اسلام میں ’’حصولِ علم‘‘ کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے، قرانِ کریم اور احادیثِ مبارکہؐ میں حصولِ علم، اور اس کی ترویج و اشاعت کی اہمیت و ضرورت بارہا بیان ہوئی ہے۔نیز، دینِ اسلام نے علم کی حدود واضح کرتے ہوئے اس میں وہ تمام شعبے شامل کیے ہیں، جن سے لوگوں کو فائدہ حاصل ہوسکے۔
یہی وجہ ہے کہ دیگر مسلمان حکم رانوں کی طرح برصغیر کے مسلمان بادشاہوں نے بھی تعلیم پر خصوصی توجّہ دی اور فروغِ علم کے لیے بہت سے مدارس قائم کیے اور اُن مدارس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے جاگیریں وقف کرنے کے علاوہ اُن سے وابستہ افراد کو دربار کی طرف سے بھی انعام و اکرام سے نوازا جاتا رہا، جب کہ مسلمان حکم رانوں پر تنقید کرنے والے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ یہ تعلیمی ادارے کسی ایک مذہب یا فرقے کے لیے مخصوص نہ تھے، بلکہ اُن کے دروازے ہرمذہب اور ہر طبقے کے لیےبلاتفریق کُھلے تھے۔
دورِ مغلیہ میں برصغیر کا سفر کرنے والے یورپی مصنّفین کے مطابق، یہاں کے ہرشہراور قصبے میں بچّوں کے لیے مکاتب اور مدارس قائم تھے، جہاں مفت تعلیمی سہولتیں میسّر تھیں اور یہ ادارے وقف کے طور پر ہر ایک کے لیے کُھلے تھے۔ جن اداروں میں تعلیمی فیس بھی لی جاتی، وہ بھی اُس وقت کے مغربی تعلیمی اداروں سے بدرجہا کم تھی، جب کہ ایسے اداروں میں بھی، جن میں تعلیمی فیس وصول کی جاتی تھی، وہ غریب اور نادار طلبہ، جو تعلیمی اخراجات کے متحمّل نہ ہوتے، ہر قسم کی فیس سے مستثنیٰ تھے۔
ایک آسٹریلوی مؤرخ نے 1850ء میں اپنے دورئہ ہندوستان کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’مَیں نے ہندوستان کے تقریباً ہر قصبے اور گائوں میں اسکول اور مکاتب دیکھے، جو سرکاری سرپرستی میں چل رہے تھے۔ ان اداروں میں مذہبی تعلیم دینے کے علاوہ سائنس، فلسفہ، ریاضی اور دیگر جدید علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔‘‘
اپنے پیش رو حُکم رانوں کی طرح مغل بادشاہ بھی اشاعتِ علم کے اس مقدّس کام میں پیش پیش رہے۔ اورنگ زیب عالم گیر، جسے کچھ مؤرخ ایک تنگ نظر حکم راں تصوّر کرتے ہیں، دارالحکومت سے دُور، ٹھٹّھہ جیسے علاقے میں چار سو سے زائد مدارس قائم کیے۔ ایک عام تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ مسلمان حکم رانوں کے قائم کردہ ان مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب، صرف دینی علوم پر مبنی تھا اور مسلمان دین و مذہب کے علاوہ کسی بھی دوسرے علم کا حصول معیوب سمجھتے تھے، مگر یہ اعتراض کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں، کیوں کہ اس اعتراض کے اُٹھائے جانے سے صدیوں قبل ابوالفضل اپنی کتاب ’’آئینِ اکبری‘‘ میں برصغیر کے مدارس میں پڑھائے جانے والے علوم کی ایک طویل فہرست کا ذکر کرتا ہے، جس میں دینِ اسلام، ہندو مذہب، فلسفہ، طب، ریاضی، سائنس بشمول طبیعات و کیمیا اور دیگر کئی اہم علوم شامل ہیں۔
برصغیرمیں انگریزوں کی آمد کے بعد نظامِ تعلیم میں واضح تبدیلی آئی۔ انگریزوں اور برصغیر کے عوام کے درمیان آقااور غلام کا رشتہ تھا، جس کا سب سے اہم تقاضا اعلیٰ و ادنیٰ، بالادست و زیردست کا فرق قائم رکھنا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ یہاں کی حکومت، عوام، رسم ورواج اور نظام کو نہ صرف کم تر سمجھا جائے، بلکہ دنیا کے سامنے برّصغیر کے عوام کو جاہل اور گنوار بنا کر پیش کیا جائے۔
نیز، یہ تاثر دیا جائے کہ برطانوی حکومت، ہندوستان کو پستیوں کی ان گہرائیوں سے نکالنے کی خواہاں ہے۔ انگریزوں کا ’’فلسفۂ تعلیم برائے ہندوستان‘‘ سمجھنے کے لیے لارڈ میکالے کی تعلیمی اصلاحات کے، جو اُس نے 1833ء میں برطانیہ میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں پیش کیں، چند نکات ہی سمجھ لینا کافی ہے۔
1۔انگریزی زبان کے مقابلے میں عربی اور سنسکرت کم درجے کی زبانیں ہیں، لہٰذا ہندوستانی مدارس میں عربی، سنسکرت یا فارسی کے بجائے انگریزی زبان میں تعلیم دی جائے۔
2۔ برِصغیر میں ایک ایسے تعلیمی نظام کی ضرورت ہے، جس کے تحت یہاں ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جاسکے، جو اگرچہ نسل اور رنگ میں ہندوستانی ہو، مگر اپنی عادات، عقل و فکر اور شعور میں انگریزہو۔ (یعنی ہندوستانی عوام کی شخصی حیثیت کو مکمل طور پر مسخ کردیا جائے)۔
3۔ مقامی زبانوں میں تعلیم دینے والے مدارس کی حکومتی امداد فوراً بند کردی جائے۔
4۔ سرکاری ملازمتیں صرف اور صرف اُن افراد کے لیے مختص ہوں، جو انگریزی زبان میں تعلیم یافتہ ہوں۔
برصغیر میں رہنے والے ہندو اِن نئی تعلیمی اصلاحات سے مطمئن اور خوش تھے، کیوں کہ عربی یا فارسی بھی اُن کے لیے اُتنی ہی پرائی زبانیں تھیں، جتنی کہ انگریزی۔ سو، اُنھوں نے انگریزی سیکھنے میں زیادہ تامّل نہ کیا، البتہ مسلمان اکابرین کی اکثریت نے ان اصلاحات کی شدید مخالفت کی۔ بات اگر صرف زبان کی تبدیلی تک رہتی، تو شاید ان اصلاحات کی اتنی مخالفت نہ ہوتی، مگر تعلیمی نظام کی تبدیلی کا مقصد صرف زبان کی تبدیلی نہیں، بلکہ برصغیر کے پورے معاشرتی، ثقافتی و تہذیبی نظام کی تبدیلی تھی۔
انگریز برِصغیر میں رائج زبانوں کے علاوہ یہاں کے معاشرے کو بھی اپنے رنگ میں ڈھالنا چاہتے تھے، جو مسلمانوں کو قبول نہ تھا۔ اس صورتِ حال میں مسلمانانِ ہند نے اسلامی طرزِتعلیم کی بقا اوراسے مزید بہتر بنانے کے لیے تعلیمی تحریکوں کا آغاز کیا اور اس دوران ہندوستان بھر میں بہت سی جدید اسلامی درس گاہیں قائم کی گئیں۔
تحریکِ دارالعلوم دیوبند: اس تحریک کی بنیاد 1866ء میں حضرت مولانا محمد قاسم ناناتوی نے بھارت کے قصبے ’’دیوبند‘‘ کی ایک مسجد میں مدرسے کے قیام کی صُورت رکھی۔ مولانا کے استاد، مولوی مملوک علی کا تعلق حضرت شاہ ولی اللہ کے مکتب و مدرسے سے تھا۔ وہ کچھ عرصہ دہلی کالج میں بھی زیرِ تعلیم رہے۔ مدرسہ دیوبند کے پہلے صدر مدرّس مولانا یعقوب ناناتوی کے مطابق اس مدرسے کے قیام کا مقصد مسلمانوں کو دینی ماحول میں تعلیم سے آراستہ کرکے انگریزوں کے اسلام مخالف رویّوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا تھا۔
اس تحریک کے زیر اثر دیگر مدارس کے قیام اور اُن پر اُٹھنے والے اخراجات کے لیے حکومتی امداد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، لہٰذا تمام تر ذمّے داری متموّل مسلمانوں پر آن پڑی، جنھوں نے اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ اس تحریک کے زیرِاثر قائم ہونے والے تعلیمی اداروں میں درسِ نظامی کا نصاب پڑھایا جاتا۔ درسِ نظامی کی ابتدا، فروغ تعلیم کے سپاہی ملا نظام الدین سہالوی نے 18ویں صدی عیسوی میں فرنگی محل لکھنؤ سے کی، جواب بھی یورپ سمیت دنیا کے کئی ممالک کے اسلامی مدارس میں رائج ہے۔
اس نظامِ تعلیم میں قرانِ مجید اور احادیث کی چھے کتابوں (صحاح ستّہ) کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ دیو بندنصابِ تعلیم میں دینیات کے علاوہ منطق، فلسفہ، اسلامی فقہ و قانون، لسانیات اور ادب جیسے مضامین شامل تھے۔ اس کے علاوہ دیوبند کے زیرنگرانی چلنے والے تعلیمی اداروں میں خطّاطی، کپڑا بافی، جِلدبندی اور طب کی تعلیم کے علاوہ عملی تربیت بھی دی جاتی۔ اس تحریک کو بڑی کام یابی ملی اور جلد ہی دیو بند کا نام کسی مدرسے یا عمارت سے زیادہ ایک نظریے کی حیثیت اختیار کرگیا۔
علی گڑھ تحریک: 1857ء کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں نے بھر پور شرکت کی اور شکست کے بعد انگریز حکومت کی نفرت اور انتقام کا نشانہ بھی زیادہ تر مسلمان ہی بنے۔ حکومتی نفرت اور انتقام نے مسلمانوں کی جان ومال، عزت و آبرو اور معاشرتی حیثیت تباہ و برباد کردی، مگر بربادی کے اسی ملبے سے علی گڑھ تحریک کا کنول پُھوٹا۔ اس تحریک کے بانی سرسیّد احمد خان تھے، جنہوں نے ابتدائی تعلیم ہندوستان سے حاصل کی، بعدازاں یونی ورسٹی آف ایڈنبرا سے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔
سرسیّد احمد خان بہت سے اہم سرکاری عہدوں پر بھی فائز رہے۔ سرسیّد کے نزدیک مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل اعلیٰ تعلیم کے حصول ہی سے ممکن تھا۔ وہ ایک ایسے تعلیمی نصاب کے خواہاں تھے، جس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم اور انگریزی زبان کو بھی خاطرخواہ اہمیت دی جائے۔اپنے اس نظرئیے کی ترویج کے لیے اُنھوں نے مختلف انجمنیں بنائیں، رسائل جاری کیے، چند ایک مدارس بھی قائم کیے، لیکن اُن کا خواب ہندوستان میں کیمبرج اور آکسفورڈ کی طرز پر ایک عظیم الشّان درس گاہ کا قیام تھا۔
سرسیّد کی ان ہی کاوشوں کی وجہ سے سال1877ء میں علی گڑھ میں ایک مدرسہ قائم کیا گیا، جو ترقی کرتے کرتے سال 1920ء میں ’’علی گڑھ یونی ورسٹی‘‘ کے درجے تک پہنچ گیا۔ سرسیّد کی یہ تحریک بنیادی طور پر ایک تعلیمی تحریک تھی، جس کا مقصد ہندوستانی نوجوانوں کی ذہنی نشوونما کرنا تھا۔ اس تحریک نے ہندوستان کی تعلیم، سیاست اور ادب پر گہرے نقوش مرتب کیے۔
سرسیّد چاہتے تھے کہ اس دَور کے مسلمان نوجوان سیاست سے دُور رہ کر عِلم کی شمع سے اپنے دل ودماغ روشن کریں اور خود کو اس قابل بنائیں کہ انگریز سامراج کی سیاست کو سمجھ سکیں اور جب اُن کا ذہنی شعور کسی قدر پختہ ہوجائے، تو پھر وہ عملی سیاست میں قدم رکھیں۔ آنے والے وقت نے سرسیّد کا یہ فیصلہ درست ثابت کیا۔ علی گڑھ کے فارغ التحصیل طالب علم ہمیشہ تحریکِ آزادی کے ہراول دستے میں شامل رہے۔
تحریکِ ندوۃالعلماء: مولانا شبلی نعمانی سمیت کچھ مسلمان اکابرین علی گڑھ اور دیوبند کے تعلیمی نصاب سے مطمئن نہ تھے۔ اُن کے نزدیک مسلمانوں کی بہتردینی اور دنیاوی تعلیم کے لیے ایک نئے تعلیمی نصاب کی اشد ضرورت تھی۔ چناں چہ 1892ء میں برّصغیر کے نمایاں دینی اُستاد محمد علی مونگیری نے ندوۃالعلماء کا تخیّل پیش کیا، جس کے بنیادی طور پر تین مقاصد تھے۔
1اصلاحی تعلیمی نصاب،
2۔ مسلمانوں میں اختلافات کا خاتمہ،
3۔ غیرمسلموں میں اسلام کا تعارف۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے محمد علی مونگیری نے پورے برصغیر کے دورے کیے اورعلماء سے اپنی اس تجویز پر رائے طلب کی، جسے ہر جگہ بڑی پذیرائی ملی۔ مولانا شبلی نعمانی، جو اُس وقت علی گڑھ میں تھے، انھوں نے بھی اس تجویز کی بھرپورحمایت کی اور آخر تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ بالآخر1898ء میں گولا گنج، لکھنؤمیں ایک دارالعلوم ’’ندوۃ العلماء‘‘ قائم کرکے ان خیالات کو عملی جامہ پہنا دیا گیا۔ ندوۃالعلماء کے (لفظی مطلب، علماء کی مجلس یا اکیڈمی ہے) ممبران نے دارالعلوم کے نصاب میں انگریزی زبان کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کیا۔ اس کے علاوہ عربی زبان اور ہم عصر سائنسی مضامین کی تعلیم کا بھی خاص اہتمام کیا گیا۔ اس مدرسے سے فارغ التحصیل طلبہ نے بہت سی عربی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ: بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں علی گڑھ کے طلبہ کو سیاست سے الگ رہنے کا مشورہ دیا جارہا تھا، مگر انہی سالوں میں برصغیر کے عوام انگریز حکومت کے خلاف مختلف تحریکوں میں مصروفِ عمل تھے۔ مولانا محمد علی جوہر جیسے مسلمان راہ نما علی گڑھ کی اس حکمتِ عملی سے خوش نہ تھے۔
چناں چہ مولانا جوہر نے 1920ء میں علی گڑھ تحریک چھوڑ کر اسی شہر میں ایک نئے تعلیمی ادارے ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘‘ کی بنیاد رکھی، جسے پانچ سال بعد دہلی منتقل کردیا گیا۔ اس ادارے کے نصاب میں دینی اور سائنسی علوم شامل تھے، جب کہ یہاں ذریعۂ تعلیم اردوتھا۔ اردو زبان کے علاوہ یہاں علاقائی زبانوں کو بھی اہمیت حاصل تھی اور ایم اے کی ڈگری لینے والے ہر طالب علم کے لیے لازم تھا کہ وہ اردو یا کسی مقامی زبان میں تحقیقی مقالہ تحریر کرے۔
برصغیر کی نو آبادیاتی دور کی ان تعلیمی تحریکوں کے مختصر جائزے سے چند باتیں واضح ہوجاتی ہیں، اوّل یہ کہ غلامی کے اس مشکل دَور میں بھی مسلم اکابرین مسلمانوں کی تعلیم و تربیت سے غافل نہ تھے۔ دوم، مسلم اساتذہ اُس دور کے تقاضوں سے لاعلم نہ تھے اور اُنھوں نے محض روایتی نصاب ہی پرتوجّہ نہ دی، بلکہ اُس دَور کے جدید مضامین کو بھی تدریسی نصاب میں شامل کیا۔
سوم، ان تحریکوں نے لارڈ میکالے کی ’’غلام ساز‘‘ تعلیمی اصلاحات کو ناکام بناکر مسلمانوں کو اپنے انگریز سیاسی حریفوں سے مقابلہ کرنے کے قابل بنایا، جس کے نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ مسلم دنیا پر گہرے نقوش ثبت ہوئے اور مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اوراسلامی علوم و فنون میں تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے ان اداروں کے اثرات و احسانات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
بلاشبہ، ایک ایسے دَور میں جب برطانوی استعمار پورے ہندوستان پر قابض تھا، اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلم تشخص کو قائم رکھنے اور اس کے احیاء کے لیے ان اداروں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔