• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرد جنگ کے بعد عالمگیریت نے نیا روپ دھارا۔ دنیا پہلے دو قطبی اور پھریک قطبی ہوئی مگر عالمی نظام میں عدم انصاف کے باعث دنیا اب کثیر قطبی ہوچکی اور اب دنیا میں عالمگیر معاشی انضمام کی بات ہو رہی ہے۔ اسرائیل کے غزہ پر حملہ اور نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ مغربی دنیا اس پر زیادہ سراپا احتجاج رہی۔ مسلم دنیا سے زیادہ مغربی ممالک کی جانب سے اسرائیلی پروڈکٹس کے بائیکاٹ نے عالمگیریت کے ایک نئے رخ کو متعارف کروایا۔ ‎حال ہی میں اسرائیل نے شام کے دارالحکومت دمشق پر فضائی حملہ کیا اور وہاں ایران کیساتھ فوجی کمانڈرز بشمول پاسدران انقلاب کےبریگیڈیئر اور جنرل محمد رضازاہدی جابحق ہوگئے۔ ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنائی نے اس پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل سے اس حملے کا بدلہ لیا جائیگا۔ اس دوران ایران کی بندرگاہ چاہ بہار پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال مستقبل میں اچھی محسوس نہیں ہو رہی۔ ‎روس کا یوکرائن پہ حملہ اور پھر حماس اسرائیل تصادم کے بعد اسرائیل کا غزہ پہ حملہ ان دو ریجنز سمیت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گیا۔ دنیا اب عالمگیریت کے قالب میں ڈھل چکی ہے۔ روس کے یوکرائن پرحملہ سے دنیا میں خوراک و توانائی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو ملا تو ساتھ ہی ماسکو میں ایک میوزک کنسرٹ پر دہشت گردوں کے حملہ میں 137 افراد جاں بحق ہوئے اور ایک بار پھردنیا میں ایٹمی جنگ کی بازگشت سننے کو ملی۔ گزشتہ کئی ماہ سے امریکہ اورچین کے درمیان تجارتی جنگ بھی عالمی معیشت میں کئی چیلنجز کا باعث رہی۔ سائوتھ چائنا کے سمندر میں امریکہ اور چین کی رقابت اور پھر چین وفلپائن کے درمیان بھی سمندری تنازعات انہی حالات کا پیش خیمہ ہیں‎ ۔عالمی سیاست کے گرو اس پہ بحث کررہے ہیں کہ کیا دنیا پھر تیسری عالمی جنگ کی طرف جارہی ہے۔ غزہ پر حملہ بھی عالمگیر سطح پر دنیا کیلئے ایک چیلنج بنکر ابھرا ہے۔ کیا ہمیں ان تمام چیلنجز کی وجہ سے تیسری عالمی جنگ پھوٹتی نظر آرہی ہے۔ ‎اس صدی کے عالمی سامراج کی بچھائی بساط سے ابھرنے والے اسرائیل نے 7 دہائیوںمیں مشرق وسطیٰ میں آگ وخون کا وہ کھیل کھیلا کہ جس سے انسانیت، انسانی حقوق، جمہوریت کا تمغہ سجائے عالمی برادری بالخصوص اہل مغرب خاموش اور ششدر ہیں ۔ 1.4 ملین کی غزہ کی پٹی پہ پھیلی آبادی ایک کونے میں سکڑ کر رہ گئی ہے۔ انسانی تاریخ کا اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کہہ رہے ہیں کہ ہم غزہ کے محصورین کی زندگیاں بچانے میں ناکام ہیں۔ ‎مشرقِ وسطی، جسے دنیا کا توانائی کا مرکز بھی کہا جاتا ہے، انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ عالمی طاقتوں کی شہ پر اسرائیل کی ناجائز تخلیق جو کہ 1917ء کے بالفور ڈیکلریشن سے ہوئی ۔ اسرائیل قیام سے ہی عرب ممالک و اسرائیل کے درمیان چار جنگیں ہوئیں ۔ جس میں 1948 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں فلسطین کے بہت سارے علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا اور پھر 1956 کے بعد 1967 کی عرب اسرائیل جنگیں اور پھر 1973ءکی یوم کپو ر جنگیں عربوں کیلئے حزیمت کاباعث بنیں ۔ امریکہ کے جنگی طیارے بحرروم میں امریکی جنگی بیڑے سے اڑ کرعرب افواج پرحملہ کرتے اور یہی جنگی مدد اسرائیل کو فیصلہ کن برتری دیتی۔ 1967ءمیں شام کی ائیر فورس کو ایک دن میں عالمی طاقتوں نے ہوائی حملوں میں ملبہ کا ڈھیر بنا دیا۔ ‎اسرائیل کے اس خطہ میں قیام کو کچھ تجزیہ نگار تیل کی سیاست یا گریٹ گیم کا حصہ قرار دیتے ہیں جس کی بساط اُس وقت کی سپرپاور برطانیہ نے بچھائی۔ اسرائیل کا جہاں فلسطین پرتسلط برقرار ہے وہاں مصر، شام، عراق، لبنان، ایران ویمن وخطہ کے دوسرےکئی ممالک پرحملے کئے جن میں 1983 میں عراق کے ایٹمی پلانٹ پرحملہ کرکے تباہ کرنابہت اہم ہے ۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی خطہ کے ممالک میں تھانیداری اورجارحانہ پالیسیاں دنیا کیلئے بہت بڑےچیلنج کاباعث ہیں ۔

‎فلسطین جو ہمارا پہلا قبلہ ہے اس وقت لہو لہان ہے۔‎ دوسری طرف تمام یہودی پراڈکٹس کے بائیکاٹ کی وجہ سے عالمی منڈی میں اسٹاک گرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس وقت ضرورت ہے کہ مسلم ممالک عالمی سطح پر اس ظلم کی روک تھام کیلئے باقاعدہ اقدامات کریں اور عالمی طاقتوں بشمول چین ، امریکہ و روس اور برطانیہ کو اس مسئلہ کے حل کیلئےاقوام متحدہ کے فورم پہ بلائیں اور اسرائیل پرسخت اقتصادی پابندیاں عائد کیے جانے کی کوشش کریں۔ فلسطینیوں کی داد رسی کیلئے، خوراک وصحت کیلئے اقدامات کریں جس سے ان مظلومین کے دکھوں کا کچھ مداوا ہوسکے۔ اب موجودہ عالمی وعلاقائی صورتحال میں عالمگیریت کے اس دور میں یہ تمام مسائل دنیا کیلئے بڑےچیلنجز ہیں ۔ جنہیں حل کئے بغیر دنیا معیشت ،سیاست میں آگے نہیں بڑھ سکتی۔ لہٰذا عالمی برادری کو آگے بڑھ کے ان چیلنجز سے نمٹناہوگا جس سے ایک پرامن اور معاشی طور پرخوشحال ‎ومستحکم دنیا سامنے آسکے۔ اس وقت بعض تجزیہ نگار آخری جنگ کی بھی نشاندہی کررہے ہیں۔ اگر یہ پیش گوئی صحیح رخ اختیار کرتی ہے تو اس وقت مسلم دنیا میں کہیں اتحاد نظر نہیں آرہا۔ آخر فلسطینی بچے کے گال پہ بہتے زخم کسی نے تو پونچھنے ہیں۔ کیا امام مہدی ؑ کی آمد آمد اور دنیامیں آخری جنگ قریب ہے یا شیطان کا چرخہ ابھی دنیا میں چلتے رہیگا۔ اس کے پسِ پشت ان کے مذہبی عقائد اور فوائد بھی ہیں جن پر وہ آج دن تک فوکس ہیں ۔ دنیا کو وہ اندرون خانہ جنگی ، ملکی سیاست، مہنگائی بدامنی، انتشار ، وبائوں اور بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی میں الجھا کر اپنے پہلے دن سے بنائے فارمولے پر فوکس ہیں ۔ ہم جیسے چھوٹے ممالک اپنی سیاسی الجھنوں کا شکار ہیں ۔ عرب ممالک ترقی اور پاور گیم کے بظاہر جھوٹے فریب میں پھنسے آواز بلند نہیں کر پا رہے ۔ جبکہ آئیڈیل سچویشن تھی کے تمام مسلم امہ ایک ہو جاتی اور اقوامِ متحدہ پر دبائو ڈالا جاتا کے جنگ بندی کی جائے ۔ آفرین ہے ان صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس پر جو مسلسل اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے فلسطین پر ہونیوالے ظلم کے دل خراش مناظر ہم تک پہنچا رہے۔ بطور مسلمان ، بطور ماں بچوں کی چیخیں اور خون میں لتھڑی لاشیں اور بطور انسان انسانیت کی اتنی تذلیل نہیں دیکھی جاتی ، یہ ہی وقت ہے کے ہم ہوش میں آئیں۔ یہی بڑے ممالک چھوٹی وکم وسائل والی اقوام پر ظلم ڈھاتے رہے،اس کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔

تازہ ترین