وطن عزیز جن وجوہات کی بنا پر آج " بدحالی " میں، اسکی نشاندہی 2015ءسے اپنے کالموں میں تسلسل سے کرتا رہا ۔ نواز شریف کے دورِ حکومت میں چین کے اشتراک سے جب سی پیک منصوبہ کی داغ بیل ڈالی گئی ، یقین تھا منصوبہ ریاست کو چار چاند لگائے گا ۔ مملکت کے پروان چڑھنے کا شاید یہ آخری موقع تھا ۔ یکسوئی کیساتھ ایک فقرہ اپنے کالموں میںدرجنوں بار دُہرایا ، " چین سی پیک منصوبہ ہر صورت پایہ تکمیل تک پہنچائے گا جبکہ امریکہ کسی صورت نہیں بننے دے گا " ۔ معلوم تھا کہ آہ و بکا صدابہ صحرا رہنی ہے ، ہمت نہ ہاری ۔
مارچ 2016ءمیں سدرن کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے کوئٹہ میں ایک کانفرنس منعقد کرائی۔ جنرل راحیل شریف سمیت ڈیڑھ درجن سینئر جرنیل بھی اس میں شریک ہوئے ۔ دورانِ کانفرنس سی پیک بارے اپنے خدشہ کا اظہار کیا۔ یہ جان کر ایک گونہ تشفی رہی کہ عسکری قیادت من و عن خطرے کا ادراک رکھتی تھی ۔ سی پیک کو ممکنہ لاحق خطرات سے نبٹنے کا عزم صمیم بھی بدرجہ اتم موجود تھا ۔ سمجھ سے بالاتر تھا کہ پھر 2014 سے مملکت کو غیر مستحکم کرنے کی سازش اسٹیبلشمنٹ نے کیوں شروع کی؟ دو رائے نہیں کہ 80کی دہائی میں اگر امریکہ افغانستان میں پاکستان کا محتاج نہ ہوتا ، جنرل ضیاء الحق ہرگز ایٹم بم نہ بنا پاتے ۔ بعینہ دوسری افغان جنگ میں امریکہ کا افغانستان میں پھنسنا اور کولیشن سپورٹ فنڈز (CSF) کے اربوں ڈالر کا میسر رہنا ،سازگار حالات میں پرویز مشرف نے نہ صرف ڈیڑھ درجن ایٹمی ہتھیاروں کو 6درجن تک پہنچا دیا ، ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار ( TNWs )سے پاکستانی فوج کو لیس کر دیا۔ 2002ءسے 2021ءامریکہ کےافغانستان میں ایڈونچر سے ایک بار پھر کچھ کر گزرنے کا سنہری موقع ہاتھ آگیا ۔ اگرچہ سی پیک پلاننگ ایک عرصہ سے جاری تھی، 2014میں پلک جھپکتے اِس پرعملدرآمد شروع کرنے کی ٹھانی ۔ دونوں ممالک کا عزم کہ سی پیک کا پہلا فیز 2020 تک مکمل ہو جائیگا۔ پاکستان کے وارے نیارے تھے ۔ وطنی بد نصیبی کہ سی پیک بھی بن کھلے مرجھا گیا کہ’’ گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے ‘‘۔ اکتوبر 2021 میں چینی صدر کے دورے سے 2 ماہ پہلے اسٹیبلشمنٹ کی تھپکی پر’’ دو مہرے‘‘ ڈی چوک اسلام آباد پہنچ گئے۔ نظام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے ہر ہنر آزمایا گیا۔چند ہزار کے جتھہ نے نواز حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ نواز حکومت کی جانفشانی، 2017میں اقتدار قربان کر دیا ، سی پیک کو پٹڑی سے نہ اترنے دیا۔
2016 میں عسکری قیادت کی تبدیلی سے اتنا فرق پڑا کہ’’نواز شریف ہٹاؤ‘‘پروجیکٹ جُز وقتی سے ہمہ وقتی ہو گیا۔ نواز شریف کو اقتدار سے نکالنا، ادارے کی انا کا مسئلہ بن گیا۔ بخوبی ادراک تھا کہ سیاسی عدم استحکام سے ملک دشمن مفادات کو تقویت ملے گی ۔ 2018 کے متنازع الیکشن کے ذریعے بالآخر’’ پروجیکٹ نواز ہٹاؤ‘‘ کامیابی سے ہمکنار ہوا تو قطع نظر نواز شریف ( 10 سال جمع 7 سال اور مریم نواز 7 سال ) جیل میں تھے ،امریکہ اور یورپ نے الیکشن دھاندلی اور نواز شریف قید سے صَرف نظر رکھا کہ انہی کے مفادات ہی تو پروان چڑھ رہے تھے ۔
الیکشن 2018 کے بعد سی پیک کا کھڈے لائن لگنا، منطقی نتیجہ تھا۔ عمران حکومت کا پہلا اعلامیہ یہی ’’ہم سی پیک چند سال کیلئے بند کر رہے ہیں‘‘۔ پلک جھپکتے سی پیک معاہدوں کی تفصیلات امریکہ کے حوالے کر دیں ، یوں امریکہ خوش و مطمئن ہوا ۔ نواز شریف کو کریڈٹ 28مئی 1998اورسی پیک پر امریکہ کو دوبار ABSOLUTELY NOT" "کہا، دونوں بار اپنا اقتدار گنوا دیا مگر پاکستان کے مفادات کا سودا نہ کیا۔ عمران کے ABSOLUTELY NOT" " سے نواز شریف کا ABSOLUTELY NOT" " مختلف کہ ایک تصوراتی جبکہ دوسرا ایک مسلمہ حقیقت تھی۔ مارچ 2022 میں عمران نے حکومت جاتے دیکھی تو امریکی مراسلہ کا شوشہ چھوڑا،معلوم تھا کہ سائفر بیانیہ جھوٹ اور ڈھکوسلا تھا ۔ البتہ جھوٹ سے سیاست میں جان پڑ گئی ۔ آج تک انصافی دال روٹی میں’’سائفر ڈش‘‘جزو لاینفک ہے ۔
تحریک انصاف کو اندازہ ہے کہ امریکہ اور دوسرے دشمن پاکستان کو افراتفری اور انارکی میں دھکیلنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں ۔ اس پس منظر میں " سائفرا سکینڈل " کو توانا رکھنے کیلئے PTI نے امریکہ میں کروڑوں ڈالر لابنگ کمپنیوں اور سوشل میڈیا پر خرچ کرڈالے ہیں ۔ ڈالروں کے زور اور محنت مشقت کیساتھ امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس بلوایا اور اجلاس سے ہزاروں اُمیدیں وابستہ رکھیں۔ امریکہ میں یہ رواج عام کہ آپ پارلیمان ممبران کو فنڈ دیکر اپنی مصنوعات یا سیاست کی لابنگ کر تے ہیں ۔ دام بنائے کام ، بوقت ضرورت اپنی مرضی کے سوالات کروائے جاتے ہیں ۔ ازراہ تفنن اس کام کیلئے PTI نے جو کروڑں ڈالر اکٹھے کئے ، PTI کے کرتا دھرتا’’سجاد بَرکی‘‘پر 2 ملین ڈالر کے خُرد برد کا الزام بھی لگ چکا ۔
20 مارچ کو امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا تو ڈونلڈ لُو پر سائفر کے حوالے سے جرح ہوئی ۔ ڈونلڈ لُو نے بغیر الفاظ چبائے کہا کہ ’’سائفر پر عمران خان کا موقف جھوٹ اور محض ڈھکوسلا ہے‘‘۔ جن کانگریس ممبران نے عمران خان کے حق میں تیکھے سوالات کی بوچھاڑ کی تو انصافیوں نے ڈونلڈ لُو کے جواب کی بجائے اُن سوالات کو بذریعہ سوشل میڈیا پھیلایا کہ دھوکہ دہی کا کاروبار ہمیشہ سے منفعت بخش ہے۔ ایسے سوالات پر گیلری میں موجودانصافیے نعرہ تکبیر بلند کرتے نظر آئے ۔ ذرا سوالات کرنیوالے امریکی ممبران کے اوصاف حمیدہ پر نظر ڈالیں ۔مشترکہ صفات میں پاکستان مخالفت ، مسلمانوں سے نفرت ، صہیونیوں کے پروردہ ، اسرائیل کے ٹاؤٹ ، وجہ شہرت ہے ۔ مثلاً مائیکل میک کال ، آگست فلوگر اور بریڈ شرمین کے پاکستان ، ایران ، یمن سول وار اور حالیہ فلسطینی قتل عام پر زہرآلود اور شر انگیز بیانات کی بھرمار موجود ہے ، ۔ انصافیوں کے نزدیک وطنی مفادات ، عمران خان مفادات کے سامنے ثانوی ہیں ۔
شہباز حکومت نے قائم ہوتے ہی سی پیک کو دوبارہ شروع کرنیکا عزم دُہرایا ۔ یقیناً پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کا واحدذریعہ سی پیک ہے ۔ جبکہ عمران خان ٹولہ IMF میں شاندار ناکامی کے بعد سی پیک رکوانے کیلئے اپنے ترکش کے سارے تیر استعمال کرنے کو تیار ہے ۔ امریکہ اور بھارت سےمددمیسر ہے ۔ وطنی اقتصادی بحران سے نبٹنے کا سب سے بڑاہتھیار سی پیک جبکہ بحران سے دوچار رکھنے کیلئے سی پیک کی بندش ضروری ہے ۔عمران خان ٹولہ پھر سے روکنے کیلئے جُت چکا ہے ۔ سی پیک کو روکنا ، عمران خان کی سیاست اور امریکی، بھارتی مفادات کی اشد ضرورت ہے ۔ بدنصیبی !ایک دفعہ پھر سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی کُلی ذمہ داری عمران خان کے مضبوط کندھوں پر آن پڑی ہے ،’’ہوئے تم دوست جسکے !‘‘ ۔