انسانی تاریخ میں بہت ہی کم ایسی شخصیات گزری ہیں، جو قو ل و فعل کی عملی تصویر ہوں۔ مثالیں دینا اور نصیحتیں کرنا سبھی جانتے ہیں لیکن جو ان پر خود بھی صدق دل سے عمل کرے اور کروائے، ایسی عظیم شخصیات پر خود تاریخ بھی فخر کرتی ہے۔ ہمارے بے مثال قائد کی زندگی سے منسوب ایسے اَن گنت واقعات ہیں ،جن سے ان کے عزم واستقلال اور نظم و ضبط کی عملی تفسیر ہونے کا پتہ چلتاہے۔ یقین جانیے من حیث القوم اگر ہم نے ان کے مثالی نظم و ضبط کے رہنما اصولوں پر عمل کرنا شروع کردیا تو پھر وطن عزیزکو ترقی کے زینے چڑھنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
قائد اعظم محمد علی جناح ؒہمیشہ وقت کی پابندی کے اصولوں پر کاربند رہے اورا س پر انہوں نے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہے کہ وفات سے کچھ عرصہ قبل بابائے قوم نے بینک دولت پاکستان کا افتتاح کیا، یہ وہ آخری سرکای تقریب تھی جس میں قائداعظم اپنی علالت کے باوجود شریک ہوئے۔ وہ ٹھیک وقت پر تقریب میں تشریف لائے، انہوں نے دیکھا کہ شرکاء کی اگلی نشستیں اس وقت تک خالی تھیں۔
انہوں نے تقریب کے منتظمین کو پروگرام شروع کرنے کا کہا اور یہ حکم بھی دیا کہ خالی نشستیں ہٹا دی جائیں۔ آپ کے اس حکم کی تعمیل ہوئی اور بعد میں آنے والے شرکاء کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال دیکھنا پڑا۔ ان میں کئی وزراء اور سرکاری افسران کے ساتھ اس وقت کے وزیرا عظم خان لیاقت علی خان بھی شامل تھے، وہ بے حد شرمندہ تھے کہ ان کی یہ غلطی قائد اعظم نے برداشت نہیں کی اور ایسی سزا دی جو کبھی نہ بھلائی جائے گی۔
رشوت، سفارش اور بے ایمانی جیسی معاشرتی خرابیوں سے قائد اعظم کوسوں دور تھے، نہ خود کبھی انہوں نے ایسا کرنے کا سوچا اور نہ ہی دوسروں کوکرنے کا موقع دیا۔ ایک بار قائد اعظم سفر کر رہے تھے، سفر کے دوران انہیں یاد آیا کہ غلطی سے ان کا ریل کا ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اور وہ بلا ٹکٹ سفر کر رہے ہیں، جب وہ اسٹیشن پر اترے تو ٹکٹ ایگزامنر سے ملے اور اس سے کہا کہ چونکہ میرا ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اس لیے دوسرا ٹکٹ دے دیں۔
ٹکٹ ایگزامنر نے کہا کہ آپ دو روپے مجھے دے دیں اور پلیٹ فارم سے باہر چلے جائیں، قائداعظم یہ سن کر طیش میں آگئے اور انہوں نے کہا کہ ’’تم نے مجھ سے رشوت مانگ کر قانون کی خلاف ورزی اور میری توہین کی ہے‘‘۔ بات اتنی بڑھی کہ لوگ اکٹھے ہو گئے، ٹکٹ ایگزامنر نے لاکھ جان چھڑانا چاہی لیکن قائداعظم اسے پکڑ کر اسٹیشن ماسٹر کے پاس لے گئے، بلآخر ان سے رشوت طلب کرنے والا قانون کے شکنجے میں آگیا۔
ایمانداری اور دیانتداری ہمارے قائد کی لافانی شخصیت کا خاصہ تھا اور وکالت جیسے پیشے میں جہاں نامور وکلاء زائد آمدنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، وہیں قائد اعظم اپنے اصولوں کے مطابق ایک پائی زیادہ وصو ل نہیں کرتے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک تاجر مقدمہ لے کر آیا۔ اس نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس مقدمے میں میری وکالت کریں، آپ کی فیس کیا ہوگی؟قائدِاعظم ؒنے کہا،’’ میں مقدمے کے حساب سے نہیں، دن کے حساب سے فیس لیتا ہوں۔‘‘ مؤکل نے فیس پوچھی تو قائد نے کہاکہ وہ پانچ سوروپے فی پیشی لیتے ہیں۔
مؤکل کے پا س پانچ ہزار روپے تھے، جو اس نے قائد کو دینا چاہے تو قائد نے کہا، ’’مجھے افسوس ہے کہ میں یہ مقدمہ نہیں لے سکتا، ہوسکتا ہے کہ یہ مقدمہ طول پکڑے اور یہ رقم ناکافی ہو۔ بہتر ہے کہ آپ کوئی اور وکیل کرلیں کیونکہ میرا اصول ہے کہ میں فی پیشی فیس لیتا ہوں‘‘۔ بہرحال قائدِاعظم ؒنے اپنی شرائط پر مقدمہ لڑا اور اپنی فراست سے مقدمہ تین پیشیوں میں ہی جیت لیا اور فیس کے صرف پندرہ سو روپے وصول کیے۔ تاجر نے اس کامیابی کی خوشی میں پورے پانچ ہزار پیش کرنا چاہے تو قائدِاعظم نے جواب دیا، میں نے اپنا حق لے لیا ہے۔
قائد اعظمؒ اپنے عہدے اورپروٹو کول کا نہ خود فائدہ اٹھاتے تھے اور نہ ہی دوسروں کو اس کا موقع دیتے تھے۔ اسی لئے جب وہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں منائی جانے والی پہلی عید کی نماز میں دیر سے پہنچے تو پہلی صف میں نماز پڑھنے کے بجائے پیچھے کی صف میں کھڑے ہوگئے۔ ہوا کچھ یو ں کہ 25 اکتوبر 1947ء کوعید الاضحیٰ کی نماز کے لیے قائد اعظم وقتِ مقررہ پر عید گاہ نہیں پہنچ پائے۔ اعلیٰ حکام نے مولانا ظہور الحسن درس کو مطلع کیا کہ قائد اعظم راستے میں ہیں ا س لئے نماز کی ادائیگی کچھ وقت کے لیے مؤخر کردیں۔
مولانا ظہور الحسن درس نے فرمایا میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل کے لیے نماز پڑھانے آیا ہوں، چنانچہ انہوں نے صفوں کو درست کرکے تکبیر پڑھ دی۔ ابھی نماز عید کی پہلی رکعت شروع ہی ہوئی تھی کہ اتنے میں قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے۔ قائد اعظم کے منتظر اعلیٰ حکام نے قائد سے درخواست کی وہ اگلی صف میں تشریف لے چلیں مگر قائد اعظم نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا اور قائد اعظم نے پچھلی صف میں نماز ادا کی۔ قائد اعظم کے برابر کھڑے نمازیوں کوجب پتہ چلا کہ ان کے برابر میں نماز ادا کرنے والا کوئی عام شہری نہیں بلکہ ریاست کا سربراہ ہے توان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ بعد میں قائد اعظم نے مولانا ظہور الحسن کی تعریف کی کہ ہمارے علماء کو ایسی ہی جرأت اور کردار کا حامل ہونا چاہئے۔