• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ڈیڑھ دو سال میں پولیس نے بے دردی سے عام شہریوں پر تشدد کیا، کئی لوگوں کے گھر مسمار کیے، کاروبار تباہ کیے، کہیں عورتوں اور بچوں کو اٹھا لیا گیا، کہیں نوجوانوں کو اٹھا کر غائب کر دیا گیا، معاشرے میں خوف پھیلایا گیا، ظلم و ستم کی یہ کہانیاں سیاست کے نام پر رقم ہوئیں، کیا سیاسی وابستگی اتنی بری چیز ہے کہ کسی کا گھر بار توڑ کر رکھ دیا جائے، مقدمات کی بھرمار کر دی جائے، اسی آڑ میں پولیس نے کئی’’چن‘‘ چڑھائے۔

خیر! یہ سب کچھ لوگوں نے دلوں پر پتھر رکھ کر برداشت کیا، ووٹ کا وقت آیا تو انہوں نے خوب غصہ نکالا، 8 فروری کو ووٹ جیت گیا مگر 9 فروری کو لوگوں کی رائے روند کر رکھ دی گئی، جو کہیں ترتیب پایا تھا وہ سب کچھ ہو گیا، حکومتیں بن گئیں لیکن غریب کی آس کا دیا نہ جل سکا، غریب گھروں کے آنگنوں میں زندگی مہنگائی کےمنہ سے نکل کر موت کا پیغام دیتی ہے، حالات بہت ابتر ہو چکے ہیں، لاوا کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے، جن کو ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی، انہیں سمجھانے کیلئے معاشرے کا ’’چہرہ‘‘ پیش کر رہا ہوں، آپ کو کچھ جرائم بتا رہا ہوں، شاید آپ کو صورتحال کا اندازہ ہو سکے۔

لاہور پنجاب کا دارالحکومت ہے، یہاں کی’’چھاپہ مار‘‘ پولیس بڑی مشہور ہے، لاہور میں صرف ایک دن کے اندر 375 وارداتیں ہوئیں، مختلف علاقوں میں چوری کی وارداتوں کے علاوہ موبائل فون، موٹر سائیکل اور گاڑیاں چھیننے کے واقعات ہوئے، نئے سال کے پہلے تین مہینوں میں صرف لاہور شہر میں موٹر سائیکل اور گاڑی چوری کی تقریباً ساڑھے پانچ ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئی ہیں، ویسے تو یہ وارداتیں سات ہزار کے لگ بھگ ہیں۔ اسلام آباد، پنڈی اور ملتان کے حالات لاہور سے کچھ مختلف نہیں ہیں، تینوں شہروں میں سٹریٹ کرائم عروج پر ہیں، اسلام آباد میں شاہ اللہ دتہ، بلیو ایریا اور ایکسپریس وے پر لوٹ مار کے واقعات معمول بن چکے ہیں، اسلام آباد ایکسپریس وے پر دلچسپ واقعہ پیش آیا ، جہاں ڈاکوؤں نے کئی افراد سے موبائل فونز اور نقدی چھینی، یہاں ایک ڈاکو کو ایک نوجوان کے شوز پسند آ گئے، ڈاکوؤں نے وہ بھی اتروا لیے، اسی دوران یہ خبریں بھی ملی ہیں کہ کئی گھروں کا صفایا کیا جا چکا ہے۔

راولپنڈی کی کمرشل مارکیٹ میں پرس اور موبائل چھیننے کا دھندہ عروج پر ہے، سندھ کے کئی علاقوں میں کچے کے ڈاکوؤں کا راج ہے اور پکے کے ڈاکو پریشان ہیں۔ پولیس کی کارکردگی کو چند دنوں کے اخبارات کے آئینے میں دیکھتے ہیں، رائیونڈ سٹی میں مبینہ پولیس مقابلے میں دو افراد ہلاک ہو جاتے ہیں، لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ میں جسمانی ریمانڈ کے دوران پولیس نے اتنا تشدد کیا کہ ایک آدمی جان ہار گیا، اوکاڑہ میں مبینہ پولیس تشدد کے باعث ہوٹل کا مالک جاں بحق ہو گیا اگرچہ وہاں چار اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے مگر یہ گرفتاری یتیموں کو باپ تو نہیں دلا سکے گی، عوام کو پولیس ناکوں پر بھی اعتماد نہیں ، وہاں بد سلوکی کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں، اگر لاہور جیسے شہر کے مختلف تھانوں میں تشدد سے لوگ ہلاک ہوتے ہیں تو دیہی علاقوں میں کیا ہوتا ہو گا؟ ہمیں تو آج تک پولیس مقابلوں کی بھی سائنس سمجھ نہیں آ سکی، ان مقابلوں میں پولیس والوں کو تو خراش تک نہیں آتی اور مبینہ طور پر ڈاکو مارے جاتے ہیں۔

کوٹ عبد المالک کی چوکی کوٹ نور شاہ میں مبینہ طور پر ملزم تنویر پر رات بھر ایک سب انسپکٹر نواز بھٹی اور اے ایس آئی عرفان نے اتنا تشدد کیا کہ تنویر اگلے دن کا سورج نہ دیکھ سکا، مقتول کے بھائی کی درخواست پر پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہو گیا ہے، اسلام پورہ لاہور میں پولیس فائرنگ سے زخمی ہونے والا سلمان، زندگی کی بازی ہار گیا ، لاہور کے مختلف علاقوں گوالمنڈی، ٹاؤن شپ، سول لائن اور لوئر مال سمیت کئی علاقوں میں ڈاکوں کی خبریں ہیں۔ ان واقعات سے آپ حالات کا اندازہ کر سکتے ہیں، عید کے بعد حالات مزید خراب ہوں گے کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی جرائم کے سامنے بند نہیں باندھ سکے گی۔ بقول سرور ارمان

بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن

تب ہمارے نام یہ جاگیر کر دی جائے گی

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین