• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اعلانِ بالفور، لیگ آف نیشنز اور برطانوی انتداب

اسرائیل کے نام سے یہودیوں کے قبضے میں جو رقبہ ہے، وہاں 1948 ء میں غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی
اسرائیل کے نام سے یہودیوں کے قبضے میں جو رقبہ ہے، وہاں 1948 ء میں غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی 

عرب اور اسلامی دنیا کے علاوہ اہلِ مغرب میں سے بھی کئی اصحابِ دانش یہ حقیقت اپنی تحاریر و تقاریر میں بیان کرتے رہے ہیں کہ گزشتہ تین چار صدیوں میں دنیا کا کوئی بڑا واقعہ اور حادثہ ایسا نہیں ہوا، جس کے پیچھے یہودی ہاتھ نہ رہا ہو۔ عثمانی خلیفہ، سلطان عبدالحمید ثانی کے گرد ایسا جال پھیلایا گیا کہ اُنہوں نے فلسطین میں یہودی آباد کاری میں سہولت کاری کی، جب کہ سلطان کی معزولی بھی اُنہی ہاتھوں اور اُنہی حالات میں ہوئی کہ یہودی اپنے ہاتھ دِکھاتے اور مکروفریب کی چالیں چلتے رہے۔

اُنہوں نے ایک طرف سلطان کے گرد گھیرا تنگ کیا، تو دوسری طرف، سلطنت کی بالائی انتظامی مشینری، مختلف فتنہ گر اور شورش پسند عناصر کی پُشت پناہی بھی کرتے رہے۔’’ینگ تُرک تحریک‘‘ کا قیام اور تُرک و عرب قوم پرستی کی لہروں میں تلاطم، یہودی طوفان ہی کی وجہ سے آیا۔ پہلی عالمی جنگ کے شعلے یہودی سازش سے بلند ہوئے اور ایک طرف اتحادی ممالک، تو دوسری جانب جرمنی، اٹلی اور جاپان میں بھی یہودی لابیز ان شعلوں پر تیل ڈالنے کے لیے متحرّک رہیں۔

تُرکی کا اس جنگ میں حصّہ لینا بھی ایک سازش ہی کا نتیجہ تھا، وگرنہ اُس کی مالی، انتظامی اور اندرونی استحکام کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ ایک تباہ کُن جنگ میں شریک ہو۔ اصل منصوبہ یہ تھا کہ اِس جنگ کے بہانے تُرکی کی عثمانی خلافت کا خاتمہ کیا جائے اور اُس کے زیرِ انتظام مسلم علاقے اُس سے کاٹ کر چھوٹی چھوٹی قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیے جائیں۔

ہم یہاں جنگِ عظیم اوّل کے حالات و واقعات سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے صِرف اُن واقعات پر نظر ڈال رہے ہیں، جنہوں نے صیہونی ریاست، اسرائیل کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہمارا گمان ہے کہ اگرچہ سلطان عبدالحمید ثانی نے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی اجازت دی تھی، لیکن اگر وہ منصبِ خلافت پر قائم رہتے اور’’اعلانِ بالفور‘‘جیسا اعلامیہ جاری ہوتا، تو وہ اُس کی سخت مزاحمت کرتے، لیکن تُرکی کی حالت یہ تھی کہ بہت طاقت وَر ہو جانے والی’’ینگ تُرک تنظیم‘‘ میں یہودی اور’’فری میسن‘‘ تنظیم کے ارکان کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی، جب کہ تب تُرک نوجوانوں میں قوم پرستی کی وَبا بھی پھیلی ہوئی تھی۔

تُرک نوجوان نسل کے نزدیک عرب ممالک اور فلسطین کے عثمانی سلطنت کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کی کوئی اہمیت باقی نہیں تھی۔ اُن کے مقابلے میں عرب قوم پرستی بھی جڑیں پکڑ چُکی تھی۔ دونوں طرف نفرتوں کا لاوا اُبل رہا تھا۔لبرل اور سیکولر مغرب پرست حلقے، لبنانی عیسائی اور سوشلسٹ لابیز، سب تُرکی سے نفرت کا کُھلم کُھلا اظہار کر رہے تھے۔ 

اُدھر ایک پُراسرار جاسوسی کردار، سر تھامس لارنس آف عریبیہ نے عثمانی سلطنت کے خلاف عرب دنیا میں نفرت کے بیج بو کر جنگِ عظیم میں برطانیہ کے دمشق پر غالب آنے اور تُرکی کو ہزیمت سے دوچار کرنے کا سامان پیدا کر دیا تھا۔ شریفِ مکّہ، حسین بن علی کی غدّاری اسی کا ثمر تھا۔

یہ بتانا ضروری ہے کہ برطانیہ کی جنگی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے برطانوی یہودیوں نے اُس دَور کے حساب سے اربوں ملین پاؤنڈز فراہم کیے تھے۔یہ لارڈ روتھ چائلڈ، جس کے نام آرتھر بالفور نے خط لکھ کر شہنشاہِ برطانیہ کی طرف سے اُسے فلسطین کو یہودی ریاست بنانے کی منظوری کی خُوش خبری سُنائی، دنیا کے ایک امیر ترین یہودی خاندان کا فرد تھا۔

اس خاندان کے علاوہ بھی برطانیہ میں اس مُلک کو جنگی ضرورت کے مطابق سرمایہ فراہم کرنے کے قابل امیر یہودیوں کی کمی نہیں تھی۔ برطانوی حکومت اُن کی ایک لحاظ سے ممنون تھی اور اُن کا احسان چُکانے کے لیے اُنھیں عربوں اور چار سو سال سے عثمانی سلطنت کے زیرِ انتظام رہنے والی عرب مسلمانوں کی سرزمین، فلسطین گویا ’’تحفے‘‘ میں دے دی تھی۔

لیگ آف نیشنز، اقوامِ متحدہ اور اُن کے ماتحت ادارے بھی بڑی عالمی قوّتوں کی تخلیق تھے، جو اُنہی بڑی قوّتوں کے مفادات کو ملحوظ رکھتے تھے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد قائم ہونے والے عالمی ادارے، لیگ آف نیشنز نے کم و بیش پورے کے پورے’’اعلانِ بالفور‘‘ کو اپنے میثاق(Covenant) کی شق نمبر22 کا حصّہ بنا دیا۔

لارڈ بالفور نے1917ء کے’’اعلانِ بالفور‘‘ کے بعد 1919ء میں ایک خفیہ میمو بھی بھیجا تھا، جس میں برطانیہ کے اُس عہد کا ذکر کیا گیا تھا کہ جنگ کے دَوران جن عرب ممالک نے عثمانی خلافت کے خلاف، برطانیہ کا ساتھ دیا، اُنہیں مکمل آزادی حاصل ہو گی۔

اِس عہد کے مطابق، ان تمام عرب ممالک کو آزادی حاصل ہو گئی تھی، لیکن فلسطین کو یہ آزادی نہیں دی گئی۔ راشد اسماعیل خالدی ایک فلسطینی امریکی اسکالر ہیں اور کولمبیا یونی ورسٹی میں شاید اُسی سیٹ پر فلسطین کے حوالے سے شان دار تحقیقی کام کر رہے ہیں، جس پر ایک اور نام وَر فلسطینی امریکی مستشرق، آنجہانی ایڈورڈ سعید نے فلسطین کی تاریخ اور حالات پر شان دار کام کیا تھا۔

راشد اسماعیل خالدی سرزمینِ فلسطین کے ایک نام وَر خاندان کے فرزند ہیں۔ اُن کے دادا یا پردادا، یوسف ضیا الخالدی یروشلم کے میئر بھی رہے اور مسجدِ اقصیٰ کے خطیب بھی تھے۔ عربی، تُرکی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی کے علاوہ ہنگری اور آسٹریائی زبانیں بھی جانتے تھے۔ اُن کی صیہونی لیڈر اور اسرائیل کے تصوّر کے بانی، تھیوڈر ہرزل سے فلسطین کے موضوع پر خط و کتابت بھی رہی تھی۔

راشد اسماعیل خالدی نے اپنی کتاب’’The Hundred Years War on Palestine‘‘میں لکھا ہے کہ برطانیہ اور فرانس دونوں نے لیگ آف نیشنز کے میثاق کو توڑ مروڑ کر فلسطین اور شام میں اپنے طویل اقتدار کی گنجائش نکال لی۔ شام کو بھی بعد میں آزادی مل گئی، لیکن فلسطین کو برطانیہ نے اعلان بالفور کے مطابق ایک مستقل صیہونی ریاست کی شکل میں ایسی آزادی دی کہ صیہونی تو آزاد ہیں، لیکن فلسطینی عرب غلام ہیں یا کئی نسلوں سے کیمپس میں زندگی گزار رہے ہیں اور یا پھر پڑوسی ممالک میں مہاجرین کی صُورت رہ رہے ہیں۔ اعلانِ بالفور کے وقت90 فی صد فلسطین، عرب فلسطینیوں اور دس فی صد عیسائیوں، دروزوں اور یہودیوں کے پاس تھا، اب نوّے فی صد یہودیوں کے قبضے میں ہے اور دس فی صد عربوں کے پاس رہ گیا ہے۔

برطانوی انتداب سے پہلے عثمانی خلافت میں یہودیوں کی فلسطین میں کُل آبادی ساٹھ ہزار تھی اور مسلمان تین لاکھ تھے۔ انتداب کے بعد سے 1948ء تک یہودیوں کی تعداد سات لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ اسرائیل کے نام سے یہودیوں کے قبضے میں جو کُل رقبہ ہے، اُس میں1948 ء میں غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی اور اب ایک ملین سے کچھ اوپر ہے۔ وہ اٹھارہ فی صد رہ گئے ہیں۔

میرے پاس فلسطینی امریکی اسکالر، آنجہانی ایڈورڈ کی کتاب’’The Question of Palestine ‘‘کا ایک بہت پرانا ایڈیشن ہے، جس کے مطابق (کتاب کی اشاعت کے وقت) ساڑھے تین سے چار ملین کی تعداد میں فلسطینی دنیا میں بکھرے ہوئے تھے۔ ساڑھے چھے لاکھ اسرائیل میں صیہونی فوج کی سنگینوں کے سائے تلے مغربی کنارے اور غزہ میں رہتے ہیں۔ ایک ملین کے قریب اردن میں، ساڑھے چار لاکھ لبنان میں ہیں اور ایک خاصی تعداد خلیجی ممالک، شام، مصر، لیبیا، عراق میں اور ایک محدود تعداد میں یورپ اور امریکا میں بسنے پر مجبور ہے۔

یہ تعداد دسمبر2023 ء کے اعداد و شمار کے مطابق،98 لاکھ، 42 ہزار، یعنی ایک کروڑ کو چُھوتی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس، مسلمانوں اور دیگر قومیّتوں کی تعداد مغربی کنارے کی طرف تین ملین اور غزہ میں دو ملین ہے۔

جبر اور دیگر مختلف حیلوں سے آباد اور زرعی رقبوں میں اسرائیل کس طرح تجاوزات کرتا رہا، اس ضمن میں عالمی صیہونی تنظیم کے ایک دَور میں چیئرمین اور اسرائیل کے پہلے صدر کا منصب سنبھالنے والے روسی نژاد یہودی، وائزمین نے ایک عرب شخص اور اونٹ سے متعلق ایک پرانی حکایت لکھی تھی کہ خیمے کے باہر بندھے اونٹ نے سردی سے بچنے کے لیے ایک عرب سے پہلے دونوں اگلی ٹانگیں اندر کرنے کی اجازت لی، پھر کوہان تک کا حصّہ، پھر پچھلی دونوں ٹانگیں اندر کرلیں۔عرب اسی حساب سے سرکتا ہوا باہر نکلتا گیا۔ 

آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ اونٹ سارا خیمے کے اندر چلا گیا اور عرب خیمے کے باہر۔ وائزمین نے کہا کہ یہی کچھ فلسطین میں ہم نے عربوں کے ساتھ کیا۔ عالمی ادارے، لیگ آف نیشنز کا کردار دیکھا جائے، تو وہ اصل میں عثمانی سلطنت کے مقبوضات کی بندر بانٹ کے لیے وجود میں آئی تھی۔ 1916ء میں سائیکوس پیکوٹ معاہدے میں شرقِ اوسط کو فرانس اور برطانیہ میں تقسیم کرنے کا معاملہ طے پا گیا تھا۔

برطانوی فوج فلسطین میں داخل ہو گئی اور اُسے قبضے میں لے لیا۔پہلے سان ریمو کانفرنس کے فیصلے کے مطابق25 اپریل 1920ء کو برطانیہ کو فلسطین پر حُکم رانی کا مینڈیٹ دیا گیا اور پھر 24جولائی 1922ء کو لیگ آف نیشنز نے اس مینڈیٹ کی تجدید کردی۔ شروع میں عرب فلسطینیوں اور یہودیوں کے عوامی بہبود، تعلیم اور ثقافت کے الگ الگ ادارے تھے، لیکن یہودیوں نے تیز رفتار فلسطین منتقلی اور یہودی سرمایہ داروں کی عربوں سے سَستے داموں زمینیں خرید کر اور کچھ جبری قبضے کر کے اپنی پوزیشن بہت مضبوط کر لی تھی۔

یہ سب کچھ اُس بدنامِ زمانہ ایک’’خط‘‘ کا ثمر ہے، جو’’اعلانِ بالفور‘‘کے نام سے مشہور ہے، جو ایک یہودی نے دوسرے یہودی کو لکھا۔ برطانوی پارلیمنٹ، موجودہ جمہوری دنیا کی قدیم ترین پارلیمنٹ ہے، قاعدہ ہے کہ کوئی بڑا فیصلہ کرتے وقت پارلیمنٹ باضابطہ قرار داد منظور کرتی ہے، لیکن صیہونی ریاست کا معاملہ ایک خط کے ذریعے طے کر دیا گیا تھا۔درج ذیل سطور میں اُس خط کا اُردو ترجمہ قارئین کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

ڈیئر روتھ چائلڈ!

مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے انتہائی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ شہنشاہِ معظّم کی طرف سے صیہونی یہودیوں کے ساتھ پوری ہم دردی کے ساتھ درج ذیل اعلامیہ (میثاق) کابینہ کے سامنے رکھا گیا تھا، جسے اُس نے منظور کر لیا ہے۔ شہنشاہِ معظّم کی حکومت نے یہودی عوام کی ریاست اور مادرِ وطن کے معاملے کو حمایت اور ہم دردی کے جذبے سے دیکھا اور یہ اُس مقصد کے حصول کے لیے سہولت کاری میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھے گی۔

یہاں یہ بات بھی واضح طور پر ذہن نشین رکھی جائے کہ فلسطین میں پہلے سے رہنے والی غیر یہودی قومیّتوں کے خلاف ایسا کوئی متعصّبانہ قدم نہیں اُٹھایا جائے گا، جس سے اُن کے شہری اور مذہبی حقوق مجروح ہوں یا کسی دوسرے مُلک میں یہودیوں کے حقوق اور سیاسی حیثیت متاثر ہو۔ آپ یہ اعلامیہ صیہونی فیڈریشن کے علم میں لے آئیں، تو مَیں آپ کا ممنون ہوں گا۔

آپ کا (مخلص) آرتھرجیمز بالفور

(مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید