• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد کاشف

استعداد اور طاقت کے اعتبار سے بحری فوج کو تین درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بلیو واٹر نیوی، گرین واٹر نیوی اور برائون واٹر نیوی۔ بلیو واٹر نیوی سے مُراد ایسی بحری فوج ہے کہ جو دُنیا کے کسی بھی حصّے میں جنگی مشن انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اسی لیے اِسے دیگر بحری افواج سے زیادہ طاقت وَر نیوی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد گرین واٹر نیوی اور پھر برائون واٹر نیوی کا نمبر آتا ہے۔ 

گرین واٹر نیوی اپنے ساحل کا دفاع تو بخوبی کرتی ہے، مگر یہ اپنی سمندری حدود سے بہت آگے جا کر کارروائی نہیں کرسکتی۔ یاد رہے کہ پاکستان کی نیوی بھی ’’گرین واٹر نیوی‘‘ کہلاتی ہے، جب کہ براؤن واٹر نیوی طاقت اور استعداد کے لحاظ سے بلیو واٹری نیوی اور برائون واٹر نیوی کی نسبت کم زور تصوّر کی جاتی ہے اور یہ اگر اپنے ساحل ہی کا دفاع کرلے، تواِسے بڑی کام یابی سمجھا جاتا ہے۔ 

فوجی ماہرین کے مطابق بلیو واٹر نیوی کا حامل مُلک دُنیا کے گہرے سمندروں میں بحری جہازوں کے بیڑے تعیّنات کرتا ہے اور بوقتِ ضرورت بین الاقوامی معاملات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ واضح رہے کہ بلیو واٹر نیوی کی تشکیل ایٹم بم بنانے سے بھی زیادہ پیچیدہ اور منہگا عمل ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں بلیو واٹر نیوی کی چند اہم خصوصیات پیش کی جا رہی ہیں۔

آب دوز : بلیو واٹر نیوی کو اپنی حفاظت کے لیے سکیوریٹی درکار ہوتی ہے اور اس ضمن میں آب دوز ایک بہترین آپشن ہے۔ آب دوز نہ صرف زیرِسمندر رہتے ہوئے سطحِ آب پرموجود بحری جہازوں کو تحفّظ فراہم کرتی ہے بلکہ بوقتِ ضرورت دشمن کی سرزمین پر حملے کر کے بحری قوّت میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہے۔ اگر بلیو واٹر نیوی کو ایٹمی آب دوز کی سپورٹ اور سکیوریٹی حاصل ہو، تو اِس سے بحری قوّت میں کئی گُنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ 

ایٹمی آب دوز کا مفید ترین پہلو یہ ہے کہ اسے ری فیولنگ کے لیے بار بار سطحِ آب پر نہیں آنا پڑتا، جب کہ اس کے برعکس روایتی آب دوز کو ری فیولنگ کے لیے بار بار سطحِ آب پر آنا ہوتا ہے، جس کے باعث آب دوز کی اپنی سکیوریٹی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور وہ کسی بھی وقت دشمن کا ہدف بن سکتی ہے۔ آب دوز بحری افواج کی آنکھ کا کردار بھی ادا کرتی ہے، کیوں کہ یہ زیرِ آب رہ کر دشمن کی جاسوسی کرتی ہے۔

نیول بیس : چُوں کہ بلیو واٹر نیوی کو دُنیا بھر میں جنگی خدمات انجام دینا ہوتی ہیں، تو اس مقصد کے لیے اس بحری فوج کو وطن سے دُور نیول بَیس کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ بلیو واٹر نیوی کو اسلحے، راشن، ایندھن اور اسپیئر پارٹس سمیت دیگر اشیاء کی ضرورت رہتی ہے اور ان ضروریات کی تکمیل کے لیے نیوی بار بار اپنے مُلک نہیں جاسکتی۔ ایسے میں نیول بیس کا کردار خاصی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ امریکا اور رُوس جیسے بلیوواٹر نیوی کے حامل ممالک کے دُنیا کےمختلف حصّوں میں نیول بیس واقع ہیں، جن کی مدد سے وہ دُنیا کے کسی بھی حصّے میں اپنے آپریشنز انجام دیتی ہیں۔

دوست ممالک کا تعاون: اگر کوئی بلیو واٹر نیوی کسی خطّے میں کوئی جنگی مِشن انجام دینا چاہتی ہےاوروہاں اُس کے دوست ممالک موجود ہوں، تو اُس خطّے میں جنگی مِشن میں کام یابی کےامکانات خاصےبڑھ جاتےہیں کہ اس موقعے پر دوست ممالک نیوی کو لاجسٹکس، راشن، میڈیسن اور اسلحے کی فراہمی اور ریسکیو کے ضمن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 

اس کے برعکس اگر بلیو واٹر نیوی کسی ایسے خطّے میں مشن انجام دینے جارہی ہو کہ جہاں اُس کے دشمن ممالک کی تعداد زیادہ ہو، تو اُس خطّے میں اُس کی ناکامی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، کیوں کہ ایک جانب دشمن ممالک اُس سے کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے، تو دوسری جانب چوری چُھپےحریف مُلک کو سپورٹ بھی کرتے ہیں، تو یوں بلیو واٹر نیوی کا جنگی مشن ناکام ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

فضائی قوّت : پہلی عالمی جنگ کے بعد دُنیا بَھر کی بحری افواج کو اس بات کا احساس ہوا کہ مضبوط بحریہ کے لیے فضائی قوّت کا حامل ہونا ناگزیر ہے۔ کیوں کہ جب کسی بحریہ کو فضائی قوّت دست یاب ہوتی ہے، تو اِس صُورت میں اُس کے جنگی مشن کی کام یابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا کی ہر طاقت وَر نیوی طیّارہ بردار بحری بیڑے کا حصول ناگزیر سمجھتی ہے۔ بلیو واٹر نیوی کا فضائی بازو اُسےمختلف امورمیں مدد فراہم کرتا ہے، جیسا کہ ریسکیو کرنا، اپنے علاقے کی فضائی نگرانی کرنا، دشمن کی بحریہ کی نقل و حمل پر نظر رکھنا اور دشمن کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانا وغیرہ۔

طیّارہ بردار جہاز: اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی نیوی، بلیو واٹر نیوی کی تعریف پر ہر اعتبار سے پوری اترتی ہے۔ اِس وقت دُنیا میں سب سے زیادہ طیّارہ بردار جہاز امریکی نیوی کےپاس ہیں اوراُن کی تعداد 11ہے۔ نیز، امریکی نیوی کی بنیادی طاقت ہی یہ طیّارہ بردار جہاز ہیں۔ طیّارہ بردار جہازوں کی اہمیت کے پیشِ نظر پہلی عالمی جنگ ہی سے اِن کا استعمال شروع ہوگیا تھا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ 

سب سے پہلے برطانیہ نے پہلی عالمی جنگ میں طیّارہ بردار جہاز استعمال کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے امریکا، رُوس اور دیگر ممالک طیّارہ بردار جہاز استعمال کرنے لگے، جب کہ آج چین اور بھارت بھی طیّارہ بردار جہاز کے حصول کی دوڑ میں شریک ہیں۔ واضح رہے کہ اگر کوئی مُلک بین الاقوامی پانیوں پر راج کرنا چاہتا ہے، تو اس کے لیے طیّارہ بردار جہاز کا حامل ہونا بہت ضروری ہے۔

کسی بھی بلیو واٹر نیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ خُشکی پر موجود دشمن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانےکی صلاحیت رکھتی ہواوراِس ضمن میں طیّارہ بردار جہاز بہترین آپشن ہے۔ تاہم، طیّارہ بردار جہاز کا استعمال ایک منہگا ترین انتخاب ہے، جب کہ اس مقصد کے لیے سطحِ آب سے خُشکی پر مار کرنے والا کروز میزائل ایک اچّھا اور سستا آپشن ہے۔ امریکی ساختہ ٹوماہاک کروز میزائلز پچھلے تیس سال سے امریکا اور برطانیہ کے زیرِ استعمال ہیں۔ ٹوما ہاک کروز میزائل کو بحری جہاز اور آب دوز سے داغا جا سکتا ہے۔

جنگی تجربہ: بلیو واٹر نیوی کی ایک اہم ترین خُوبی اس کا جنگی تجربہ ہے۔ گرچہ رُوس، چین، بھارت اور برطانیہ کی بحریہ کو بلیو واٹر نیوی قرار دیا جاتا ہے، تاہم سمندری جنگوں کا جو وسیع تجربہ امریکی نیوی کے پاس ہے، وہ کسی اور نیوی کے پاس نہیں۔ 

رُوسی نیوی کے پاس اکلوتا طیّارہ بردار جہاز ہے، جو پچھلے کئی برس سے متعدد نقائص کی بنا پر محاذِ جنگ پر جانے کے قابل نہیں رہا۔ اسی طرح چین کی بحریہ بھی ایک طاقت وَر بحریہ ہے، مگر اس کے پاس بھی دُنیابَھرمیں جنگوں کا وسیع تجربہ نہیں اور یہی معاملہ بھارتی نیوی کا بھی ہے۔