• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب وہی کیا کریں جوہم چاہیں۔ آئین وقانون بھی وہی جو ہمارے حق میں ہو ورنہ ہم نہیں مانتے۔ سہولیات بھی وہی جو ہم چاہیں۔ مختصر یہ کہ ہماری ہر بات اور ہر مطالبہ بالکل جائز سمجھا جائے ورنہ ہم نہیں مانیں گے ہم شور مچائیں گے۔ کاروبار مملکت کو نہیں چلنے دیں گے ۔ بیرونی ممالک میں بھی کوششیں کریں گے کہ پاکستان کو نہ کوئی امداد ملے نہ قرضہ ملے ۔ اگر یہ سب آپ نہیں چاہتے توآئین وقانون کو ہماری عینک سے دیکھیں۔ہم اتنے دھڑلے سے اپنی ہربات کیوں اور کیسے منواتے ہیں یہ آپ بھی دیکھ چکے اور ہم بھی یہ طریقے آزما چکے اور کامیابی ہمیں ہی ملی آپ کو ہماری ہر بات ماننی پڑی۔مثال کے طور پر9مئی کے واقعات میں آپ نے ہمارے جتنے لوگوں کو گرفتار کیا (کارکنان نہیں) رہنمائوں کو قید کیا یا وہ روپوش ہوئے حتیٰ کہ بعض اشتہاری بھی قرار پائے آپ نے دیکھا کہ ان سب کو ضمانتیں ملیں اب وہ سب آزاد پھرتے ہیں نہ صرف ضمانتیں ملیں بلکہ وہ روپوشی اور اشتہاری ہونے کے باوجود الیکشن میں حصہ لینے کے اہل قرار پائے بعض نے جیل سے بھی الیکشن میں حصہ لیا اور ان تمام میں اکثر الیکشن بھی جیت گئے۔ ایم این اے،ایم پی اے بھی بنے ۔ اس کو بھی چھوڑیں ہمارے بانی قائد پر کتنے مقدمے بنے ان میں اکثر مقدمات میں وہ بری ہوئے کچھ میں ضمانتیں ہوئیں اور جو مقدمات چل رہے ہیں ان کا انجام بھی یہی ہوگا ۔جن مقدمات میں ان کو قید بامشقت کی سزائیں ہوئی ہیں تو بتائیں کہ وہ جیل میں کونسی مشقت کرتے ہیں بلکہ ان کو وہ تمام سہولیات اور من پسند کھانے وغیرہ سب میسر ہیں۔سابق وزرا وزیر اعظم اور سیاسی رہنما ان ہی جیلوں میں قید رہے ہیں وہ تو ایسی سہولیات کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ہم کارکنان قیدیوں کی بات نہیں کرتے کیونکہ اب وہ ہمارے کارکن نہیں رہے تو پھر کیسے کوئی اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ ہم جوبھی چاہیں وہ نہیں ہوسکتا اور ہماری بات کو کیسے نہیں مانا جاسکتا ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ جتنے مرضی مقدمات ہوں ہمارا بانی قائد جلد باہر آجائے گا اور تم سب خود ہی اس کے لئے جواز بھی پیش کرتے رہو گے۔ ہمارا یہ کامیاب تجربہ ہے کہ ہم ہر بات زور زبردستی یعنی ہر طریقہ اختیار کرکے منوا سکتے ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ معزز جج صاحبان نے چیف جسٹس پاکستان کو جوخط لکھا اس پر چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ کے تمام معزز جج صاحبان سے مشاورت کی اور متفقہ رائے کےتحت وزیر اعظم شہباز شریف سے مشاورت کی۔ وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب تصدیق حسین جیلانی کی سربراہی میں انکوائری کمیشن بنادی۔ کمیشن کو مکمل آزادی اور اختیارات دئیے گئے ہیں تاکہ وہ مذکورہ خط میں لگائے گئے الزامات یا تحفظات کی حقیقت سامنے لاسکیں اور سچ کی بنیاد پر ذمہ دار یا ذمہ داران کا تعین ہوسکے۔ کمیشن ذمہ دار یا ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کرنے کا بھی مجاز ہے۔ کمیشن کو اختیار بھی دیاگیا ہے کہ اس دوران اگر کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو وہ اس بارے میں بھی انکوائری کرکے رپورٹ کا حصہ بنائے۔ اب دوسری طرف پی ٹی آئی نے اس کمیشن کو مسترد کردیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ انکوائری کمیشن حاضر سروس جج کی سربراہی میں بنائی جائے۔ اگر ایسا بھی کیا جاتا ہے تو پی ٹی آئی دیکھے گی کہ حاضر سروس جج صاحب کون ہیں۔ اگر ان کی مرضی کے جج صاحب نہ ہوئے تو یقینی طور پر وہ اس کمیشن کو بھی نہیں مانے گی۔ ہم نے الیکشن سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ الیکشن کا پر زور مطالبہ کرنیوالوں کے مطالبہ کو تسلیم بھی کیا جائے تو وہ نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے بلکہ وہ الیکشن کے بعددھاندلی کے الزامات لگاکر نہ صرف بیرون ملک پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم چلائیں گے بلکہ ملک کے اندر بھی احتجاج کرتے ہوئے عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کریں گے اور آج وہی کچھ ہورہا ہے۔ کیونکہ اس جماعت کا خیال ہے کہ صرف کے پی کے میں ہی شفاف انتخابات ہوئے اگر باقی صوبوں میں بھی اسی طرح انتخابات ہوتے تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کسی اور جماعت کاکوئی نمائندہ ہی نظر نہ آتا اور ہر طرف ’’ گلیاں ہوجان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے‘‘ والا منظر ہوتا۔ لیکن دھاندلی کرکے ایسا نہیں ہونے دیا گیا ۔ اب پی ٹی آئی جو حال میں سنی اتحاد کونسل ہے، تین ایشوز پر’’ مزاحمتی‘‘ احتجاج کا اعلان کرچکی ہے۔ بانی قائد کی رہائی، الیکشن دھاندلی اور چھ جج صاحبان کے مذکورہ خط پر مرضی کے حاضر سروس جج صاحب کی سربراہی میں کمیشن۔پہلے ان کے مزاحمتی احتجاج دومذکورہ بالا نکات پرہونا تھا لیکن اب ان میں تیسرا نکتہ حاضر سروس جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن کا مطالبہ بھی شامل ہوگیا ہے۔ واضح رہے کہ ان کی احتجاجی تحریک میں ملک میں دہشت گردی اور مہنگائی کے ’’ غیر ضروری‘‘ نکات شامل نہیں ہیں۔

پاکستان بار کونسل نے بعض لوگوں کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان کے استعفے کے مطالبہ کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اس غیر منطقی مطالبے کی شدید مذمت کی ہے اور سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیشن کا خیر مقدم کیا ہے۔ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ایبٹ آباد، ہائی کورٹ بار پشاور، ہائی کورٹ بار بہاولپور نے ایک ’’ سیاسی‘‘ جماعت کی طرف سے چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے استعفوں کے مطالبے کو غیر آئینی اور بلا جواز قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ اور جسٹس (ر) تصدیق حسین جیلانی کی بطور سربراہ کمیشن تقرری کونیک شگون قرار دیا ہے۔ مذکورہ بار ایسوسی ایشنز نے کہا ہے کہ وکلا برادری چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے۔ پنجاب بار کونسل کا خیال ہے کہ عدلیہ پر دبائو اور عدلیہ کے معاملات میں مداخلت ناقابل قبول ہے اور تمام ادارے اپنی حدود میں رہیں۔مزاحمت و احتجاج حالات کو کس طرف لے جاتے ہیں جلد سامنے آجائے گالیکن یہ طے ہے کہ اب جو ہم چاہیں والا فارمولا نہیں چلے گا۔

تازہ ترین