• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشہ سے پیوستہ)

واضح رہے اڑھائی سالہ موجود انتہائی پیچیدہ ملکی بحران کے آغاز پر ہی اس کا فوری اور موثر حل انتخابات کا انعقاد تھا۔ یہ ہی آئین کی پاسداری کا لازمہ تھا۔ لیکن الیکشن کمیشن تیزی سے غیر مقبول ہوتی 16 ماہی حکومت کا ہمنوا اور ہمرکاب بن کر آئین سے مسلسل منہ موڑ کر طوالت اقتدار کا سہولت کار بن گیا۔ اوپر سے بڑا ستم یہ ہوا کہ سپریم کورٹ نے ملک کو آئینی ٹریک پر رکھنے کے لئے وقت پر انعقاد الیکشن کا جو فیصلہ دیا عدالت عظمیٰ میں اچانک پیدا ہوئی ججز کی تقسیم سے ناقابل عملدرآمد ہوگیا، جس سے بحران مزید گھمبیر ہوگیا۔ عدلیہ کی یہ ایسی تقسیم تھی کہ اقتدار کی آئینی مدت ختم ہونے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کےمطابق بھی الیکشن نہ کرانے پر عدلیہ کی سیاسی تقسیم کے حوالے سےجو سیاسی تنازع ہوااس میں مہنگائی کو قابو میں رکھنا حکومت کے بس سے بالکل باہر ہوگیا۔ یہ صورتحال منافع خوروں اور ڈالر سے کھیلنے والوں کی عید مسلسل رہی۔ اس کے متوازی پی ٹی آئی قائد کی عوام رابطہ مہم کی کامیابی کا گراف تیزی سے بڑھنے اور اتحادی حکومت کی مقبولیت تیزی سے کم خصوصاً ن لیگ کی سیاسی ساکھ بری طرح مجروح ہونے لگی، اس کی وجہ فقط ہارس ٹریڈنگ سے عمران حکومت کی اکھاڑ اور اس کے فوری بعد ہی مہنگائی کا گراف تیزی سے بڑھنا ہی نہیںتھا، دو اور بڑی وجوہات تیزی سے سیاسی منظر پر نمایاں ہونے لگیں ۔ ایک الیکشن کمیشن کا تحریک انصاف کے خلاف مسلسل اور واضح متعصبانہ رویہ، خصوصاً توشہ خانہ پر کمیشن کی دو قانونی اپروچ دوسرے ججز کی تقسیم کے حوالے سے موجودہ چیف جسٹس صاحب کی قیادت میں کچھ جج صاحبان کا عوام میں پی ٹی آئی مخالف ہونے کا غالب تاثر اور سب سے بڑھ کر شہباز حکومت کو حاصل پاکستانی مجموعی قومی امور کے سب سے بڑے اور منظم اسٹیک ہولڈر اسٹیبلشمنٹ کی مکمل سرپرستی کا عوام میں مسلسل بڑھتا واضح تاثر۔

اس صورتحال کے متوازی تیز ترین اور کم ترین پارلیمانی تائید (اجلاسوں کی کم تر حاضری) سے ہونے والی وہ سخت متنازعہ قانون سازی سے جو پبلک ڈس کورس (عوامی بیانیہ) خود عوامی ہی زاویہ ہائے نگاہ بنا حکومت مخالف اور پی ٹی آئی کے تائیدی میڈیا تجزیوں کی تصدیق سے اس نے طاقتور رائے عامہ کی شکل اختیار کرلی، چونکہ تیز اور مشکوک ترین اور اتنی متنازعہ قانون سازی تھی کہ پی ڈی ایم کے اراکین اسمبلی کی اکثریت بھی اجلاسوں میں شرکت سے گریزاں تھی، لہٰذا یہ تاریخ کا سیاہ ترین حوالہ بن گئی قانون سازی پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں مسلسل اضافے اور ن لیگ کے روایتی سیاسی اثاثے میں تیزی سے کمی کا باعث بنی۔ دلچسپ یہ رہا کہ خود پی ڈی ایم کے کرتے دھرتے اکابرین کو اس صورت حال کا مکمل ادراک تھا لیکن یہ ہی صورت حال ان کے خلاف مکمل سنجیدہ اور ٹھوس مقدمات کے جلد سے جلد ختم ہونے کا ’’سنہری موقع‘‘ بھی تو تھا۔سو انہوں نے اپنی برسوں کی نیب زدگی ختم کرانے کو سیاسی اثاثہ (ووٹ بینک) اجڑنے کو ترجیح دی۔ اسے اس خسارے کا حاصل یہ رہا کہ ن لیگی اور پی پی کے نیب زدہ رہنما تو پھر مشرف کے دیئے این آر او کے بعد مسٹر کلین بن کر اک بار پھر اور حکومت میں آنے کے اہل ہوگئے، لیکن بڑا اور خسارہ ہی خسارہ مولانا صاحب کو ہوا جو نہ تو خود نیب زدہ تھے نہ ان کی جماعت کے اور رہنما کبھی نیب کی پکڑ میں آئے تھے۔سو وہ صرف مہنگے ترین سودے پر 16ماہی حکومت کی دو تین وزارتوں پر ہی اپنا ووٹ بینک اجاڑ بیٹھے۔ پھر جو 8فروری کے انتخابی نتائج تلپٹ کئے گئے اس میں بھی اصل بینی فشری نون لیگ اور پی پی رہی رہی۔ لیکن مولانا کو اس میں بھی کچھ نہ ملا، لیکن اس خسارے پر مولانا صاحب اب سیخ پا ہو کر پی ڈی ایم کے غیرآئینی کھیل کی فاتح ٹیم کے ’’اسمارٹ کھلاڑی‘‘ ہونے کا کفارہ ادا کر رہے ہیں۔

اگرچہ نگران حکومت نے اپنے آئینی اور غیر آئینی اضافی دور میں پی ٹی آئی کو کچلنے کے لئے جو بدترین پولیس گردی مچائی سونے پہ سہاگہ اڈیالہ کورٹس نے فیصلہ سازی کا جو سیاہ باب بن جانے والا معیار قائم کیا، اس پر تو آج بے وقت لیکن پورا سچ ن لیگ کے عقابی رہنما رانا و راجہ ثنا اللہ بھی سخت شاکی ہیں اور اپنی سیاسی اور پیشہ ورانہ ساکھ بچانے کے لئے کلمہ حق کو بار بار دہرا رہے ہیں۔ لیکن پی ڈی ایم والے غور تو فرمائیں کہ دانہ کس طرح خاک میں مل کر گل و گلزار ہوگیا اور پی ڈی ایم اب بھی تخت لاہور یا شہر اقتدار سے زیادہ کانٹوں کی سیج سے حکمرانی فرما رہی ہے، بے قابو مہنگائی کی پروردہ ہے (جو رمضان میں انتہا پر پہنچی نہ اللے تللے کم ہوئے، نہ کوئی مانے یا نہ مانے، پاکستانی نایاب روایتی سیاست کے ہنستے مسکراتے، باغ و بہار،ستم زدہ بچارے پنڈی وال بزرگ سیاست دان شیخ رشید کا دعویٰ درست ہی تو ثابت ہوا کہ ن سے ش نکلے ہی نکلے، دیر آید غلط آید، نکل تو آئی۔ شہباز حکومت کیسے اور کتنی غلط بنی، لیکن نکلی تو ن لیگی منقسم سیاست سے ہی۔ باڈی لینگویج کے ماہر اور ناچیز طالب علم یہ ہی سمجھ پا رہے کہ بڑے میاں صاحب، ’’چوتھی بار‘‘ کے دکھائے خواب سے خطا کھانے پر شدت غم اور شرمندگی دونوں سے مغلوب ہیں۔ لیکن وہ شین کی اس فنکاری کو تو مانیں کہ اتنے عرصے سے پھر پانامہ پھندے سے نیب زدگی اور عدالتی سزا کی زد میں آئے پورے کے پورے اور اتنے شریف خاندان کو کیسی ’’حکمت و دانائی‘‘ سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی خاندان میں سے انہوں نے میاں صاحب کی نہ سہی چوتھی وزارت عظمیٰ بھی نکال تو لی۔

اب آتے ہیں حل کی طرف:جو ہوا سو ہوا۔ وہ ایک تلخ حقائق کا پہاڑ ہے جو قوم کےسروں کے افقی میدان میں تن تنہا کھڑا اور غالب ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر سچی پکی، قومی سیاسی تاریخی حقیقت اپنے فطری راستے میں ڈالی گئی ایک سے بڑھ کر ایک پرخطر رکاوٹیں عبور کرتی، بلائوں سے نپٹتی بھربھرے تنے پہاڑ کے مقابل، دور دور تک پھیلے (وفاقی) انمٹ نقش کے ساتھ موجود ہے، سروں پر تانا پہاڑ چٹان نہیں بن سکتا اور خلق خدا کی طاقت زیر کہسار ہی سہی لیکن چٹان کی مانند ہے، لیکن ہیں دونوں وقت کی تلخ و شیریں حقیقتیں۔ تجزیے آ رہے ہیںتلخ پہاڑ پر امریکی انتظامیہ بہت خوش ہے، خواہ شہباز کانٹوں کی سیج سے ہی حکمرانی کر رہی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی حقیقی اور وفاقی طاقت اور 8فروری کے اصلی نتائج نے پاکستان کو وہ چٹان بنا دیا ہے کہ اگلے مراحل میں جو بھی حکومتیں بنیں اب غیر آئینی کھلواڑ اس قدر نہ مچایا جا سکے گا، اس ہی کو یقینی بنانے کے لئے پی ٹی آئی کے جعلی برینڈ ’’سنی کونسل‘‘ والی اپوزیشن اور مولانا صاحب، سوچیں کہ وہ فوراً حکومت اکھاڑنے کے چکر میں پڑنے اور اسلام آباد سے ٹکریں مارنے کی بجائے اسے امریکی ’’مہربانیاں سمیٹنے دیں‘‘۔ اس حکومت کا وقت خود مقرر کردیں۔ مڈٹرم الیکشن کے انعقاد کے لئے متفقہ مقررہ تاریخ کو مطالبہ بنائیں۔ اپنی اپنی جماعتوں کا ہوم ورک کریں خصوصاً پی ٹی آئی جلد سے جلد نیشن بلڈنگ پروگرام پر کام کرے، ہر حالت میں لازم ہے کہ سازگار ماحول بنایا جائے جو 100فیصد شہباز حکومت اور پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات کی بھرمار سنتی ٹالتی عدالتیں ذمے دار ہیں۔ بھربھراپہاڑ کفارے کی ادائیگی کی تیاری تیز تر اور افقی چٹان پر سے گندھا غبار ہر حالت میں صاف کرنا ہے۔ یہ زحمت عوام کو نہ دی جائے ہی تو ملک کا بھلا۔ وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین