یوں تو پاکستان 14اگست 1947کو وجود میں آیا لیکن مسلمانانِ ہند نے اپنے لیے اس آزاد اور جداگانہ مملکت کے حصول اور اس کے خدوخال کا اَٹل فیصلہ کئی سال پہلے 23 مارچ 1940ء کو ہی کرلیا تھا۔ اس روز قائداعظمؒ کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے منٹوپارک میں قراردادِ لاہور پیش کی جسے قرار دادِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے اور اسی دن کی یاد میں ملک بھر میں ہر سال ’’یومِ پاکستان‘‘ انتہائی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ اس قرارداد نے انگریز اور ہندو حکمرانوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ مسلمان ایک جداگانہ حیثیت رکھتےہیں، جس کے باعث ایک ہی وطن میں ہندوؤں کی بالادستی مسلمانوں کے مفاد میں نہیں۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں اور ہندوؤں کے راستے اس وقت جدا ہوئے جب مسلمانوں کی جانب سے نہرو رپورٹ میں تجویز کردہ 3ترامیم کو کانگریس کی جانب سے مسترد کرتے ہوئے اسے من و عن منظور کرلیا گیا۔ 1929ء میں نہرو رپورٹ کے ردِعمل میں مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں منعقد کی گئی، جہاں قائداعظمؒ نے 14نکات پیش کیے، جن کو انتہا پسند ہندوئوں نے رَد کردیا۔
قراردادِ لاہور سے قبل جداگانہ قوم کا تصور، شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے 30دسمبر1930ء کو الٰہ آباد میں منعقدہ جلسہ میں پیش کیا۔ علامہ اقبالؒ کی خواہش مسلمانوں کے لیے روشنی کی ایسی کرن ثابت ہوئی، جس نے آئندہ برسوں میں ایک علیحدہ اور خودمختار ریاست کے قیام کی جدوجہد کے لیے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا۔
پھر اپریل 1934ء میں قائداعظمؒ کی وطن واپسی کے بعد مسلمان لیڈروں نےباہمی اختلافات ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ایک خود مختار ریاست کی تکمیل کابیڑہ اٹھالیا۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تاجِ برطانیہ کی جانب سے1936ء تا 1937ء میں عوام کو اقتدار سونپنے کے پہلے مرحلے میں 11صوبوں میں الیکشن منعقد کروائے گئے، جس میں مسلم لیگ کو بنگال کے علاوہ کسی بھی صوبے میں نمایاں کامیابی حاصل نہ ہوسکی جبکہ کانگریس برصغیر کی نمایاں جماعت بن کر اُبھری۔
1938ء میں کراچی کے عیدگاہ میدان میں پہلی بار سندھ مسلم لیگ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں ایک قرارداد منظور کی گئی، جس میں برصغیر کی دونوں نمایاں جماعتوں سے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔ عبد المجید شیخ سندھی کی پیش کی گئی قرارداد میں واضح کیاگیا کہ ’’ہندوستان میں ایک کے بجائے دو قومیں آباد ہیں، مسلمان ہندوؤں سے علیحدہ قوم ہیں۔
لہٰذا مسلم لیگ کو ایسی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے جوہندوستان کے مسلمانوں کو آزادی و خود مختاری دلوا سکے‘‘۔ اس حکمت عملی کی تیاری کے لیے 1939ء میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کی جانب سے دو کمیٹیاں مجلس امورخارجہ اورمجلس آئینی تشکیل دی گئیں، جس کے بعد اگلے سال اس خواب کی پہلی صورت قراردادِ لاہور کی شکل میں سامنے آئی۔
1940ء میں قرارداد پیش کرنے کیلئے لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں آل انڈیا مسلم لیگ کی جنرل باڈی کونسل کا تین روزہ سالانہ اجلاس منعقد کیا گیا۔ نواب ممدوٹ نے استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر افتتاحی خطاب کیا، جس کے بعد بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنےتاریخی خطاب میں ہندوستان کوتقسیم کرکے’’مسلم انڈیا‘‘ کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔
مسلمانانِ ہند کی ایک بڑی تعداد نئے ملک کےحصول کی خاطر جمع ہوئی، وہاں ان کیلئے سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ پہلی بار قائد اعظمؒ کو دیکھنے اور سننے آئے تھے۔ عظیم قائد کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب لوگوں کا جم غفیر قائد اعظمؒ کی انگریزی میں کی گئی تقریر کو سمجھنے سے قاصر تھا لیکن ہر کوئی ان کے لفظو ں کی تاثیراور معنوں کو دل کی شرح سے سمجھ رہا تھا اور ایک ایک لفظ اپنی سماعتوں میں اُتار رہا تھا۔
اس روز پہلی مرتبہ ایک الگ اور خودمختار ریاست کی تحریک آئینی اور قانونی خدوخال میں پیش کی گئی۔ اس میں ان علاقوں، صوبوں اورخطوں کی نشاندہی کی گئی جو مجوزہ پاکستان میں شامل کیے جانے تھے۔ دوسرے روز 23 مارچ کو سہ پہر 3بجے متحدہ بنگال کے وزیراعلیٰ اے کے فضل الحق (شیرِ بنگال) نے قراردادِ ِپاکستان پیش کی جبکہ بیگم محمد علی جوہر نے تقریر میں قرارداد کوپہلی بارقراردادِ لاہور کہہ کر پکارا (آگے چل کر یہ قراردادِپاکستان کہلائی)۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھاکہ، ’’کوئی بھی دستوری خاکہ مسلمانوں کے لیے اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگا، جب تک ہندوستان کے جغرافیائی اعتبار سے متصل وملحق یونٹوں پر مشتمل علاقوں کی حد بندی اور ضروری علاقائی ردوبدل نہ کیا جائے‘‘۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، انھیں خودمختار ریاستیں قرار دیا جائے، جس میں ملحقہ یونٹ خودمختار اور مقتدر ہوں۔
قرارداد میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کا بھی کہا گیا، ’’ان یونٹوں کی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے صلاح مشورے سے دستور میں مناسب و مؤثر اور واضح انتظامات رکھے جائیں اور ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کے اور دیگر اقلیتوں کے صلاح مشورے سے ان کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے‘‘۔
قرارداد میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ ہندوستان کی تقسیم کے علاوہ کسی اور منصوبے کو قبول نہیں کرے گی۔ اجلاس میں موجود تمام شرکاء نے ہاتھ اُٹھاکر قرارداد کی حمایت کی۔ اجلاس کی صدارت قائداعظم نے کی جبکہ اس قرارداد کی تائید میں تقاریر کرنے والے مسلم اکابرین میں خان اورنگزیب خان، حاجی عبداللہ ہارون، بیگم مولانا محمد علی جوہر، آئی آئی چندریگر، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دیگر مسلم اکابرین شامل تھے ۔
24مارچ کو دن کے سواگیارہ بجے اجلاس کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تومتحدہ صوبہ جات کے نواب محمد اسمعٰیل خان، بلوچستان کے قاضی محمد عیسٰی اور مدراس کے عبدالحمید خان نے قراردادِ پاکستان کے حق میں تقریریں کیں۔ اس دوران قائد اعظمؒ نے کچھ کام نمٹانے کے بعد کرسی صدارت سنبھالی اور تقاریر کا سلسلہ جاری رہا۔ اس موقع پر قائد اعظم ؒ نے مداخلت کرتے ہوئے عبدالرحمٰن صدیقی کو فلسطین پر قرارداد پیش کرنے کی ہدایت دی۔
سید رضاعلی اور عبدالحامد بدایونی نے اس قرار دا د کی حمایت میں تقریریں کیں اور اس قرارداد کو فوری طور پر منظور کرلیا گیا۔ آئین کی تبدیلی کے سلسلے میں بھی دو قراردادیں پیش کی گئیں ، جنہیں فوراً منظور کرلیا گیا۔ اس کے بعد آئندہ سال کیلئے مسلم لیگ کے عہدیداران کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ آخر میں جب قائد اعظم ؒنےاپنا مختصر خطاب ختم کیا تو رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ جس مقام پر قرار دادِ لاہور پیش کی گئی آج وہاں مینارِ پاکستان قائم ہے جو ہمیں اُس تاریخی دن کی یاد دلاتا ہے گا، جب دو قومی نظریے کی صورت گری ہوئی۔