لیاقت بلوچ (نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان)
رحمت و مغفرت، عبادت و ریاضت اور نیکیوں کے موسمِ بہار ’’رمضانُ المبارک‘‘ کی آمد آمد ہے۔ یہ وہ ماہِ مبارک ہے، جس میں رُشد و ہدایت کا ابدی خزینہ، آخری الہامی صحیفہ، نسخۂ کیمیا، دین و دنیا کی فلاح و نجات کا دائمی ضابطہ، سرورِ کائناتﷺ کا سب سے عظیم معجزہ وحیِ ربّانی کا آخری سرچشمہ، کتابِ مبین، قرآنِ حکیم نازل ہوا۔ اس حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’رمضان کا مہینہ، جس میں قرآن نازل کیا گیا، اس میں لوگوں کے لیے ہدایت اور روشن دلیلیں ہیں، راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی۔‘‘ (سورۃ البقرہ/ 185)۔
ماہِ صیام، رمضان المبارک، اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس نعمتِ خداوندی سے ہمیں بارہا استفادے کا موقع ملا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں اس ماہِ مبارک میں جن فیوض و برکات کو حاصل کرنا چاہیے تھا، وہ ہم اُس طرح حاصل نہیں کرسکے، جس طرح نبی اکرم ﷺنے ہمیں تلقین کی تھی یا صحابۂ کرام ؓ کا طریقہ رہاہے۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے روزہ فرض اور قیام، سنّت قرار دیا ہے۔
اس ماہ میں اگر کوئی ایک نفل ’’نیکی‘‘ انجام دیتا ہے، تو اسے ایک فرض ادا کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے اور ایک فرض ادا کرنے والے کو ستّر فرائض کے برابر اجر ملتا ہے۔ یہ خیر خواہی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ ایک ایسا مہینہ، جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ مہینہ جہاں انفرادی اصلاح، تزکیہ نفس اور عبادات کا تقاضا کرتا ہے، وہیں خلق خدا سے محبّت، ہم دردی اور خیر خواہی کا بھی متقاضی ہے۔
سب سے بڑی خیرخواہی تو یہی ہے کہ انسانیت اپنے خالقِ کائنات کے بتائے ہوئے طریقۂ زندگی کو نہ صرف خوداختیار کرے، بلکہ دوسروں کو بھی بندگی ٔ رب کے راستے پر لگایا جائے، تاکہ وہ اپنے نفس کی بندگی کے بجائے ربّ کی خواہش و مرضی کے مطابق اپنی پوری زندگی گزار سکیں۔
اللہ کے فضل و کرم سے ایک مرتبہ پھر یہ ماہِ مبارک ہمارے اوپر سایہ فگن ہورہا ہے اورجلد ہی اس کی رحمتوں کی بارش ہماری زندگیوں کو سیراب کرنے کے لیے برس رہی ہوگی، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کی رحمتیں اور برکتیں ہر اُس شخص کے حصّے میں آجائیں، جو اس مہینے کو پالے۔
جب بارش ہوتی ہے، تو مختلف ندی نالے اور تالاب اپنی اپنی وسعت و گہرائی کے مطابق ہی اس کے پانی سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے گڑھے کے حصّے میں اتنا وافر پانی نہیں آتا، جتنا ایک بڑے تالاب میں آتا ہے، اسی طرح جب پانی کسی چٹان یا بنجر زمین پر گرتاہے، تو اس کے اوپر ہی سے بہہ جاتا ہے۔ اسے کوئی نفع نہیں پہنچاتا، لیکن اگر زمین زرخیز ہو، تو وہ لہلہا اٹھتی ہے۔ یہی حال انسانوں کی فطرت اور ان کے نصیب کاہے۔
رمضان المبارک کا یہی تقاضا ہے کہ رحمت، مغفرت اور جہنّم سے نجات کے اس بابرکت مہینے کا اصل مطلوب، ایمان و تقویٰ کا زادِ راہ حاصل ہوجائے اور اس کے ساتھ ساتھ ان لاکھوں لوگوں کو جو روزے کے اصل تصوّر سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے ایک بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں، انہیں مقصدِ زندگی سے آشنا کرکے عملی سرگرمیاں وضع کرنے کی پلاننگ کرلی جائے، تاکہ اس ماہ مبارک کے ایک ایک لمحے کو قیمتی بنایاجاسکے۔ نبی اکرم ﷺکا طریقہ تھاکہ آپﷺ شعبان کے مہینے ہی سے رمضان المبارک کی تیاری شروع کردیتے اور لوگوں کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔
نیّت و ارادہ
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’انّما الاعمالُ بالنّیات‘‘یعنی اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے۔ اس لیے پہلی چیز نیّت اور مصمّم ارادہ ہے۔ کیوں کہ نیّت شعور اور احساس پیدا کرتی ہے۔ شعور بیدار ہو، تو ارادہ پیدا ہوتا ہے اور ارادہ محنت اور کوشش کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح اعمال میں صحیح نیّت کی رُوح ہو، تو وہ اثر آفرینی، نشوونما اور نتیجہ خیزی کی قوت رکھتی ہے۔
نیّت، نہ صرف صحیح بلکہ خالص بھی ہونی چاہیے۔ یعنی ہر کام صرف اور صرف اللہ کی رضا کے حصول اور اجر وانعام حاصل کرنے کے لیے ہو۔ نیّت، ارادہ اور عزم و حوصلہ وہ طاقت ہے، جس کے بغیر رمضان المبارک کا سفر اپنی منزل پر نہیں پہنچا سکتا۔
تلاوتِ قرآن
رمضان المبارک کا مہینہ اپنی مخصوص عبادات یعنی روزے اور قیام اللیل کو کسی نہ کسی صورت میں قرآن ِمجید پر مرکوز کردیتا ہے۔ اس مہینے کا حاصل قرآن سننا، پڑھنا اور قرآن سیکھنا اور اس پر عمل کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ رمضان اور قرآن کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اس لیے سب سے زیادہ جس بات کا اہتمام کرنا ہے، وہ یہ کہ ہمارے شب و روز قرآن کی صحبت و معیت میں بسر ہوں۔
قرآن کو اس طرح پڑھا جائے کہ نہ صرف ہمارے اندر جذب ہوجائے، بلکہ اس کے ساتھ قلب و رُوح کا تعلق گہرا ہوجائے اور دل و دماغ و جسم سب تلاوت کے کام میں شریک ہوجائیں۔ قرآن کے پیغام کو عام کیا جائے۔ تلاوتِ قرآن کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ قرآن کے پڑھنے کا حق ادا کیا جائے اور قرآن کا حق یہ ہے کہ اسے سوچ سمجھ کر صحیح مخارج سے پڑھا جائے اور پھر اس پر عمل کیا جائے اور اس کا ابلاغ کیا جائے، یعنی دوسروں کو بھی پڑھنے اور عمل کی ترغیب دی جائے۔
احتساب و جائزہ
روزہ صرف پیٹ کا روزہ نہیں ہے۔ آنکھ اور کان کا بھی روزہ ہے۔ زبان اور ہاتھ کا بھی روزہ ہے، یعنی وہ روزہ یہ ہے کہ آنکھ وہ نہ دیکھے، کان وہ نہ سنے، زبان وہ نہ بولے، ہاتھ پاؤں وہ کام نہ کریں، جو اللہ تعالیٰ کو ناپسندہیں۔ یہ ہمیں احتساب کا موقع بھی فراہم کرتاہے۔ اس پورے معاشرے کی اصلاح سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کی اکائی یعنی ’’فرد‘‘درست ہو۔
ذاتی احتساب و جائزے کے ذیل میں رمضان کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں۔ غیبت، چغلی، لعن طعن، بدگمانی، تکبّر، ظلم، غصّہ، جھوٹ، وعدہ خلافی، بدنگاہی، حسد اور بغض وغیرہ…یہ سب اخلاقی برائیاں ہیں۔ اور ماہِ رمضان ان برائیوں کے علاج کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
نماز باجماعت کا اہتمام
قرآنِ مجید میں جگہ جگہ نماز باجماعت قائم کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور نماز باجماعت قائم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ نماز کے تمام حقوق ادا کیے جائیں۔ نماز کے حقوق کی ادائی کے لیے ضروری ہے کہ اذان کے بعد تمام کام چھوڑ کر مسجد پہنچیں اور تکبیر ِتحریمہ کے ساتھ پہلی صف میں نماز ادا کرنے کی کوشش کریں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا بیان ہے کہ’’جس شخص کو یہ بات پسند ہوکہ وہ مطیع و فرماں بردار بندے کی حیثیت سے روزِ قیامت اللہ سے ملے،تو اُسے پانچوں نمازوں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور انہیں مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ اہلِ ایمان باقاعدگی کے ساتھ نمازِ تراویح کا اہتمام کریں۔
رات کے آخری تہائی حصّے میں پڑھی جانے والی نمازتہجّد بھی تقویٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے، اس کے بھی التزام کی کوشش کریں اور اس کے لیے سحر سے ذراقبل اُٹھ کر آپ بہ آسانی پورا ماہ صلوٰۃ اللّیل کا اجر حاصل کرسکتے ہیں۔
عفو و درگزر
اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ وہ معاف کرنے والا اور زبردست درگزر کرنے والا ہے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کی ذاتِ گرامی بھی صبر کرنے ولوں میں سب سے افضل اور معاف کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ شہرِ رمضان عفو و درگزر، بخشش و رحمت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے۔ جس طرح ہم خود اللہ سے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں، اسی طرح لازم ہے کہ ہم ستانے والوں کو معاف کردیں، کیوں کہ ارشادِ ربّانی ہے کہ ’’جس نے معاف کیا اور اپنی اصلاح کرلی، اس کا اجر اللہ کے ذمّے ہے۔
بلاشبہ، وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ اسی طرح سورۃ النساء میں فرمایا گیاکہ ’’تم نیکی علانیہ کرو یا چُھپ کر، تم کسی کی زیادتی کو معاف کرو، بے شک اللہ معاف کرنے والا اور بدلہ لینے پر قادر ہے۔ بلاشبہ، آپ کے ساتھ زیادتی کرنے والے کے لیے آپ کی معافی آپ کو اللہ کے قریب لے جائے گی اور اُس کے بدلے بہترین اجر ملے گا۔ اس لیے اپنے دلوں کو صاف کیجیے اور ساتھیوں اور قرابت داروں کی فروگزاشتوں کو معاف کرکے قلبی تعلق پیدا کیجیے۔ کیوں کہ بے شک صبر اور معافی عظیم کاموں میں سے ہیں۔‘‘
روزہ افطار کروانا
نبی اکرمﷺ نے رمضان المبارک کو ہم دردی و غم خواری کا مہینہ قرار دیا ہے۔ ہم دردی کا ایک پہلو کسی روزے دار کا روزہ افطار کروانا بھی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے افطار کروانے کی ترغیب دی ہے۔ نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے۔’’جوشخص کسی روزے دار کا روزہ افطار کروائے، تو اس کے لیے گناہوں سے مغفرت اور دوزخ کی آگ سے رہائی ہے۔
اسے اتنا ہی ثواب ملے گا، جتنا روزےدار کو، اور اس سے روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔‘‘افطار کے پروگرامزکے ذریعے، جہاں باہمی ربط و تعلق کا موقع میسّر آتا ہے، وہیں دین کی دعوت اور فکر وعمل میں تبدیلی کی بات کرنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ گلی محلّے کی سطح پر چھوٹی بڑی افطار پارٹیز لوگوں کے اذہان و قلوب کو متاثر کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اس لیے انفرادی و اجتماعی سطح پر افطاری کا اہتمام کریں۔
افطار کے پروگرامز میں درسِ قرآن، درسِ حدیث، لیکچرز وغیرہ کا اہتمام کریں۔ افطاری سے پہلے دعا، سنت ہے اس لیے اس کا اہتمام کریں۔ افطار پارٹیوں کو کھانے پینے کی نمائش کے بجائے دعوتی عمل کو مہمیز دینے کا ذریعہ بنائیں۔ نیز، غرباء و مساکین کو افطار پارٹیوں میں ضرور دعوت دیں اور پہلے افطار، پھر نماز اور آخر میں طعام کی ترتیب کو رواج دیں۔
اعتکاف کا باضابطہ اہتمام
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’جب رمضان کا آخری عشرہ آتا، تو آپ ﷺ کمر کس لیتے،راتوں کو جاگتے، اپنے گھر والوں کو جگاتے، اور اتنی محنت کرتے، جتنی کسی اور عشرے میں نہ کرتے۔‘‘رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف آنحضرت ﷺ کا معمول تھا۔
ایک سال بوجوہ ناغہ ہوا، توآپ ﷺنے اگلے سال بیس دن اعتکاف کیا۔ بلاشبہ، رمضان المبارک مومن کی تیاری کا مہینہ ہے، تاکہ بقیہ گیارہ مہینے شیطانی قوتوں سے لڑنے کی طاقت فراہم ہو جائے اوراعتکاف اس تیاری کا اہم جزو ہے۔
لیلۃ القدر
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہےکہ شبِ قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ حضرت امام بخاریؒ نے حضرت ابوہریرہؓ کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’جس شخص نے شبِ قدر میں ایمان اور خود احتسابی کی حالت میں قیام کیا، تو اللہ ربّ العالمین اس کے پچھلے تمام گناہ معاف فرمادے گا۔‘‘
آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں 27,25,23,21 اور 29کو اعتکاف اور شب بے داری کے لیے مختص کردیں اور تمام متعلقین کو متعیّن تاریخوں میں متعیّن مساجد میں ان پروگرامز میں شریک کروائیں۔ نبی اکرم ﷺنے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو شب قدر کی یہ دعا بتائی کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرو: اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ۔
’’اے اﷲ! بلاشبہ تو معاف کرنے والا ہے، اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ، پس تو مجھے معاف فرمادے۔‘‘
انفاق فی سبیل اللہ / زکوٰۃ و صدقات
انفاق فی سبیل اللہ کواس ماہِ مبارک سے خاص نسبت ہے۔ نماز کے بعد سب سے بڑی عبادت اللہ کی راہ میں خرچ کرناہے۔ نبی کریم ﷺ سارے انسانوں سے بڑھ کر سخی تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ ’’آپ ﷺ بارش لانے والی تیز ہواؤں سے بھی زیادہ سخاوت کرتے تھے۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا۔ ’’سخی اللہ تعالیٰ سے قریب، لوگوں سے قریب، جنّت سے قریب اورجہنّم سے دور، جب کہ کنجوس اللہ تعالیٰ سے دُور، لوگوں سے دُور، جنّت سے دُور اور جہنّم سے قریب ہوتا ہے۔ ‘‘
اسی طرح جاہل سخی، اللہ تعالیٰ کو کنجوس عبادت گزار سے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا، تاکہ روزے، فضول، لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک ہوجائیں اور مسکینوں کو کھانے پینے کا سامان میسّر آئے۔ صدقہ فطر، عید کی آمد سے پہلے لازماًادا کرنے کی کوشش کریں، تاکہ غرباء ومساکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔