کچھ چیزوں کی علامتی اہمیت ہوتی ہے اور قوموں کی زندگیوں میں ان کی اہمیت ہر گزرتے وقت کے ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتی جاتی ہے۔ پیرس کا ایفل ٹاور، نیویارک کا ’آزادی کا مجسمہ‘ اور یوراگوئے کا ’مجسمہ امن‘ اس کی چند مثالیں ہیں۔
سرزمینِ لاہور پر جہاں مغلوں کا تعمیر کردہ قلعہ ہے تو وہاں عالمگیری مسجد کے محراب ومنبر بھی ہیں، ایک طرف گوردوارہ ہے تو دوسری جانب مقبرۂ جہانگیر کے چار مینار بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ موجود ہیں۔ ان سینکڑوں برس پُرانی تاریخی عمارات کے درمیان ایک نسبتاً نیا مینار اپنی پوری شان سے ایستادہ ہے۔ دنیا اسے مینارِ پاکستان کے نام سے جانتی ہے جبکہ مقامی لوگ اسے ’یادگار‘ بھی کہتے ہیں۔
لاہور کے اقبال پارک (پرانا نام منٹو پارک) میں تعمیر شدہ مینار کو تاریخِ پاکستان، تحریکِ آزادی پاکستان اور من حیث القوم ہماری زندگیوں اور ہمارے اقدار میں ایک تاریخی و نظریاتی اہمیت حاصل ہے۔ ہر پاکستانی مینارِ پاکستان سے ایک عقیدت رکھتا ہے، جس کی بنیاد قومی جذبہ حب الوطنی، تحریکِ پاکستان اور بانیانِ پاکستان کے ساتھ عقیدت و احترام میں پنہاں ہے۔
مینارِ پاکستان سے تحریکِ پاکستان کی خوشگوار، جدوجہد سے بھرپور اور اس عہد کا احاطہ کی ہوئی یادیں جُڑی ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ اس دور میں تخلیق ہونے والا ایک ایسا نعرہ ہے جو آج بھی لہو گرما دیتا ہے۔ تحریکِ پاکستان کی جب جب بات آئے گی، مینارِ پاکستان کا ذکر کیے بغیر وہ بات اور وہ بحث ادھوری ہی رہے گی۔
جس طرح مزارِ قائد، علامہ محمد اقبال کا مقبرہ اور دیگر بانیانِ پاکستان کی آخری آرام گاہیں ہمیں تحریکِ آزادی میں دی گئی قربانیوں، جدوجہد اور عظیم جذبہ کی یاد دِلاتی ہیں، بالکل اسی طرح مینارِ پاکستان کو دیکھ کر تحریکِ آزادی او ر قراردادِ لاہور (جو بعد میں قراردادِ پاکستان کہلائی) کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، جو آگے چل کر آزاد مملکت کے وجود میں آنے کا باعث بنی۔
تاریخ سے جڑے رہنا اور تاریخ کو فراموش نہ کرنا، کامیاب قوموں کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ 23مارچ 1940ءکا عہد ساز اور تاریخ ساز دن مسلمانانِ ہند کی زندگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جس کی ایک زندہ و جاوید مثال مینارِ پاکستان کی صورت میں موجود ہے اور انشاء اللہ تا قیامت یہ اسی آب و تاب کے ساتھ موجود رہے گا۔
یقیناً، یہ بات قابلِ بحث ہے کہ منٹو پارک میں پاس ہونے والی قراردادکی روشنی میں بننے والا ملک ’پاکستان‘ نوزائیدگی میں ہی دولخت ہوگیا تھا، پھر یکے بعد دیگرے کئی جیو اسٹریٹجک اور سیاسی بحران تھونپنے کی کوشش کی گئی، جس نے مسلمانوں کے لیے حاصل کی گئی اس عظیم ریاست کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ لیکن، روشن ماضی سے ہم اپنے حال اور مستقبل کے لیے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔
23مارچ کے دن ملک بھر میں جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور کرنا بھی چاہیے کیونکہ قیامِ پاکستان میں اس دن کو انتہائی اہمیت حاصل ہے، پر اے کاش کہ ہم اس دن کے تقدس کو بھی یاد رکھیں۔ ہم اقبال پارک جاتے ہیں، مینارِ پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں، وہاں خوب تفریح کرتے ہیں، سیلفیاں لیتے ہیں مگر اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ مینارِ پاکستان کی تعمیر کا مقصد صرف تفریح فراہم کرنا ہرگز نہیں تھا۔
مینارِ پاکستان کی ظاہری بلندی کہنے کو تو تقریباً 196 فٹ ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ کوئی پیمانہ ایسا نہیں جو ان حوصلوں اور ولولوں کو ناپ سکے، جن کےذریعےمسلمانانِ ہند نے سینکڑوں برسوں پر محیط غلامی سے آزادی تک کا فاصلہ محض سات برسوں میں طے کیا۔ میرا خیال ہے، یہی وہ بات ہے جس کے پیرائے میں مینارِ پاکستان کے تعمیراتی ڈھانچے او راس کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے اور سمجھا جانا چاہیے۔
اگلی بار جب آپ اقبال پارک اور مینارِ پاکستان کی سیر کو جائیں تو مینارِ پاکستان کے سینے پر درج قراردادِ پاکستان کو ضرور پڑھیں۔ اپنے ماضی، حال اور مستقبل پر غور کریں، پاکستان بنانے کامقصد سمجھیں، نیا ملک حاصل کرنے کے لیے بانیانِ پاکستان کے اغراض و مقاصد جانیں اور پھر پاکستان کے لیے کچھ کرنے اور عوام کی خدمت کا نیا جذبہ لے کرواپس آئیں۔
اگر ہم سب نے ایسا نہ کیا تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ مینارِ پاکستان بظاہر تو اقبال پارک میں سَر اُٹھائے کھڑا ہوگا لیکن درحقیقت وہ یہ سوچنے میں بھی حق بجانب ہوگا کہ 23مارچ 1940ء کو بانیانِ پاکستان کے ارادوں کی بلندی کیا تھی اور آج کی نسل کہاں کھڑی ہے؟ آئیے اس 23مارچ عہد کریں کہ ہم مینارِ پاکستان کا سَر اسی آب و تاب اور اسی شان و شوکت کے ساتھ تادمِ قیامت بلند رکھیں گے۔