیچاری بھیڑوں اور بکریوں پر جو تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرپاتیں ۔ظلم و استبداد کیخلاف فریاد کا سلسلہ آگے بڑھانے سے پہلے کچھ اعداد و شمار ملاحظہ فرمالیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

ایف بی آر کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی یعنی جولائی 2023ء سے دسمبر2024ء کے دوران تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں 38 فیصد اضافے کے ساتھ 158 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرایا ہے، جو کہ برآمدکنندگان( ایکسپورٹرز) کی جانب سے جمع کرائے گئے ٹیکس کے مقابلے میں 243 فیصد زیادہ ہے۔دوسری طرف اس دوران ایکسپورٹرز نے 4.3 ہزار ارب روپے کمائے ہیں، اور اس کا محض ایک فیصد یعنی46ارب روپے بطور ٹیکس جمع کرائے ہیں، جو تنخواہ دار طبقے سے 243 فیصد کم ہے، اس طرح تنخواہ دار طبقہ ٹیکس ادا کرنے والا چوتھا بڑا طبقہ بن گیا ہے۔تنخواہ دار طبقہ کنٹریکٹرز، بینک ڈپازیٹرز اور امپورٹرز کے بعد ٹیکس ادا کرنے والا چوتھا بڑا طبقہ بن چکا ہے، توقع ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک ملازمت پیشہ افرادکی رگوں سے 300ارب روپے سے زائدانکم ٹیکس کی شکل میں نچوڑ لئے جائیں گے۔

پہلی ششماہی کے دوران مجموعی طور پر ایف بی آر نے 1.25 ہزار ارب روپے کا ود ہولڈنگ ٹیکس جمع کیا ہے، جو مجموعی انکم ٹیکس کا 57 فیصد ہے، کنٹریکٹرز اور سروس پرووائڈرز سے ٹیکس وصولیوں میں 31فیصد اضافہ ہوا ہے، اور یہ وصولیاں228 ارب روپے تک پہنچ گئی ہیں، قرضوں کے منافع جات پر حاصل کردہ ٹیکس 58فیصد اضافے سے 220 ارب روپے ہوگیا ہے، امپورٹرز نے 189ارب روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا ہے۔کل ملا کر بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں انکم ٹیکس صرف تنخواہ دار طبقے سے وصول کیا جارہا ہے جو چاہیں بھی تو راہ فرار اختیار نہیں کرسکتے ۔ٹیکس وصولیوںمیں ایک بہت بڑا حصہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا ہے جو ہر امیر اور غریب سے وصول کئے جاتے ہیں ۔مثال کے طور پر گھی ،شکر ،تیل ،دالیں ،چائے کی پتی اور اس نوعیت کی دیگر اشیا ء 700 روپے یومیہ اجرت پر کام کرنے والا مزدور خریدے یا کوئی ارب پتی سیٹھ سب کو ایک ہی شرح سے جنرل سیلز ٹیکس ادا کرنا ہے۔گاہے اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ اگر یہ جنرل سیلز ٹیکس ہے تو پھر اس کی ادائیگی صارف کیوں کرتا ہے؟فروخت کنندہ کو جی ایس ٹی ادا کرنا چاہئے۔اگر یہ وصولی خریدار سے ہی کرنی ہے تو کم ازکم اس کا نام ہی تبدیل کرکے ’’پرچیز ٹیکس‘‘کردیں۔

جب بھی محصولات بڑھانے کی بات ہوتی ہے تو ساہوکارپہلے سے پس رہے طبقے پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیتے ہیں۔پیٹرول اور بجلی ،گیس اور اس نوعیت کی دیگر بنیادی ضروریات کی اشیا ء پر ڈیوٹی بڑھادی جاتی ہے ۔تنخواہ دار طبقے کا شکنجہ مزید تنگ کردیا جاتا ہے اور پھر فخر سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم اتنے ارب روپے اضافی ٹیکس جمع کرنے میں کامیاب رہے۔یہ کام تو کوئی کلرک بھی کرسکتا ہے۔آپ کا کیا کمال ہے؟اگر واقعی ٹیکس کا نظام بہتر کرنا ہے تو اسمگلنگ بند کریںچاہے سرحدوںپر کھڑے محافظ ہی کیوں نہ ناراض ہوں۔ہرقسم کی معاشی سرگرمی کا اندراج کرنے اور تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے کیش ادائیگی کا سلسلہ ختم کرکے آن لائن اور ڈیجیٹل پیمنٹ لازمی قرار دی جائے۔فی الحال تو لاہور ،اسلام آباد اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں میں یہ صورتحال ہے کہ یومیہ لاکھوں روپوں کا کاروبار کرنے والے دکاندار وں نے باقاعدہ لکھ کر لگا رکھا ہوتا ہے کہ کارڈ کے ذریعے پیمنٹ کی سہولت دستیاب نہیں۔اگر آپ اصرار کریں گے تو دکاندار کہے گا کارڈ سے ادائیگی کی صورت میں 3فیصد اضافی چارجز ہوں گے۔ چنانچہ صارف نقد ادائیگی کرکے ہی جان چھڑانے میں عافیت سمجھتا ہے۔آجکل کے زمانے میں جہاں یہ صورتحال ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت میں بھکاری آن لائن ہوگئے ہیں ،ان کے گلے میں QRکوڈ ہوتا ہے،ریزگار ی نہ ہونے یا نقد رقم موجود نہ ہونے کا بہانہ کرکے ٹرخانے کے بجائے یہ کوڈ اسکین کریں اور خیرات بھکاری کے اکائونٹ میں منتقل کردیں۔رکشے والوں کے پاس QRکوڈ موجود ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی اور معمولی ادائیگی بھی آن لائن کی جاسکتی ہے۔اس جدید دور میں اگر بڑے شہروں میں بھی کارڈ سے پیمنٹ کی سہولت دستیاب نہیں تو یہ ایف بی آر حکام کی نااہلی نہیں تو اور کیا ہے؟بیشک قانون سازی کریں یا پھر پہلے سے دستیاب قوانین کے تحت ضابطہ اخلاق بنائیں لیکن دکانداروں سمیت سب کو پابند کریں کہ جہاں آن لائن پیمنٹ کی سہولت نہیں ہوگی ،وہاں کاروبار نہیں ہوگا۔دکانیں سیل کردی جائیں گی۔جب پیمنٹ اکائونٹ میں جائے گی تو روزانہ دس لاکھ روپے کمانے والایہ نہیں کہہ سکے گا کہ دس ہزار کمائے ہیں۔سروسز کے شعبہ میں ڈاکٹروں ،وکیلوں اور پراپرٹی کا کا روبار کرنے والوں کو آن لائن ادائیگی پر مائل کریں ۔معیشت ٹھیک کرنے کا جنرل فارمولا تو یہی ہے لیکن پہلے والوں کی طرح ڈنگ ٹپائو پالیسی کے تحت اپنا وقت نکالنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین