• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وجاہت مسعودایک ممتاز اورمنفرد کالم نویس ہیں۔ انہوں نے چند روز قبل ’’تالاب گدلا ہوگیا ہے‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا ہے۔ جس میں انہوں نے 12 مارچ 1949ءکو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں منظور کی گئی قراردادِ مقاصد پر شدید تنقید کی ہے۔ اس قرارداد کے محرک پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان تھے۔ تمام مسلمان ارکان نے قرارداد مقاصد منظور کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا اور شایدبہت کم لوگوں کے علم میں ہو کہ سر محمد ظفر اللہ خان قادیانی نے بھی قرارداد مقاصد کے حق میں بڑی مدلل اور مفصل تقریر کی تھی۔ یہ وہی سر محمد ظفر اللہ خان ہیں جنہوں نے اپنے عقیدے کے باعث قائد اعظم کا جنازہ بھی نہیں پڑھا تھا، قرارداد مقاصد کی منظوری کیلئے پیش پیش تھے اور انہیں قرارداد مقاصد میں کوئی ایسی خرابی نظر نہیں آئی جو ہمارے بھائی وجاہت مسعود کو نظر آگئی ہے۔ 1985ءمیں جنرل ضیا الحق کے دور میں قرارداد مقاصد کو دستور پاکستان کا مستقل حصہ بنا دیا گیا۔ جس پر وجاہت مسعود نے بڑی حسرت اور تاسف کے ساتھ اپنے کالم میں لکھا کہ انہیں اپنی زندگی میں یہ امید نہیں کہ دستور پاکستان کو اس آلودگی سے پاک کیا جائے گا۔ گویا ارشاد یہ ہے کہ جب تک قرارداد مقاصد دستور پاکستان کا مستقل حصہ رہے گی دستور ِپاکستان پاک نہیں ہو گا۔ قرار داد مقاصد کے اصول اور احکام وجاہت مسعود اگر اپنے کالم میں تحریر کر دیتے اور یہ بھی وضاحت کر دیتے کہ قرارداد مقاصد کے کن اصولوں اور احکام کی وجہ سے وہ پریشان اور غصے میں ہیں تو عامتہ الناس کو سمجھنے میں آسانی رہتی۔

قرار داد مقاصد کا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے۔ ’’چونکہ اللہ تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدوں کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘.... ’’مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی‘‘۔ اگر قرارداد مقاصد کو دستور پاکستان کا مستقل حصہ نہ بھی بنایا جاتا تو پھر بھی کوئی مسلمان کس طرح اللہ تعالیٰ کے کل کائنات کے بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہونے سے انکار کر سکتا ہے؟۔ اور ارکانِ پارلیمینٹ اسلام پر ایمان رکھتے ہوئے کس طرح یہ اظہار یا اعلان کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے اختیارات اور اقتدار کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال نہیں کریں گے۔ خود قائد اعظم نے 10 جولائی 1947ء کو ’’پیسہ اخبار‘‘ میں شائع ہونیوالے انٹرویو میں صوبہ سرحد کے کانگرسی لیڈروں عبدالغفار خان اور انکے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کے اس الزام کی پر زور تردید کی تھی کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا مرتب کردہ آئین شریعت کے مطابق نہیں ہو گا۔

پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے ہندو ارکان کی طرف سے قرار داد مقاصد میں یہ ترمیم پیش کی گئی کہ قرار داد مقاصد میں سے یہ پیرا گراف حذف کر دیا جائے ’’اللہ تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔ یہ ترمیم دستور ساز اسمبلی کے تمام مسلمان ارکان نے مسترد کر دی حتیٰ کہ سرظفر اللہ خان قادیانی نےبھی اس ترمیم کے خلاف ووٹ دیا۔

میرا گمانِ غالب ہے کہ وجاہت مسعود مجھ سے کہیں بہتر مسلمان ہیں اسلئے میرا یہ بھی گمان ہے کہ وجاہت مسعود جس آلودگی سے دستور پاکستان کو پاک کرنا چاہتے ہیں اس سے ان کی یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ پاکستان کی پارلیمینٹ کے ممبران اپنے اختیارات و اقتدار کو اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر استعمال نہ کریں۔

قرار داد مقاصد میں یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ پاکستان کا دستور بناتے ہوئے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں کو، جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے گا۔ اگر ان اصولوںپر عمل ہو تو اس سے دستور پاکستان کیسے گدلا ہو سکتا ہے۔ جمہوریت، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کی جو تشریح قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام نے کی ہے اس پر عمل کرنے سے ایک مسلمان معاشرے میں خیر و برکت ہی پھیلے گی۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے بھائی وجاہت مسعود کا اصل اعتراض کیا ہے۔ قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل کرنے سے کسی بھی اقلیت کے اپنے مذہب و عقیدہ پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے کا حق متاثر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اقلیتوں پر اپنی ثقافتوں کو آزادانہ طور پرترقی دینے کے حوالے سے کوئی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ قرارداد مقاصد میں واضح طور پر یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ اقلیتوں کو آزادی کے ساتھ اپنا مذہب اور عقیدہ رکھنے اور اس پر عمل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

قرار داد مقاصد میں بنیادی حقوق کے حوالے سے بھی یہ پیرا گراف بھی موجود ہے کہ حیثیت اور مواقع میں برابری، قانون کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہار خیال، اجتماع، عقیدہ دین اور عبادات میں آزادی۔ عدلیہ کی آزادی کی مکمل ضمانت دینے کا اعلان بھی موجود تھا۔ اس امر کابھی واضح اظہار ہے کہ اقلیتوں اور پسماندہ اور پسے ہوئے طبقوں کے جائز حقوق کو قرار واقعی تحفظ دیا جائے گا۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ قرار داد مقاصد کے کس مخصوص حصے پر وجاہت مسعود کواعتراض ہے یا تمام پیرا گراف ہی انکے نزدیک گردن زدنی ہیں۔ اگر وہ اپنے کسی کالم میں قرار داد مقاصد کا مکمل متن شائع کرکے اس کے ایک ایک پیرا گراف کا جائزہ لے کر ہماری رہنمائی کر دیں تو ہمیں بھی علم ہو جائےگا کہ دستور پاکستان کو وہ کن کن آلودگیوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ اسلام کے پاکستان کے مملکتی مذہب ہونے پر تو ان کو کوئی اعتراض نہ ہوگا کیونکہ آئین کے اس آرٹیکل کو لیاقت علی خان نے منظور نہیں کروایا۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل 227میں کہا گیا ہےکہ تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا۔ اس آرٹیکل پر بھی انکو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس آرٹیکل کو مولانا شبیر عثمانی نےتحریر نہیں کیا۔

تازہ ترین