یہ واقعہ یقیناً تاریخی اہمیّت کا حامل ہے کہ ایک ایسا شخص پاکستان کا دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوا ہے۔ جس کے مخالفین نے اسے چور، ڈاکو اور مسٹر 10پرسنٹ جیسے القابات سے نوازا ۔اس پر طرح طرح کے ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے۔ اسے سیکورٹی رسک قرار دے کر تقریباََ 14سال تک بلا جواز قید میں رکھّا گیا۔ لیکن اس کے خلاف ایک بھی الزام ثابت نہ کیا جا سکا۔ ستم ظریفی کی حد تو یہ ہے کہ اسے پہلے اپنی شریکِ حیات محترمہ بے نظیر بھٹو سے الگ کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے گئے لیکن ناکامی کے بعد جب محترمہ بے نظیر بھٹوکو شہید کردیا گیا تواسے قتل کی اس سازش میں ملّوث کرنے کے لیے ایک گھنائونی مہم شروع کی گئی اور اس کا جواز وہ گھٹیا مفروضہ بنا یا گیا کہ چونکہ محترمہ کی شہادت کا فائدہ اسے صدارت کے منصب پر فائز ہونے کی شکل میں ملا لہٰذا وہ اس بہیمانہ قتل میں ملّوث ہے۔
یہ جواز تو ہر صاحبِ حیثیت شخص کے قتل کے موقع پر اس کے بچوں اور دیگر اہلِ خانہ پر بھی لگایا جا سکتا ہے جو اس کی دولت کے وارث ہوتے ہیں۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ وہ ادارے اور افراد جنہوں نے اسے چودہ سال تک بغیر کسی جرم کے قید میں رکھّا ۔ وہ اسے اس قتل میں ملّوث ہونے پر کیسے معاف کر سکتے تھے صرف یہی نہیں ایسی صورت میں ان کے بچّے بھی کیا اپنے باپ کے ساتھ رہ سکتے تھے۔ ان بے رحم لوگوں نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی اور سوگوار خاندان کے زخموں پر ہر طرح سے نمک پاشی کی۔ راقم نے جب ایک مرتبہ اُن سے کہا کہ وہ اپنے خلاف لگائے جانے والے ان گھٹیا الزامات کا جواب کیوں نہیں دیتے تو انہوں نے کہا کہ میرے خلاف ہر الزام کا جواب وقت دے گا اور یقیناََ وقت نے یہ جواب دے دیا ۔
جب محترمہ کی شہادت کے بعد پورا سندھ جل رہا تھا اور ’’ پاکستان نا کھپّے ‘‘ یعنی ’’ پاکستان نا منظور ‘‘ کے نعرے ہر طرف گونج رہے تھے تو یہ وہی شخص تھا جس نے اپنے ذاتی دکھ کو ایک طرف رکھ کر ’’ پاکستان کھپّے ‘‘ یعنی ’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا ۔ جناب آصف علی زرداری کا یہ جواب اس الزام کے بارے میں تھا کہ آصف علی زرداری سیکورٹی رسک ہے۔ اس نے نہ تو کسی ادارے پر حملہ کیا ، نہ کسی عالمی ادارے کو پاکستان کی مدد بند کرنے کو کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ اگر ہم نہیں تو کچھ بھی نہیں اور بھاڑ میں جائے یہ ملک ۔ حالانکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل اس خاندان کا چوتھا قتل تھا اس کے بعد جب آصف زرداری صدر منتخب ہوگئے تو انہوں نے 18ویں ترمیم کے ذریعے اپنے تمام تر اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کر دئیے ۔
یہ اس الزام کا جواب تھا کہ آصف علی زرداری ایک منتقم مزاج اور فاشسٹ شخص ہے جو مخالفین کی ٹانگوں کے ساتھ بم باندھ کر انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دیتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف اس نے اپنے آمرانہ اختیار تج دئیے بلکہ اس کے دورِ حکومت میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ اس نے اپنے بدترین سیاسی مخالفوں مسلم لیگ ن، جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف کو نہ صرف عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کرنے کی کوششیں کیں جو 2008کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کئے ہوئے تھیں بلکہ انتخابات کے بعد مسلم لیگ کو حکومت میں شامل کرکے مفاہمت کی ایسی مثال قائم کی جس کی پاکستانی سیاست میں نظیر نہیں ملتی ۔
حالانکہ کوئی اور ہوتا تو وہ بلا شرکت غیر ے تین چوتھائی سے بھی زیادہ اکثریت کے اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔ اس پر میڈیا میں شدید تنقید کی جاتی رہی۔ لیکن اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ رہی۔ اس نے نہ تو میڈیا پر پاپندیاں لگائیں نہ معروف صحافیوں کو بے روزگار کیا، نہ اخبار کے مالکوں کو اپنے گھٹیا انتقام کا نشانہ بنانےکیلئے انہیں مہینوں پابندِ سلاسل کیا اور نہ ہی اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر اپنے سیاسی مخالفین سے بدلہ لینے کا اعلان کیا۔ صرف یہی نہیں اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے بعد جب 13ء کے عام انتخابات میں اس کی پارٹی کو شکست ہوگئی تو اپنے تحفظات کے ساتھ نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ اگلی حکومت کو اقتدار کی پر امن منتقلی کو یقینی بھی بنایا یوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نہ صرف منتخب اسمبلی نے اپنی مدّت پوری کی بلکہ پہلی مرتبہ اقتدار کی پُر امن منتقلی کی روایت بھی اسی شخص نے ڈالی جس کے خلاف کردار کشی کی بھیانک مہم ہمیشہ چلائی گئی۔
اس نے عمران خان کی طرح اپنے خلاف لائی جانے والی آئینی تحریک ِ عدم ِ اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے نہ صرف غیر آئینی اقدام کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا اور نہ ہی اس غیر آئینی قدم کو کامیاب بنانےکیلئے جھوٹے الزامات اور جواز پیدا کیے ۔ چنانچہ اس نے حکومت اور اپوزیشن دونوں حیثیتوں میں خود کو ایک مدبّر اور مفاہمت کا رویہّ رکھنے والا جمہوری لیڈر ثابت کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے سابق مخالفین نے بھی اس کے اس مفاہمانہ رویے کو تسلیم کرتے ہوئے اسے دوبارہ صدرِ پاکستان منتخب کرکے اس پر لگے تمام الزامات کا جواب دے دیا ہے۔
موجودہ حالات میں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تحریکِ انصاف ، تما م تر تحفظّات کے باوجود پاکستان کی ایک بڑی سیاسی قوت ہے ۔ جو اپنے غیر سیاسی رویوّں کی وجہ سے قومی دھارے سے الگ ہوتی جا رہی ہے پوری قوم صدرآصف علی زرداری سے توقع رکھتی ہے کہ وہ تقسیم کی اس سیاست کو ختم کرکے تحریک ِ انصاف کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کریں گے جس سے قومی یک جہتی اور سیاسی استحکام حاصل ہوگا۔ کیونکہ صدر زرداری پہلے بھی ایسا کر چکے ہیں اور اب بھی ایسا کرنے کی صلاحیّت رکھتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)