• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان نے اپنے قیام کے وقت سے ہی سوشلسٹ بلاک کو نظر انداز کرکے اپنے مفادات امریکہ کے ساتھ وابستہ کرلئے تھے مگر تاریخی حقیقت یہ ہے کہ عوامی سطح پر اس کے ساتھ اعتماد کا وہ رشتہ قائم نہیں ہوسکا جو اس کے اس غیرمعمولی فیصلے کا تقاضا تھا کیونکہ ہر آڑے وقت میں امریکی انتظامیہ اپنے ہی فائدے اور مصلحتوں کی اسیر رہی اور پاکستان اپنی امیدوں کو حسرت اور مایوسی کے ساتھ بکھرتے ہوئے دیکھتا رہا۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا رویہ بھی اسی تاریخی سرد مہری اور بے یقینی کا تسلسل ہے۔ تاہم 8 فروری کے انتخابات کے بعد پاکستان میں نئی منتخب حکومت بر سر اقتدار آئی اور میاں شہباز شریف وزیراعظم بنے تو تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد صدر جوبائیڈن کی جانب سے ان کے نام جو خط آیا اس میں اگرچہ نئے وزیراعظم کو مبارکباد نہیں دی گئی مگر اس کے مندرجات یقیناً حوصلہ افزا تھے جن کا خیرمقدم کیا گیا۔ صدر بائیڈن نے اپنے خط میں یقین دلایا کہ امریکہ عالمی اور علاقائی سلامتی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی جتا دیا کہ امریکہ صحت، معیشت، تعلیم اور سیکورٹی کے معاملات میں پاکستان کی مدد کررہا ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات میں پیش رفت کے لئے تیار ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جواب میں امریکی صدر کو بھی خط لکھا ہےجس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کو کلیدی حیثیت دیتا ہے اور عالمی امن و سلامتی اور خطے کی ترقی و خوشحالی کے لئے مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک توانائی، موسمیاتی تبدیلی، زراعت، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون کے لئے اہم اقدامات کررہے ہیں جو خوش آئندہیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ عالمی امن و سلامتی اور خطے کی ترقی و خوشحالی کے مشترکہ اہداف کے حصول کے لئے کام کرنے کا خواہش مند ہے۔ انہوں نے خاص طور پر دونوں ملکوں میں توانائی کے شعبے اور گرین الائنس میں تعاون کو خوش آئند قرار دیا۔ وزیراعظم نے امریکی صدر کے نام جوابی خط میں جن توقعات کا اظہار کیا ہے ان پر جانبین کی طرف سے نیک نیتی سے عمل کیا جائے تو دونوں ملکوں کے مفاد میں اس سے بہتر کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی۔ لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں امریکہ سے زیادہ توقعات رکھنا شاید مناسب نہ ہوگا۔ پاکستان کو اس ضمن میں محتاط رہنا چاہیے۔ افغانستان کی جنگ میں الجھا کر اس نے پاکستان کو جو نقصان پہنچایا وہ سب کے سامنے ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے اس وقت افغان سرزمین سے جو مسلسل دہشت گردانہ حملے ہورہے ہیں ان کے حوالے سے امریکی دفتر خارجہ نے ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ امریکہ افغانستان کو دوبارہ دہشت گردی کا اڈہ نہیں بننے دے گا۔ اگر اس سے امریکہ کا مقصد ایک بار پھر پاکستان کو ہی استعمال کرنا ہے تو ہمیں سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھانا ہوگا۔ عرب ممالک بھی پاکستان کی طرح امریکہ کے دوست ہیں مگر وہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی نہیں رکوا سکے۔ امریکہ فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے اسرائیل کو دھڑا دھڑ ہر طرح کے جنگی ہتھیار اور دوسری امداد فراہم کررہا ہے اور ساتھ ہی عرب ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے۔ صدر جوبائیڈن اس سلسلے میں مصر، سعودی عرب، اردن اور قطر سمیت تمام عرب ممالک پر کام کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں، امریکہ کی نیت ٹھیک ہو تو وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور بھارت کو جنوبی ایشیا کی سپر پاور بنانے کی تگ و دو کی بجائے کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لئے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے جو عالمی امن کا اصل تقاضا ہے۔

تازہ ترین