تحریک پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کی سیاست میں وکلا نے ہمیشہ فعال کردار ادا کیا ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بذات خود ایک وکیل تھے اور بعد میں بھی پاکستان کی صف اول کی سیاست میں ہمیشہ وکلا ہی نمایاں رہے۔پاکستان میں بعض ایسے وکلا بھی موجود رہے جنہوں نے عالمی سطح پر اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب بھی ملک کے آئین کو سبوتاژ کیا گیا اس وقت وکلا برادری کے ہی کچھ لوگ مختلف آمروں کے آلہ کار بنے اور انہوں نے ان کیلئے سہولت کاری کی۔ ان تلخ و شیریں حقائق کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ وکلاپاکستان کی سول سوسائٹی کا ایک روشن چہرہ ہیں،غریب آدمی کی آس ہیں، لوگ امید لے کر ان کے پاس جاتے ہیں، وکلا ہی ان کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں اور فراہمی انصاف کیلئے اپنے تئیں کوشش کرتے ہیں۔ سائل کو انصاف ملتا ہے یا نہیں یہ عدالتی نظام کی ابتری کی ایک الگ داستان ہے آج یہ میرا موضوع بحث نہیں۔سابق وزیراعظم عمران خان اس وقت پاکستان کی مقبول ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں وہ پابند سلاسل ہونے کے باوجود کروڑوں لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے لیکن جہاں تک ان کے مقدمات کا معاملہ ہے ان کے غلط اور صحیح ہونے کی بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر ہم عدالتوں میں ان مقدمات کے چلانے کا انداز دیکھیں تو ایک انجانا خوف ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ ابھی تک ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کے ذہنی دباؤ سے باہر نہیں نکلی۔واقفان حال کہتے ہیں کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کو خالصتا پروفیشنل اور قانونی انداز میں چلایا جاتا تو شاید آج تاریخ مختلف ہوتی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار کبھی عدالت کا بائیکاٹ کرتے رہے تو کبھی عدالت میں قانونی نکات پر بحث کرنے کے بجائے لمبی سیاسی تقریریں کرتے رہے۔اگرچہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ،بھٹو کو سزا دینے پر تلی ہوئی تھی لیکن اگر اس مقدمے کو خالصتا قانونی انداز میں لڑا جاتا تو شاید اس کا نتیجہ مختلف ہوتا۔سیاسی مقدمے کے مثبت فیصلہ کی نظیر دیکھنی ہو تو میاں نواز شریف کے مقدمے کی مثال دینا مناسب ہوگا کہ جب اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے انہیں معزول کیا تو انہوں نے اپنے مقدمہ کے لیےخالد انور جیسے دھیمے مزاج کے وکیل کا انتخاب کیا جو اس مقدمے کی سماعت کے دوران نہ تو میڈیا سے گفتگو کرتے اور نہ ہی ٹی وی ٹاک شو میں جا کر بحث مباحثے کا حصہ بنتے بلکہ انہوں نے انتہائی دھیمے انداز میں میاں نواز شریف کا مقدمہ لڑا اور پھر ان کی حکومت بحال کرانے میں کامیاب ہوئے۔ان دونوں مثالوں کی موجودگی میں اگر ہم عمران خان کے مقدمات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں صورتحال انتہائی افسوسناک دکھائی دیتی ہے۔نو مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کی صف اول کی قیادت کے پابند سلاسل ہونے کے باعث،اس وقت جماعت کی قیادت عملا وکلا کے پاس ہے۔بیرسٹر گوہر، جناب لطیف کھوسہ،جناب شیر افضل مروت، جناب حامد خان، شعیب شاہین،بیرسٹر علی ظفر اور ان جیسے بہت سے سینئر وکلا اس وقت ایک طرف تو تحریک انصاف کی قیادت کر رہے ہیں اور دوسری طرف عمران خان کے مقدمات کی پیروی کر رہے ہیں۔لیکن ان مقدمات کی پیروی کے دوران جو طرز عمل اختیار کیا جا رہا ہے اسی کو دیکھتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے عمران خان سے براہ راست مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کے وکلاآپ کے ساتھ مخلص نہیں۔دلائل دینے کی باری آتی ہے تو کبھی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے تو کبھی ان کے پاس دلائل ہی موجود نہیں ہوتے۔ٹی وی ٹاک شوز میں بلا ضرورت لمبی بحث تو کر لیتے ہیں لیکن کمرہ عدالت میں انکی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔حامد خان اور بیرسٹر سلمان اکرم راجہ کے علاوہ شاید ہی کوئی وکیل ایسا ہو جو پوری تیاری کے ساتھ عمران خان اور بشری بی بی کے مقدمات دیکھ رہا ہو۔بظاہر یوں لگتا ہے جیسے ہر شخص اپنے اپنے ایجنڈے پر ہے اور اپنے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اقدامات اٹھا رہا ہے۔تحریک انصاف کی لیگل ٹیم کی عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ نو مئی کے واقعات کے بعد جیلوں میں پابند سلاسل سینکڑوں کارکنان کے مقدمات کی پیروی نہ ہونے کے برابر ہے اور تمام کارکن اپنے اپنے ذاتی وسائل کے ساتھ مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ گجرانوالہ میں نو مئی کے واقعات میں ملوث کارکنان کو بھاری جرمانے اور قید کی سزائیں سنا دی گئیں،شاہ محمود قریشی پابند سلاسل ہیں۔ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی بزرگ خاتون اتنے طویل عرصہ سے جیل میں بند ہیں، چوہدری پرویز الٰہی جیسے بزرگ سیاستدان کی پیروی کیلئے تحریک انصاف کے وکلا شاید ہی کبھی نظر آئے ہوں، یہاں تک کہ جیل میں ان کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں لیکن میڈیکل گراؤنڈ پر بھی ان کی درخواست ضمانت نہ تو دائر کی گئی ہے اور نہ ہی ان کے مقدمے کو تحریک انصاف کی لیگل ٹیم نے سنجیدہ لیا ہے۔ایک سنگین مجرمانہ غفلت کا مسلسل ارتکاب ہو رہا ہے۔عمران خان جیسے مقبول لیڈر کے مقدمات میں عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ سیشن عدالتوں کی سطح کے جونیئر وکلا ان مقدمات پر تجربات کر رہے ہیں۔عمران خان کی بدولت پارلیمنٹ کی کرسیوں پر براجمان ہونے والے ہوں یا گمنامی کے اندھیروں سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے وکلا،سب اپنے اپنے مقاصد تو حاصل کر چکے ہیں لیکن جس کے نام پر انہوں نے یہ نشستیں اور شہرت حاصل کی ہے وہ کس حال میں ہے اس کا کسی کو ادراک نہیں۔