• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی سلامتی پالیسی کی دستاویز اگلے روز قومی اسمبلی میں پیش کردی ہے ۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی پالیسی ہے جو قومی سلامتی کو درپیش سنگین خطرات سے نمٹنے کے لئے بنائی گئی ہے ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ پاکستان اس وقت بدترین داخلی عدم استحکام کا شکار ہے۔ دہشت گرد ریاست سے زیادہ طاقتور نظر آتے ہیں اور اگر انہیں ریاست اپنے سے زیادہ طاقتور تسلیم نہ بھی کرے، تب بھی عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ لوگ بے یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔ لوگوں کو اس بات کا خوف ہے کہ دہشت گردوں کے ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہے ۔ ایسے حالات میں قومی سلامتی کی پالیسی کے اعلان سے پاکستان کے عوام میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ اگرچہ تاخیر سے ہی سہی، کم از کم دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے اعلیٰ سطح پر سوچنے کا عمل تو شروع ہوا ہے ۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکومت سے مکمل تعاون کا اظہار کیا ہے ۔ حکومت نے جب طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے تو بھی ملک کی تمام سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے اس مذاکراتی عمل کی مخالفت نہیں کی۔ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں قومی سیاسی قیادت نے حکومت کو مکمل مینڈیٹ دے دیا تھا کہ وہ امن قائم کرنے کے لئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کر سکتی ہے۔ مذاکرات کے دوران دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے اور حکومت نے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر مذاکرات کا عمل روک دیا اور انتہا پسندوں کے خلاف فوجی ایکشن شروع کر دیا تو بھی اکثر سیاسی جماعتوں نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اجتماعی خواہش یہ ہے کہ امن قائم ہو۔ اس کے لئے حکومت چاہے کوئی بھی راستہ اختیار کرے۔ پوری قوم حکومت کے ساتھ ہے ۔ قومی سلامتی پالیسی کی جو دستاویز حکومت بنا کر لائی ہے اسے بھی کسی نے متنازع بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اب حکومت پر ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اب مکمل انحصار قومی سلامتی پالیسی اور اس کے اطلاق پر ہے۔ قومی سلامتی پالیسی وضع کرنے والوں نے یقیناً ماضی کے ان حالات کو بھی مدنظر رکھا ہو گا جن کی وجہ سے آج پاکستان بدترین دہشت گردی اور خونریزی کا شکار ہے۔ پالیسی وضع کرنے والوں نے مسلح افواج، انٹیلی جنس کے اداروں اور دیگر سیکورٹی فورسز کے قیام امن سے متعلق نقطہ ہائے نظر اور ان کی اسٹریٹجک پالیسیوں کو بھی اکاموڈیٹ کیا ہو گا۔ پالیسی سازوں نے ملک کے سیاسی حالات اور مختلف بین الاقوامی و ملکی عناصر کے مخصوص مفادات کے کھیل کو بھی پیش نظر رکھا ہو گا۔ اس کے باوجود کچھ پہلو ایسے ہیں جن کی نشاندہی ضروری ہے مثلاً طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے یا ان سے نمٹنے کے حوالے سے ابھی تک ہمارے ریاستی اداروں اور قومی سیاست میں مکمل اتفاق رائے نہیں ہے ۔ اس ایشو پر اگر اتفاق رائے نہیں پایا گیا اور ابہام رہنے دیا گیا تو مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ میں طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروہ پاکستان کے اتحادی رہے ہیں ۔ امریکی سی آئی اے ، امریکہ کے اتحادی ممالک کے انٹیلی جنس ادارے اور پاکستان کے ادارے ان کی مکمل سپورٹ کرتے رہے ہیں ۔ کچھ عسکریت پسند گروہ کشمیر میں بھی سرگرم رہے ہیں ۔ ابھی تک بھی اچھے اور برے طالبان کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں ۔ بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان پاکستان کے اسٹریٹجک پارٹنرز ہیں۔ یہ بھی رپورٹس آ رہی ہیں کہ طالبان کے کچھ گروہ شام ، مصر اور دیگر ملکوں میں بھی لوگوں کو یہاں سے بھیج رہے ہیں ۔ بعض دفاعی مبصرین کا خیال یہ ہے کہ امریکہ طالبان سے مستقبل میں بھی کام لینے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں یہ طالبان پاکستان کے لئے بھی کام آ سکتے ہیں ۔ اس لئے صرف ان گروہوں کے خلاف کارروائی کی جائے جو پاکستانی ریاست کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں یا جو پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے ابہام کو دور کرنا چاہئے اور قومی اتفاق رائے سے پالیسی بنانی چاہئے ۔ اس پالیسی کا بنیادی مقصد یہ ہو کہ پاکستان میں فوری طور پر امن بحال ہو ، ریاست کی عمل داری قائم ہو اور لوگوں کو جان و مال کا تحفظ حاصل ہو ۔ اگر اس مقصد پر مستقبل کی تصوراتی اسٹریٹجک پالیسیوں کو ترجیح دی گئی تو امن قائم کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات یا مقابلہ کرنے کی پالیسیوں میں الجھنے کی وجہ سے ملکی حالات کو وسیع تر تناظر میں نہیں دیکھا جا رہا ہے۔ کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر قتل عام ہو رہا ہے اور یہ قتل عام کسی طرح بھی نہیں رک رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کو ثانوی مسئلہ تصور کر لیا گیا ہے اور بعض حلقے تو یہ توضیح پیش کر رہے ہیں کہ طالبان کا مسئلہ حل ہو گا تو کراچی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ کراچی کا مسئلہ بہت دیرینہ اور پیچیدہ ہے ۔ کراچی میں اس وقت سے خونریزی ہو رہی ہے جب طالبان کا وجود بھی نہیں تھا۔ ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں مجموعی طور پر اتنے لوگ نہیں مرتے ہوں گے، جتنے کراچی میں لوگ بے بسی سے مر رہے ہیں ۔ کراچی میں جب تک امن قائم نہیں ہو گا ، تب تک پورے ملک میں امن قائم کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ طالبان سے چاہے مذاکرات کامیاب بھی ہو جائیں تو بھی کراچی میں امن نہیں ہو گا ۔ طالبان کے خلاف آپریشن سے بھی کراچی کا مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ جب تک کراچی میں بدامنی ہے، طالبان کا مسئلہ حل کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ پاکستان کو دہشت گردی، بدامنی اور خونریزی میں مبتلا رکھنے کی منصوبہ بندی کرنے والی قوتیں کراچی میں زیادہ مضبوط ہیں ۔ قومی سلامتی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اس پہلو کو بھی ضرور مدنظر رکھنا چاہئے۔ تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور سیکورٹی فورسز کے مابین ہر مرحلے پر ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لئے جو میکانزم ہونا چاہئے، وہ نہیں ہے ۔ روایتی خلیج اور دوریوں کو ختم ہونا چاہئے ۔ دہشت گردی نے پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے ۔ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے غیر معمولی کوششوں کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پوری پاکستانی قوم کے مثالی اتحاد کا نتیجہ ہر حال میں کامیابی کی صورت میں نکلنا چاہئے ’’بصورت دیگر‘‘ کی گنجائش نہیں ہے ۔
تازہ ترین