’’شاہین بیگم! یہ پیسے کچھ جلدی نہیں ختم ہوگئے اس ماہ‘‘۔
’’ہاں تو پندرہ ہزار میں کیا ہوتا ہے۔ آٹا، دال اور آلو، تیل کے سوا ہم لیتے ہی کیا ہیں، پھر بھی…‘‘
’’آج کیا بناؤگی ممتازِمن؟؟‘‘ رشید صاحب محبّت سے بولے۔
’’کل کی مونگ کی دال بچی تھی، اُس کے پراٹھے اور پودینےکی چٹنی۔ اوپر سے چائے پی لیں گے۔‘‘
رشید صاحب عصر کی نماز کے بعد اپنے دوست ریاض سے ملنا چاہ رہے تھے، وہ جلدی میں تھا۔ ’’کہاں جارہے ہو یار…؟؟‘‘
’’ارے رشید! چل تُو بھی میرے ساتھ چل۔ عیش ہوجائیں گے۔ تُو بھی کیا یاد کرے گا۔‘‘
رشید صاحب کی آنکھیں کُھلی رہ گئیں۔ اتنا بڑا دسترخوان… ہزاروں لوگ اور دیگوں سے نکلتا بکرے کاقورما۔
اُنہوں نے بمشکل پانی سے روزہ کھولا اور شاہین بیگم کے پراٹھے کی خُوشبو اُنہیں گھر واپس لے آئی۔
اُنہیں لگا تھا، اُس دسترخوان پر بھوک بٹ رہی تھی، کبھی نہ مٹنے والی بھوک۔