• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مذہبی جنون کی ہر کوئی مذمت کرتا ہے۔ ہمارا مذہب دوسروں سے نفرت کرنا نہیں سکھلاتا، انسان اشرف المخلوقات ہے ہمیں شرف انسانی کا تقدس بہرصورت ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے ،خواتین کا احترام کیا جائے۔ درویش کو آج تک زندگی میں کوئی ایک شخص ایسا نہیں ملا جو ان سب باتوں کو نہ مانتا ہو، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر رولا کیا ہے ؟‎ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کسی پر بلاسفیمی کا الزام لگنے کی دیر ہوتی ہے ہجوم اکٹھے ہو جاتا ہے جو لمحوں میں بلوے کی صورت اختیار کر لیتا ہے،بات پرتشدد حملوں تک چلی جاتی ہیں زیادہ تر ان کا نشانہ کمزوراقلیتیں بنتی ہیں۔معاملہ اگر اسلام کے اندرونی فرقوں سے متعلقہ ہو تو ان میںبھی مناظرے بازیاں اور لڑائیاں بکثرت ہوتی تھیں اب ان کی جگہ زیادہ تر بلاسفیمی کے الزامات نے لے لی ہے ۔‎وقفے وقفے سے ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ مختلف اقلیتوں کے افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس سلسلے میں اولیاء و صوفیاء کے ماننے والوں کو بالعموم قدرے معتدل خیال کیا جاتا تھا مگر جب سے ایک مخصوص تحریک پروان چڑھی ہے یہ لوگ سب کو مات دے گئے ہیں رشتوں اور قربتوں کا بھی کوئی پاس نہیں رہا یہاں نوعمر طالبعلموں نے اپنے پروفیسروں کو بھی یہ کہتے ہوئے قتل کرنا لازم سمجھا کہ وہ توہین مذہب یا توہین رسالتؐ کے مرتکب ہوئے تھے۔‎گورنر سلمان تاثیر کا قتل کسے یاد نہیں جسے اس کے اپنے محافظ یا باڈی گارڈ نے گولیوں سے بھون ڈالا تھا نوجوان و ذہین طالب علم مشعال خان کا اندوہناک سانحہ جسے اس کے اپنے ساتھی طالب علموں نے بے دردی و سفاکی سے تڑپا تڑپا کر مارا اورپھر ایک بدقسمت سری لنکن پر جو قیامت ڈھائی گئی یہ سب باتیں آج اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ ہمارے لاہور کے وسط میں واقع اچھرہ کی بارونق مارکیٹ میں ایک معزز خاتون کو عربی خطاطی والے کپڑوں پر جس ہولناک ہراسمنٹ سے گزرنا پڑا لمحوں میں سینکڑوں کا ہجوم جمع ہوگیا ، دینی جذبے سے سرشار کئی نوجوان چاقو اور چھریاں لیکر وہاں پہنچ چکے تھے اس لاچار خاتون کو کس قدر دہشت و وحشت کا سامنا تھا توہین سے لبریز ذلت آمیز رویہ تھا جیسے چندلوگ اس پر خدا بنے کھڑے آرڈر فرما رہے تھے تم بیٹھی ہوئی کیوں ہے؟ کھڑی ہو جا، آواز ے کسے جا رہےتھے کہ اس نے قرآنی آیات کی توہین کی ہے ہم یہ برداشت نہیں کریں گے۔‎انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا واقعی یہ انسانی سماج ہے یہ اتنے سارے لوگوں کے اذہان میں اتنی نفرت، اتنا زہر کس نےبھرا ہے ؟شکر ہے اس بھیڑ میں کسی خدا ترس نے اسے ایک دکان میں پناہ دی اورپولیس کو بلا لیا اور پھر پولیس کی بہادر خاتون اسے حکمت اور سمجھ داری سے چادر میں لپیٹ کر بچا لے گئی مگر تھانے میں پہنچ کر جس ذلت آمیز بے بسی میں اس سے معافی منگوائی گئی یہ کس قدر شرمناک اور قابل افسوس حرکت تھی ۔‎کیا ان پولیس والوں کو یا ہمارے طاقتوروں کو اپنی اس ذمہ داری کا احساس ہوا کہ جنہوںنے یہ حرکت کی انہیں قانون کے شکنجے میں لیکر نشان عبرت بنایا جائے تاکہ کل کلاں ہماری کسی اور معزز خاتون کے ساتھ اس نوع کی سفاکی روا نہ رکھی جاسکے ۔سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز گردش کر رہی ہیں اگر 9 مئی کے مرتکبین قابو کئے جاسکتے ہیں تو خاتون کے خلاف ہراسمنٹ کے ملزمان کی نشاندہی کیوں نہیں ہوسکتی ؟۔‎سوشل میڈیا پر سب نے اس خوفزدہ خاتون کی تصاویر دیکھی ہیں اور وہ لباس بھی جو کویتی کمپنی کا تیار کردہ عرب میں ہر جگہ پہنا جاتا ہے۔اب شاید ایک نئی بحث بھی چھڑنے والی ہے کہ حج و عمرہ کرنے والے جو ہزاروں لاکھوں جائے نماز عرب شریف سے لاتے ہیں ان پر خانہ کعبہ اور گنبد خضریٰ کی شبیہ بنی ہوتی ہے ان کے اوپر کھڑے ہو کر لوگ نماز پڑھتے ہیں پائوں رکھتے ہیں یا چوکڑی مارکر بیٹھ جاتے ہیں تو کیا یہ خانہ کعبہ اور گنبد خضر یٰ کی توہین ہے کیونکہ ایک حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ میں سبز گھاس پر چلنے کو بہتر نہیں سمجھتا کہ اس کی مشابہت گنبد خضریٰ سے ہے کل کلاں کالی چادروں یا کپڑوں کو بھی توہین سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کی مماثلت غلاف کعبہ سے ہے ۔اے میرے سادہ لوح پاکستانی مسلمانو تمہیں جو بدہضمی ہو چکی ہے اسکی کوئی حدود نہیں ہے،بددیانتی میں تم اول ایوارڈ کے حقدار ہو لیکن مذہب سے تمہاری محبت کا کوئی کنارہ نہیں۔ خدا کرے کہ کوئی ان جنونیوں کو لگام دے۔

تازہ ترین