• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رواں ماہ سٹینڈ بائی معاہدے کی ایک ارب 10کروڑ ڈالر کی تیسری اور آخری قسط کےحصول کے لیے آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ کے بعد پاکستان ہفتے کہہ چکے ہیں پاکستان عالمی مالیاتی فنڈ سے بڑا اور طویل پروگرام لینے کا خواہشمند ہے۔ پچھلے کچھ آئی ایم ایف پروگرام پیچیدہ اور عوام کے لیے مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ اس طرح منفرد تھے کہ پوری قوم، میڈیا اورعوام اُن میں پوری طرح دلچسپی لیتے تھے کہ اس پروگرام کی شرائط کیا ہوں گی، کیا ہم یہ پروگرام حاصل کر پائیں گے، اگر حاصل کر لیا تو کیا اسے مکمل کر پائیں گے یا نہیں؟ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پاکستان نے 23 میں سے محض دو آئی ایم ایف پروگرام پورے کیے ہیں، ایک 2016ء میں اور دوسرا اب سٹینڈ بائی پروگرام کی صورت میں پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ 2008ء تک لیے جانے والے آئی ایم ایف پروگرام تک عوام اور میڈیا کے اِن پروگراموں میں اس قدر دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ عوام بس سنتے تھے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام آیا ہے اور پاکستان کو اتنے ڈالر مل گئے ہیں۔ نہ تو ان پروگرامز کی شرائط پیچیدہ ہونے پر بات ہوتی تھی اور نہ میڈیا میں اس حوالے سے سنسنی خیز خبریں پھیلائی جاتی تھیں۔ لیکن پچھلے دو آئی ایم ایف پروگرامز ملک بالخصوص عوام کے لیے بہت سخت رہے ۔آئی ایم ایف کو Lender of Last Resort اس لیے کہتے ہیں کہ جب کوئی ملک دیوالیہ ہو جائے یا دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہو اور کوئی دوسرا ملک اُسے قرض دینے کے لیے تیار نہ ہو تو یہ آئی ایم ایف ہی ہے جو اُسے بیل آئوٹ پیکیج دیتا ہے۔ لیکن یہ بیل آئوٹ پیکیج دینے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اُن معاشی اصلاحات کا مطالبہ بھی کرتا ہے جو اُس کے نزدیک قرض لینے والے ملک کی معیشت کو فوری مستحکم کرنے کے لیے ناگزیر ہوتی ہیں۔ وہ عوامل جو کسی ملک کی معیشت کے استحکام کی جانب گامزن ہونے کی راہ میں حائل ہوں، آئی ایم ایف پروگرام اُن سے نمٹنے کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن یہ پروگریم ملک کی ترقی یا پھر لانگ ٹرم پلانینگ کے لیے نہیں ہوتا۔

پرانے پروگراموں میں ہم مختلف مدات میں ٹیکس اکٹھا کرکے یا کہیں نہ کہیں سے پیسہ بچا کر یا نکال کر جیسے تیسے آئی ایم ایف کے چند ایک اہداف حاصل کر لیتے تھے اور جیو پالیٹیکس کی وجہ سے کہیں رعایت بھی لے لیتے تھے۔ لیکن کبھی ناگزیر معاشی اصلاحات کو ترجیح نہیں بنایا۔ خسارے میں چلنے والی ریاستی کاروباری کمپنیوں کا عرصہ دراز سے کوئی حل نہیں نکالا گیا۔ غیرضروری سبسڈیز تسلسل کے ساتھ دی جاتی رہیں۔ ٹیکس کا بوجھ بھی صرف تنخواہ دار طبقے پر ڈالا جاتا رہا ہے اور زراعت، ریٹیلز، ٹریڈرز اور ان جیسے دیگر کئی شعبہ جات پر ان کے کاروباری حجم کے مطابق ٹیکس عائد نہیں کیا گیا اور اُن طبقات کو بھی ٹیکس نیٹ میں نہیں لائے جن کی ماہانہ آمدنی لاکھوں، کروڑوں میں ہے، جو عالی شان گھروں اور لگژری گاڑیوں کے مالک ہیں۔ اب ہم اُس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ان اصلاحات کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ اسی لیے اب پی آئی اے جیسے خسارے میں چلنے والے ریاستی ادارے کی نجکاری آخری مراحل میں ہے، گیس اور بجلی پر سے سبسڈیز ختم کی جا رہی ہیں اور دیگر لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔

یہ سب اقدام مگر معیشت کو وقتی سہارا دے سکتے ہیں، اب بھی اُن معاشی اصلاحات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی جو ملکی معیشت کو استحکام سے آگے ترقی اور مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ ایک مثال بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے خسارے کا بوجھ مہنگی بجلی کی صورت میں غریب عوام پر ڈالنےکی ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران گیس اور بجلی کی قیمت میں اضافے کے بعد بھی وزراتِ توانائی نے اگلے مالی سال کے لیے 1200ارب روپے کی سبسڈی مانگ لی ہے جو توقع سے 26فیصد زیادہ ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبے کے مطابق ٹیرف میں اضافے کے بعد بھی مسئلہ ختم نہیں ہوتا کیونکہ لائن لاسز یا چوری یا نااہلی یا بدعنوانی کو روکنے کے لیے کوئی ساختی تبدیلیاں نہیں کی جاتیں۔

آئی ایم ایف صرف مالی معاملات کو دیکھتا ہے، بہت سے دیگر فنی معاملات کا اس سے تعلق نہیں ۔ نہ تو بجلی چوری روک سکی ہے اور نہ ابھی تک لائن لاسز کا کوئی حل نکالا جا سکا ہے۔ پاکستان میں لائن لاسز کی شرح علاقائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے یعنی وہ بجلی ہے جو پیدا تو ہوتی ہے مگرعوام تک نہیں پہنچتی لیکن عوام سے اس کی قیمت برابر وصول کی جا رہی ہے۔ گیس کی کمی کے پیشِ نظر عوام کو کم بجلی سے چلنے والے چولہوں پر منتقل کیا جا سکتا ہے تاکہ گیس کی قلت سے پیدا ہونے والے مسائل بھی حل ہو سکیں لیکن اس طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ یہ چند ایک مثالیں ہیں۔

آئی ایم ایف کی بتائی گئی اور اس سے بڑھ کے معاشی اصلاحات کیے بغیر صرف قرض لیتے رہنے سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ صرف بیل آئوٹ پیکیجز سے ملکی معیشت کی سمت درست نہیں کی جا سکتی۔ اسی خطے میں بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف سے ہم سے نصف بیل آئوٹ پیکیج حاصل کیے لیکن آج اُس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ہم سے زیادہ ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض کو اپنی معاشی سمت درست کرنے پر صرف کیا جبکہ ہماری حکومتوں نے صرف وقت گزارا۔لہٰذا ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آئی ایم ایف ہم سے جن معاشی اصلاحات کا تقاضا کر رہا ہے وہ معاشی سمت کی درستی کے لیے ناگزیر ہیں لیکن مستقل معاشی استحکام کے لیے ناکافی ہیں۔ ملکی معیشت کو مستحکم بنیادیں فراہم کرنا آئی ایم ایف کی نہیں ہماری ذمہ داری ہے۔ حکومت کو ملک کو قرضوں کے بجائے ایک پیداواری معیشت بنانا چاہیے جس کے لیے ایک دیرپا اور مربوط معاشی پالیسی ناگزیر ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم تو آئی ایم ایف کے ڈنڈے کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھاتے، ایک مربوط معاشی پالیسی کیسے بنا پائیں گے؟ ملک کی ابتر معاشی صورتحال کی وجہ سے اب نوجوان مایوس ہو کر ملک چھوڑ رہے ہیں اور اس کے لیے وہ ہر غلط حربہ اور راستہ بھی اختیار کر رہے ہیں۔ حکومت کو سنجیدگی سے سوچنے اور یہ ارادہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اب آئی ایم ایف کے بعد آئی ایم ایف والا کھیل مزید نہیں چل سکتا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین