مولانا شاہد مدنی عطاری
امّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قبیلہ قریش کی ایک بہت ہی باہمت، بلند حوصلہ اور زیرک خاتون تھیں۔ اللہ عزوجل نے آپؓ کو اعلیٰ اوصاف سے نوازا تھا، جن کی بدولت آپؓ جاہلیت کے دورِ شروفساد میں ہی طاہرہ کے پاکیزہ لقب سے مشہور ہو چکی تھیں۔ آپؓ کی اعلیٰ صفات اور اعزازات کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی سہیلی حضرت نفیسہ ؓ فرماتی ہیں ”حضرت خدیجہؓ دُور اندیش، سلیقہ شعار، پریشانیوں اور مصیبتوں کے مقابلے میں بہت بلند حوصلہ و ہمت رکھنے والی اور معزز خاتون تھیں، ساتھ ہی ساتھ اللہ عزوجل نے آپؓ کو عزت و شرف اور خیروبھلائی سے بھی خوب نوازا تھا۔ آپؓ قریش میں اعلیٰ نسب رکھنے والی، بہت ہی بلند رتبہ اور سب سے زیادہ مالدار خاتون تھیں۔“
آپؓ کی دو مرتبہ شادی ہو چکی تھی، پہلی شادی ابوہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوئی، ان کے فوت ہو جانے کے بعد عتیق بن عابد مخزومی سے ہوئی۔ جب یہ بھی وفات پا گئے تو کئی رؤسائے قریش نے آپؓ کو شادی کے لئے پیغام دیا، لیکن آپؓ نے انکار فرما دیا اور کسی کا بھی پیغام قبول نہ کیا، چنانچہ اب اکیلے ہی اپنی اولاد کےساتھ زندگی کے شب و روز گزار رہی تھیں۔ آپؓ صاحب ثروت اور مالدار خاتون تھیں، دیگر قریشیوں کی طرح آپؓ بھی تجارت کیا کرتی تھیں، عام لوگوں کی نسبت آپؓ کا سامانِ تجارت بہت زیادہ ہوتا تھا۔ روایت میں ہے کہ صرف آپؓ کے مال تجارت سے لدے اونٹ عام قریشیوں کے اونٹوں کے برابر ہوتے تھے۔ آپؓ لوگوں کو مزدور بھی رکھتی تھیں اور مضاربت (انویسٹمنٹ) کے طور پر بھی مال دیا کرتی تھیں‘ چنانچہ ہر تاجر کی طرح آپ کو بھی ایسے ذی شعور، سمجھدار، ہوشیار، باصلاحیت اور سلیقہ مند افراد کی ضرورت رہتی جو امین اور دیانتدار بھی ہوں۔
ادھر سرکارِ نامدار، مکے کے تاجدار ﷺکے حسن اخلاق، راست بازی، ایمانداری اور دیانتداری کا شہرہ ہر خاص و عام کی زبان پر تھا۔ آپ ﷺاپنے غیرمعمولی اخلاقی و معاشرتی اوصاف کی بناءپر اخلاقی پستی کے اس دورِ جاہلیت میں ہی امین کہہ کر پکارے جانے لگے تھے۔ حضرت خدیجہؓ تک بھی اگرچہ آپ ﷺ کی ان صفاتِ عالیہ کی شہرت پہنچ چکی تھی اور اس وجہ سے آپ ؓحضورِ اقدس ﷺ کو اپنا سامان دےکر تجارتی قافلے کے ساتھ روانہ کرنا چاہتی تھیں، لیکن یہ خیال کر کے کہ پتا نہیں حضور ﷺ اسے قبول فرمائیں گے بھی یا نہیں، اپنا ارادہ ترک کر دیتیں۔
پھر آپ ﷺ کے اعلانِ نبوت سے 15 برس پہلے کا دور آتا ہے۔ اہل عرب کا تجارتی قافلہ شام جانے کےلئے تیار ہے‘ آپ ﷺ کے چچا ابوطالب کی مالی حالت کمزور ہے، وہ آپ ﷺ کو مجبوراً شام بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ حضرت خدیجہؓ کو آپ ﷺ کی راست گوئی، عظیم امانتداری اور محاسن اخلاق کے بارے میں معلوم ہو چکا تھا ،اس لئے آپ ﷺ کو بلا بھیجا اور عرض کیا ”آپ کو بلا بھیجنے کی وجہ صرف وہ بات ہے جو مجھے آپ کی سچائی، امانتداری اور محاسن اخلاق کے بارے میں پہنچی ہے، اگر آپ میرے مال کو تجارت کےلئے لے جانے کی پیشکش قبول فرما لیں تو میں آپ کو اس کی نسبت دگنا معاوضہ دوں گی جو آپ کی قوم کے دوسرے لوگوں کو دیتی ہوں“۔ آپ ﷺ نے اسے قبول فرما لیا۔
حضرت خدیجہؓ نے اپنے غلام میسرہ کو آپ ﷺ کے ساتھ کر دیا تھا۔ اللہ عزوجل نے اپنے پیارے محبوب ﷺ کے صدقے اس تجارت میں اس قدر برکت اور نفع عطا فرمایا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ اتنا کثیر نفع دیکھ کر حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ نے کہا ”اے محمد (ﷺ) میں نے اتنا زیادہ نفع کبھی نہیں دیکھا جو آپ کی بدولت ہوا ہے۔ واپس آ کر غلام میسرہ نے آپؓ کو اپنے مشاہدات بتائے۔ جناب سرکار عالی وقار رسول اللہ ﷺ کے پیغمبرانہ اخلاق و عادات سے متاثر ہو کر آپؓ نے اپنی سہیلی نفیسہ کے ذریعے شادی کا پیغام بھیجا جسے آپ ﷺ نے قبول فرما لیا۔ شادی کے بعد تاجداررسالت ﷺ آفاق عالم کو اپنے جلوؤں سے چمکاتے اور خوشبوؤں سے مہکاتے عرب کے ریگزاروں و کوہساروں میں مبارک حیات کے لمحات گزارتے رہے، حتیٰ کہ آپ ﷺ کے اعلانِ نبوت کا زمانہ قریب آ گیا۔
اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک 40 برس ہو چکی تھی، ربیع الاوّل یا رمضان المبارک کے مہینے میں پہلی وحی نازل ہوئی۔ اس موقع پر حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کا بھرپور ساتھ دیا، کیونکہ نبوت کا اعلان کرتے ہی آپ ﷺ پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑ دئیے گئے، راہ میں کاٹنے بچھائے گئے، پتھر برسائے گئے، ایسے نازک‘ خوفناک اور کٹھن مرحلے میں جن ہستیوں نے آپ ﷺ کی دعوتِ حق کو قبول کیا، ان میں حضرت خدیجہؓ بھی شامل تھیں۔ آپؓ نے اتنے خطرناک حالات میں جس عزم و استقلال کےساتھ خطرات و مصائب کا سینہ سپر ہو کر سامنا کیا، یہ چیز آپؓ کو دیگر ازواجِ مطہرات ؓ سے ایک ممتاز مقام پر فائز کر دیتی ہے۔
پیارے آقا ﷺ کے اعلانِ نبوت کے ساتویں سال جب کفارِ مکہ نے بنی ہاشم کا مقاطعہ (بائیکاٹ) کیا، ان سے کھانے پینے کی چیزیں روک دیں، میل جول، سلام کلام وغیرہ ختم کر دیا اور بنی ہاشم شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے تو وہاں غلہ وغیرہ اشیائے خورونوش پہنچانے میں حضرت خدیجہؓ کے عزیز و اقارب نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ نبوت کے دسویں سال رمضان المبارک کے مہینے میں جبکہ ابوطالب کو وفات پائے چندروز ہی ہوئے تھے کہ دس رمضان المبارک کو آپؓ نے وصال فرمایا، بوقت وفات آپؓ کی عمر مبارک 65 برس تھی۔ حضرت اُم ایمن اور رسول کریم ﷺ کی چچی حضرت اُم فضلؓ نے آپؓ کو غسل دیا۔ آپؓ کو مکہ مکرمہ میں واقع جحون کے مقام پر دفن کیا گیا۔ حضور رحمت عالم، نور مجسم ﷺ خود بہ نفس نفیس آپؓ کی قبر میں اُترے اور اپنے مقدس ہاتھوں سے دفن فرمایا۔
چونکہ حضرت سیدنا خدیجۃ الکبریٰؓ اور ابوطالب نے زندگی کے ہر ہر موڑ پر رسول اللہ ﷺ کی نصرت و اعانت (مدد) کی تھی اور ہر طرح کے مشکل و کٹھن حالات میں آپ ﷺ کا ساتھ دیا تھا، لہٰذا چند روز کے فاصلے پر یکے بعد دیگرے ان کا انتقال کر جانا آپ ﷺ کےلئے بہت ہی جاں گداز اور روح فرسا حادثہ تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس سال کو غم و اَلم کا سال قرار دیا۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے اسے عام الحزن (غم کا سال) کا نام دیا۔