• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاحت کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ دنیا کےکئی ممالک کی معیشت کا زیادہ تر انحصار سیاحت پر ہے۔ دنیا میں تیل کے بعد سیاحت بڑی آمدن کا ذریعہ ہے۔ پاکستان میں قدرتی حسن سے مالامال اور پر فضا سیاحتی مقامات موجود ہیں۔ تاہم اس شعبے سے ہم صحیح معنوں میں اب تک مستفید نہیں ہوسکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس اہم شعبے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ 

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے بعد آزاد ہونے والے ممالک نے اپنےوسائل اور توانائیاں سیاحت پر مرکوز کرکے نہ صرف ترقی کے دوڑمیں ہم سے آگے نکل گئے ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں اپنا نمایاں مقام بنا لیا ہے۔ جب تک سیاحت کو صنعت کا درجہ نہیں دیا جاتا وہ کیسے فروغ پاسکتی ہے؟سیاحت کے فروغ کے لیے بنیادی ضروریات میں مواصلات کابہترنظام ،یعنی سڑکیں، ٹیلی فون اور بجلی، پانی، صحت اورحفاظت کی خدمات شامل ہیں۔

دنیا بھر میں سیاحت کا شعبہ نجی شعبے میں فروغ پاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس پر پبلک سیکٹرنے قبضہ جما رکھا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقےجنہیں خدانے ہر لحاظ سے خوب صورتی عطا کر رکھی ہے سیاحتی اعتبار سے منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خیبر پختون خوا کو قدرتی حسن اوردولت سے مالا مال کیا ہے۔ 

شمال مغربی ، شمال مشرقی پہاڑی علاقے، برف پوش چوٹیاں‘ قدرتی حسن، دل فریب مناظر،دریائوں،جھیلوں، آب شاروں، گلیشئرزاور جنگلات کا سحر سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں سیاحت کے اِتنے زیادہ مواقع موجود ہیں کہ نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکی سیاح بھی آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعداد میں یہاں آسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں بڑی تعداد میں غیر ملکی سیاح یہاں آتے بھی رہے ہیں۔ 

اب آہستہ آہستہ غیر ملکی سیاحوں نے ایک بار پھر پاکستان، بالخصوص خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقامات کا رخ کرلیا ہے۔ سیاحت کے ضمن میں پاکستان کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں وسیع میدان، سمندر ،بلندو بالا پہاڑ اور قدیم تاریخی و مذہبی مقامات بھی ہیں۔ یہ تمام اجزا سیاحوں کی کشش کا سبب ہیں۔ مگر غیر ملکیوں کو یہاں لانے کے لیے بہترین انفرااسٹرکچر کے ساتھ مثالی امن کی بھی ضرورت ہے، جو بدقسمتی سے اب تک موجود نہیں ہے۔یادرہے کہ کسی ملک میں سیر و سیاحت کےفروغ کے لیے امن کا ماحول ہونا لازمی امر ہے۔

سرسبزوشاداب اور حسین وادیوں، برف پوش پہاڑوں اور سرسبز گھنے جنگلات پر مشتمل مالا کنڈ اورہزارہ ڈویژنز اور ضم شدہ اضلاع کی قدرتی خوب صورتی اپنی مثال آپ ہے۔ وادی سوات،وادی کاغان، ناران، شوگران، نتھیاگلی، کمراٹ، وادی کوہستان، چترال، کیلاش ،ضم شدہ اضلاع اورک زئی، کرم، تیراہ، ضلع خیبر اور وزیرستان اپنی فطرتی خوب صورتی، دل کشی اور عنائی کی وجہ سے پاکستان کے حسین خطوں میں شمار ہوتے ہیں۔ قدرت نے سابق فاٹا کے قبائلی علاقوں کو مقامی اور بین الاقوامی سیاحت کی صنعت کے لیے بہت ہی دل کش و دل فریب نظاروں اور حسین مناظر سے نوازا ہے۔ 

ضم شدہ اضلاع کے علاقوں میں بلندو بالا پہاڑ آسمان کو چھوتی ہوئی پہاڑی چوٹیاں، سرسبز وادیاں، تازہ پانی کی نہریں ،آب شاریں، قدرتی طور پر بنے ہوئے تفریحی مقامات، منفرد ثقافتی اور فن تعمیر کا سیکڑوں سال پرانا ورثہ موجود ہے۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ بہت سے ہم وطنوں نے بھی اب تک ان قبائلی علاقوں کی بے مثال خوب صورتی دیکھی ہےاور نہ ہی وہ ان علاقوں کے لوگوں کے رسم وراج سے پوری طرح باخبر ہیں۔

ضلع خیبر میں ایسے پرفضا مقامات ہیں جو تاریخی ایڈونچرکے لیے زبردست جگہیں ہیں۔ خاص کر وادی تیراہ، ضلع اور کزئی میں سمانہ، کرم، شمالی و جنوبی وزیرستان میں خوب صورت نظارے ہیں جو دیکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ یہاں کے لوگ مہمان نواز ہیں۔ قدرت نے اس خطے کو حسن و دل کشی ‘ رعنائی اور زیبائی کے ان گنت رنگوں سے سجایا ہے۔ 

سردی کے موسم میں یہاں خوب برف باری ہوتی ہے۔ برف کی سفید چادر ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے۔ گرمیوں میں جب برف پگھلتی ہے تو پوری وادی دُھل جاتی ہے اور موسم خوش گوار ہو جاتا ہے۔ درختوں کو نئی زندگی ملتی ہے۔ایسے میں لاکھوں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح ضم شدہ اضلاع کے سیاحتی مقامات کا رخ کرسکتے ہیں اور یہاں کے دل کش مناظر سے محظوظ ہوسکتے ہیں۔ 

لیکن ایک دہائی سے پاکستان میں عمومی اور خیبرپختون خوا میں خصوصی طور دہشت گردی کی لہر نے اس صوبے کے حسن کو ماند کردیا ہے۔ دہشت گردی سیاحت کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ غیر ملکی سیاحوں نے دہشت گردی کے خوف اور امن وامان کی ابتر صورت حال کی وجہ سے یہاں سے منہ موڑ لیا ہے ۔ لیکن یہ دنیا کی تاریخ ہے کہ قوموں پر اچھے اوربرے وقت آتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصے سے غیرملکی سیاح ایک بار پھر خیبرپختون خوا کے سیاحتی مقامات کی طرف آنا شروع ہوگئے ہیں، لیکن امن وامان کی ابتر صورت حال انٹرنیشنل ٹورازم کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

آج اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختون خوا میں امن کے قیام کے ساتھ سیاحت بھی فروغ پارہی ہے تو قطعی طور پر غلط اور بے جانہ نہیں ہوگا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ماضی میں خیبر پختون خوا میں دیگر شعبوں کے ساتھ سیاحت کو بھی مسلسل بُری طرح نظر انداز کیا گیا۔ تاہم چند سالوں میں صوبہ خیبر پختون خوا میں سیاحت کے فروغ کے لیےعملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبے میں سیاحت کے فروغ کے لیے باقاعدہ سیاحتی پالیسی بنادی گئی ہے۔

اس پالیسی کے تحت سیاحت سےمتعلق تمام مسائل منظم طریقے سے حل کیے جائیں گے۔ ماضی میں ہنگامی بنیادوں پر پالیسیاں بنائی گئیں جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوسکے۔ مذکورہ پالیسی کے تحت تمام اسٹیک ہولڈرز سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ خیبرپختون خوا کو سیاحتی مقام بنانے اوراس کی ترقی میں حکومت کا ساتھ دیں۔ صوبہ میں ثقافتی آثار کو بحال کرنے کے ساتھ انہیں محفوظ کیا جارہاہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کو 2020-2021ءمیں سیاحت کے لیے بہترین ملک قرار دیا گیا تھا۔

صوبے کے سیاحتی مقامات کو زیادہ سے زیادہ پرکشش بنانے، غیر ملکی سیاحوں کی توجہ پاکستان کے سیاحتی مقامات کی طرف مبذول کرانے، سیاحوں کو ہر قسم کی سہولتوں اور سکیورٹی کی فراہمی کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کرنے، سیاحت کے شعبے کے لیے اربوں روپے کا بجٹ مختص کرنے، خیبر پختون خوا میں پہلی بار سیاحوں کی سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے ٹورازم پولیس کے قیام کے ضمن میں سابق حکومتوں کا کردار اہم رہا ہے۔ان اقدامات کی وجہ سے دنیا بھر کےسیاحوں کی نظریں پاکستان ،بالخصوص خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقامات کی طرف مبذول ہورہی ہیں۔ 

سیاحت کو ترقی دینےکا وژن بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں بھی مختلف ثقافت کے حامل افراد آباد ہیں۔ اسی لیے اس کے مختلف علاقوں میں اپنے قدرتی ماحول کی مناسبت سے مختلف زبانیں، ادب اور رسم و رواج وجود میں آگئے۔ اور یہی رنگارنگی یہاں کے لوگوں اور علاقے کی پہچان اور حسن بھی ہے۔ ثقافت کسی بھی قوم اور معاشرے کی پہچان ہوتی ہے اور ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے سے ہی معاشرہ اور اقوام نہ صرف ترقی کی منازل طے کرتی ہیں بلکہ اسی ثقافتی ورثے ہی سے معاشرے میں امن اور استحکام کی فضاء قائم ہونے میں مدد ملتی ہے۔

خیبر پختون خوا مذہبی سیاحت کے حوالے سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہےکہ یہاں مذہبی سیاحت کے بھی کافی مواقع اور صلاحیت موجود ہے۔ مذہبی رواداری کی ابتداء خیبر پختون خوا میں دو ہزار سال قبل ہوئی تھی۔ وادی چترال کا دل کش علاقہ، کیلاش، وہاں بسنے والے قبیلے کے لوگوں کی منفرد تہذیب وثقافت کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کی نگاہوں کا مرکز ہے۔ چترال سیاحوں کے لیے پرکشش مقامات میں سے ایک ہے۔ ان کا حسن مزید نکھارنے کی ضرورت ہے۔

اس کے لیے ہمیں چترال کے شان دار ثقافتی ورثے کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔ خیبر پختون خوا میں دو ہزار سال پہلے سات یا آٹھ مذاہب کے لوگ اکٹھے رہتے تھے جس کےتاریخی ثبوت موجود ہیں۔ اس وقت یہ علاقہ بہت پرامن تھا۔ گندھارا آرٹ کے پینل میں مختلف مذاہب کے چار یا پانچ خدا نظر آئیں گے۔ مذہبی رواداری کی یہ سب سے بڑی مثال ہے۔ مذہبی سیاحت کے فروغ سے نہ صرف ملک اور صوبے کی معیشت مضبوط ہوگی بلکہ مذہبی ہم آہنگی پیدا ہوگی اور صوبے کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آجائے گا۔ خیبرپختون خوا میں تین ہزار سے زائد بودھ مت کے مقامات سمیت 6828 آرکیالوجیکل سائٹس موجود ہیں۔

یہاں ہندو مت کے بھی بہت سے مقدس مقامات موجود ہیں لیکن ان پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ اگر ان پر بھی توجہ دی جائے تو یہاں مذہبی سیاحت کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوگا۔ بودھ مت کو ماننے والے ممالک اپنے مقدس مذہبی مقامات کی حفاظت اور تزئین و آرائش کےضمن میں اہم کردار کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کےلیے صوبے بھر میں پھیلے ہوئے مذہبی مقامات کی حالت بہتر بنانے اور انہیں محفوظ کرنےکے لیے اربوں روپے مختص کیے گئے ہیں جو ہندو ازم، بودھ ازم، سکھ ازم اور دیگر مذاہب کے مذہبی مقامات کی بحالی سمیت صوبے میں آرکیالوجیکل سائٹس کے فروغ اور تحفظ پرخرچ کیے جارہے ہیں۔

پاکستان، بالخصوص اس کا صوبہ ،خیبر پختون خوا مذہبی سیاحت کے حوالے سے ایک بہت بڑی سیاحتی صنعت ہے۔ لیکن اس کی طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مردان اور سوات کے علاقے بوددھ مت کی گندھارا تہذیب کا گڑھ ہیں، جہاں موجود مقامات دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بودھ مت کے پیرو کاروں کے لیےخاص اہمیت کے حامل ہیں۔ دنیا کا سب سے قدیم بدھا کا مجسمہ ہری پور میں موجود ہے۔

ہر سال تھائی لینڈ، سری لنکا، نیپال، جاپان، چین، ویت نام، کوریا، ملائیشیاء اور دیگر ایشیائی ممالک سے آنے والےبودھ مت کے پیروکار تخت بھائی، مردان، صوابی میں ہنڈ اورسوات میں واقع بودھ مت کے مقدس مقامات کا دورہ کرتےہیں، لیکن انہیں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالخصوص سکیورٹی اور امن وامان کی صورت حال کی وجہ سے وہ آزادانہ نہیں گھوم سکتے۔

محکمہ آثارِ قدیمہ ،خیبرپختون خوا ، کے ڈپٹی ڈائریکٹر، بخت محمد کاکہنا ہے کہ مذہبی سیاحت کے فروغ کے لیے خیبر پختون خوا میں آثار قدیمہ کی بحالی اورانہیں محفوظ بنانے کے کئی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ثقافت کے تحفظ کے لیے نئے عجائب گھر بنائے جارہے ہیں اور بہت جلد ایبٹ آباد اور ڈیرہ اسماعیل خان کے عجائب گھر سیاحوں کے لیے کھول دیے جائیں گے۔ کووڈ 19 کے بعد مذہبی سیاحت کو فروغ حاصل ہوا اور مقامی و غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

2023ء میں یکم جنوری سے نومبر 2023ء تک مجموعی طورپر دو لاکھ گیارہ ہزار 135مقامی و غیرملکی سیاحوں نے پشاور کے عجائب گھر ، تخت بھائی، سوات اور دیگر آرکیا لوجیکل سائٹس کا دورہ کیا، جن میں 8 ہزار 190غیر ملکی اور دو لاکھ دو ہزار945 مقامی سیاح شامل تھے ۔ 2022ء میں دو لاکھ91 ہزار 879مقامی اور پانچ ہزار562غیر ملکی سیاحوں نے پشاورکے عجائب گھر،تخت بھائی اور دیگر آکیالوجیکل سائٹس اور بودھ مت کے مذہبی مقامات کا دورہ کیا تھا۔

خیبرپختون خوا انٹیگریٹڈ ٹورازم ڈیولپمنٹ پراجیکٹ (کائٹ)کےپروجیکٹ ڈائریکٹر، توصیف خالد کے مطابق کائٹ نے خیبرپختون خوا میں سیاحت کے فروغ اور سیاحوں کے لیے سیاحتی مقامات کو مزید پرکشش بنانے کی غرض سے مانکیال، گھنول، ٹھنڈیانی اور مدکلاشٹ کے علاقوں میں ٹورازم زونز بنانے کے لیے ماسٹر پلان مکمل کر لیاہے۔ یہ زونز سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے موزوں ہیں۔

گلیات اور کاغان میں اہم سیاحتی مقامات پر سائن بورڈز نصب کردیے اور واش رومز کی سہولت فراہم کردی گئی ہے۔ ایوبیہ، ٹھنڈیانی، گبین جبہ، کیلاش، کمراٹ اور ناران کے سیاحتی علاقوں میں پہلی بار ایمرجنسی ریسکیو اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔ توصیف خالد کے مطابق یکم جنوری 2023 ء سے 10 دسمبر 2023ء تک ایک سال کے دوران ایک کروڑ57لاکھ 12ہزار 439 مقامی سیاح خیبرپختون خواکے سیاحتی مقامات کی سیر سے لطف اندوز ہوئے۔ چار ہزار 494 غیر ملکی سیاحوں نے بھی خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقامات کا رخ کیا۔ 2022ء میں 88 لاکھ 59 ہزار 636مقامی اور 2ہزار 947غیرملکی سیاحوں نے خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقامات کا رخ کیا تھا۔

ضم شدہ اضلاع کےلیے ٹورازم پروجیکٹ کے ڈائریکٹر، اشتیاق احمد کے مطابق ضم شدہ ا ضلاع میں سیاحت کے فروغ کےلیے مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے۔ سمانہ میں کیمپنگ پاڈز لگا دیے گئے ہیں۔ دیگر سیاحتی مقامات پر کیمپنگ پاڈز کے علاوہ ریسٹ ایریاز،واش رومز، ٹورسٹ انفارمیشن سینٹرز،پکنک اسپاٹس اور ریسکیو1122کے منصوبے زیر غور ہیں۔ لنڈی کوتل خیبر، اورکزئی، گومل زام ڈیم،جنوبی وزیرستان ،غلام خان، شمالی وزیرستان میں ریسٹ ہائوسز بن رہے ہیں۔ سمانہ ٹورسٹ ریزورٹ پر بھی کام جاری ہے۔

ضم شدہ اضلاع کے سیاحتی مقامات کی طرف سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے باجوڑ،خیبر ،وزیرستان، اور اورکزئی میں جیپ ریلیوں کے علاوہ مختلف فیسٹیولزاور ایونٹس منعقد کیے گئے ہیں۔ ضم شدہ اضلاع کے سیاحتی مقامات کو سیاحوں کے لیے مزید پرکشش بنانے کی غرض سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے اور بہت جلد ان علاقوں کو سیاحوں کے لیے ہر لحاظ سےپرکشش بنادیاجائے گا۔ واضح رہے کہ سابق فاٹا میں سیاحتی مقامات کھلنے سے نہ صرف مقامی نوجوانوں اور لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے بلکہ حکومت کو اربوں روپوں کی آمدن بھی ہوگی۔ 

علاوہ ازیں مقامی مصنوعات کی مارکیٹ، ہوٹلوں کی صنعت اور سڑکوں کے انفرااسٹرکچر کو بھی فروغ ملے گا اور ان علاقوں کی سیاحتی ترقی سے خیبرپختون خوا کے دیگر مقامات پر سیاحوں کا دباؤ بھی کم ہو جائے گا۔قبائلی علاقوں کے کھلنے سے مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کو منفرد قبائلی ثقافت اور ان کی مہمان نوازی دیکھنے کا موقع بھی ملے گا اور اس علاقے کے عوام کے بارے میں کئی دہائیوں پرانے بے بنیاد دقیانوسی تصورات کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے گا۔

کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی،خیبر پختون خوا،کے ترجمان، سعد بن اویس کا کہنا ہے کہ کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد سیاحتی مقامات کو مزید پرکشش بناکر زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو سیاحتی مقامات کی جانب راغب کرنا، انہیں وہاں پر ہر قسم کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کےلیے بھرپوراقدامات اٹھانااور سیاحت کے شعبے کو منافع بخش بناکر ا س سے اربوں روپے کے محاصل حاصل کرناہے۔ سیاحوں کی حفاظت کیلئے ٹورازم پولیس فورس بناد ی گئی ہے۔ 

خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقامات میں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے ضمن میں ماحول کے تحفظ کا بھرپور خیال رکھا گیاہے۔ غیر ملکی سیاحوں کے لیے کوئی رکاوٹ یا این او سی کی شرط نہیں۔ پندرہ سیاحتی مقامات پر کیمپنگ پاڈز بنا دیئے گئے ہیں، مزید پانچ سیاحتی مقامات پر مزید کمپینگ پاڈز بنائے جارہے ہیں۔ ان کے مطابق بعض سیاحتی مقامات پر بڑی تعداد میں لوگ جارہے ہیں، لیکن وہاں پر رہائش اور دیگر سیاحتی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ اسی لیے ان سیاحتی مقامات پر، جہاں رہائشی ودیگر سہولتیں میسر نہیں ہیں، کیمپنگ پاڈز بنائے جارہے ہیں۔

بنیادی مقصد سیاحتی مقامات کو مزید پرکشش بنا کر وہاں سیاحتی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ مقامی لوگوں کو روزگار کی فر اہمی بھی ہے ۔ سیاحت عام طور پر مئی جون میں شروع ہوتی ہے ، لیکن اس بار سیاحوں کی ایک بڑی تعداد نے موسم سرما میں ان قدرتی پر فضا مقامات کا رخ کیا۔ نئے سیاحتی مقامات کی دریافت سے جیسے جیسےسیاح یہاں آئیں گے،معیشت پر اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

سیاحوں کی بڑی تعداد کی خیبر پختون خوا، بالخصوص وادی کیلاش سمیت دیگر سیاحتی علاقوں میں آمد سے جہاں وہاں کے لوگوں کے معاشی حالات پر اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں وہاں سیاحوں کے رش اور غیر ذمہ دارانہ سیاحت کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی تہذیب وثقافت اور یہاں کے قدرتی ماحول پربرے اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں۔ سیاحت سے پیدا شدہ سب سے بڑی مشکل اور خرابی گندگی کے ڈھیر ہیں۔

اس ضمن میں سب سے بڑا مسئلہ پلاسٹک یا ایسی چیزیں ہیں جو خودگل سڑکر ختم نہیں ہوتیں۔ پلاسٹک کے تھیلے، بوتلیں اور دیگر اشیاء سیاحتی مقامات کے دریائوں اور جھیلوں میں بھی تیرتی نظر آتی ہیں۔ قدرتی ماحول کی تباہی کے ساتھ یہ آلودگی مقامی لوگوں کی صحت کے لیے بھی بہت نقصان دہ ہوسکتی ہے، کیوں کہ روز مرہ کی ضروریات کے لیے وہ یہی پانی استعمال کرتے ہیں۔ اِس حوالے سے سیاحوں کو خصوصی توجہ دینا ہوگی کہ اِن جگہوں کو گندگی سے پاک رکھا جائے۔ 

اِس کے لیے مقامی سیاحوں میں شعور اجاگر کرنا ہوگا کہ اگر انہوں نے اپنے شہروں کی طرح اِن قدرتی اور تفریحی مقامات کو بھی گندا کردیا تو پھر اُن کے پاس تفریح کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ مقامی سیاحوں کی دن بہ بدن بڑھتی ہوئی تعداد سے سیاحتی مقامات پر موجود جنگلات پر بھی برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ان علاقوں میں کھانا پکانے ، ہوٹلوں، ریسٹ ہاؤسز میں گرم پانی فراہم کرنے اور سردیوں میں کمروں کو گرم رکھنے کے لیے جنگلات سے لکڑیاں کاٹ کرلائی جاتی ہیں جس سے جنگلات اور اس میں پائی جانے والی جنگلی حیات خطرات سے دوچار ہوسکتی ہے۔

دوسری جانب موسمی تبدیلیوں کے باعث سیاحتی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں ۔اور بے موسم کی بارشیں، سیلابی صورت حال اور لینڈ سلائیڈنگ وہ عناصر ہیں جو سیاحت کے فروغ کی راہ میں حائل ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں کو ٹھیک کرنے میں مہینوں اور برسوں لگ جاتے ہیں اورجہاں سیاح اپنے تحفظ کے لحاظ سے بے یقینی کا شکار ہوں وہ ایسی جگہ کا رخ کیوں کریں گے۔ کیوں کہ ہر سیاح خوب صورت مناظر دیکھنے کے ساتھ انفرا اسٹرکچر اور اپنے تحٖفظ کو بھی مد نظر رکھتا ہے۔

پوری دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے مگر بہت سے ممالک نے ان تبدیلیوں کے باوجود سیاحت کے فروغ کے حل تلاش کر لیے ہیں لہذا پاکستان کو بھی ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جو سیاحت کے فروغ کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کرے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث قدرتی آفات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ برسوں میں سوات اور چترال میں آنے والے سیلاب اس کی واضح مثال ہیں، جنہوں نے وہاں کا انفرا اسٹرکچر تباہ کردیا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کا غیر متوقع سلسلہ سیاحت پر برے اثرات مرتب کررہاہے۔ اس لئے قدرتی ماحول اور جنگلات کا بھرپور تحفظ کیا جائے اور اس کے ساتھ مقامی روایات کا بھی بھرپور خیال رکھا جائے۔ غیر ذمہ دارانہ سیاحتی سرگرمیوں کے باعث ان علاقوں میں زمینی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے جس کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھانے اور سیاحوں میں ایکو ٹورزم کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔

سیاحت کے شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک مثالی امن قائم نہیں ہوتا، غیر ملکیوں کی بڑی تعداد پاکستان کا رخ نہیں کرسکتی۔ تاہم مستقبل میں سیاحتی شعبے میں کام کرنے سے ملک کی معیشت کو مستحکم کیا جا سکتاہے۔ہر ٹورسٹ سائٹ یا وادی کے انٹری پوائنٹ پر ٹورسٹ فیسیلی ٹیشن سینٹرز، واش رومز اور ریسٹ ایریاز ہونے چاہییں۔ سڑکوں کے کنارےسائن بورڈز ہونے چاہییں۔

جگہ جگہ کوڑے دان بھی ہونے چاہییں تاکہ کوڑا کرکٹ اسن میں پھینکا جائے۔ سیاحتی مقات پرسیکڑوں ٹریکنگ سائٹس ہیں۔ اس لیے مناسب ٹریکنگ ٹریل بننی چاہییں۔ سیاحوں کی بڑھتی تعداد کے مقابلے میں رہائشی کمرے دستیاب نہیں ہیں۔ اِس معاملے پربھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق سیاحت کے شعبے کو اب تک صنعت کا درجہنہ ملنے کی وجہ سے بینک اس شعبے کے لوگوں کو قرضہ دیتے ہیں اور نہ ہی حکومتی سطح پر سرپرستی ملتی ہے۔

انٹرنیشنل ٹورازم کی راہ میں امن و امان کی خراب صورت حال کے علاو ہ سب سے بڑی رکاوٹ غیر ملکی سیاحوں کے لیے این او سی سسٹم ہے۔پھر مختلف محکموں میں مربوط رابطوں کا فقدان ہے۔ حکومت کی طرف سے غیرملکی سیاحوں کے لیے این او سی کی شرط ختم ہونے کے باوجود حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ این او سی کے بغیر کوئی بھی غیر ملکی سیاحتی مقامات پر نہیں جاسکتا۔ جب تک غیر ملکی سیاحوں کے لیے این او سی کے حوالے سے معاملات میں نرمی نہیں کی جاتی اس وقت تک غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد پاکستان نہیں آسکتی۔

ہمارے سیاحتی مقامات پر صحت کی بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومت کی طرف سےجنگلات کاٹنے پر پابندی اور شجرکاری مہم میں خصوصی دل چسپی کی وجہ سے سیاحتی مقامات پرموجود جنگلات، جو ماضی میں بے دریغ کاٹے جارہےتھے، اب کسی حد تک محفوظ ہیں۔ جنگلات کی کٹائی پر پابندی سے شمالی علاقوں کی خوب صورتی مزید بڑھ گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق خیبر پختون خوا میں بہترین سیاحتی مقامات ہیں، لیکن مرکزی شاہ راہوں کے علاوہ لنکس روڈز اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ناگزیر ہے۔ وادی سوات،چترال، وادی کیلا ش ، کمراٹ، ٹھنڈیانی، گلیات، کاغان ناران،ضم شدہ اضلاع تیراہ خیبر، کرم، اورکزئی اور شمالی و جنوبی وزیرستان میں سیاحت کے فروغ کے لیےٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

ہمیں سیاحت کے فروغ کے ضمن میں مختلف چیلنجز درپیش ہیں، جن میں سرفہرست امن وامان کی صورت حال ،خستہ حال انفرااسٹر کچر،مارکیٹنگ، حکمت علی اورتربیت یافتہ افراد کی کمی ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں بہترین حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔ سیاحوں کے لیے ماحول سازگار بنانا ہوگا تب ہی سیاحت کا شعبہ ترقی کرےگا۔

سیاحت کو صنعت کا درجہ اور اسے فروغ دے کر حکومت غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کے علاوہ اسے روزگار کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ بھی بنا سکتی ہے۔ اس سے غربت،بدحالی اور بے روزگاری کا خاتمہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ تبدیلی بھی لائی جاسکتی ہے اور ایک سرسبز، خوش حال اور ترقی یافتہ پاکستان بھی بنایا جاسکتا ہے۔