رمضان کے بابرکت مہینے میں پردیس رہنے والے مسلمان روزے، تراویح اور عبادات بھر پور طریقےسے ادا کرتےہیں۔ امریکہ میں بھی تمام چھوٹے بڑے شہروں کی مساجد میں افطاری اور ڈنر کا بندوبست مسلم کمیونٹی کے افراد مل بانٹ کر کرتے ہیں جن میں فیملیز خصوصاً بچے بڑی خوشی سے شرکت کرتے ہیں اور اس بھائی چارے کے ماحول میں اسلامی تعلیمات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ پاکستانی امریکن خواتین اور بچیاں عید کی تقریبات کیلئے پاکستان سے مشہور برانڈز کے ملبوسات تیار کرواتی ہیں یا آن لائن آرڈر کرکے ڈیلیوری کروا لیتی ہیں۔ چاند رات اور عید میلوں میں مہندی، کپڑوں اور فوڈز کے اسٹالز لگتے ہیں ،جہاں پر رونق ماحول میں ذوق و شوق کے ساتھ خریداری کی جاتی ہے۔ نیویارک، نیوجرسی، واشنگٹن، ہیوسٹن، ڈیلس اور شکاگو جیسے بڑے شہروں میں جہاں پاکستانی بڑی تعداد میں آباد ہیں بڑی تقریبات اور میلے رمضان کے اختتام اور سپرنگ سیزن کے آغاز پر منعقد ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک میں امریکی صدر کی طرف سے وائٹ ہاؤس اور مقامی حکومتوںاورسرکاری اداروں میں مسلم کمیونٹی کیلئے خصوصی افطار ڈنرز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مسلم فلاحی تنظیمیں رمضان اور عید کے موقع پر لوگوں میں فری راشن اور تیار کھانے تقسیم کرتی ہیں۔ اوورسیز پاکستانی عزیز و اقارب کو پیسے اور عید گفٹ بھجوانے کے علاوہ خطیر رقوم چیریٹی کی مد میں مستحقین کو اپنے وطن بھیجتے ہیں اور خود نمائی سے گریز کرتے ہیں۔یوں تو امریکہ میں بندوقی تشدد ، منشیات، سائبر کرائمز، نسلی امتیاز، علاج معالجے، ماحولیاتی تبدیلی اور غیر قانونی تارکین وطن کی موجودگی جیسے مسائل موجود ہیں مگر ملکی سطح پر اسرائیل فلسطین تنازع، یوکرین روس جنگ اور نومبر میں ہونے والے صدارتی الیکشن نہ صر ف امریکی عوام بلکہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں مضبوط اور متمول بااثر یہودی لابی کی موجودگی میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے کھل کر اسرائیل کا ساتھ دیا خصوصاً بائیڈن ایڈ منسٹریشن نے حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیلی بربریت کا بھرپور ساتھ دیا تاہم امریکی نوجوان نسل کے جنگ مخالف جذبات نے صدر جو بائیڈن اور اسکی جماعت کو اپنا موقف بتدریج بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ واضح رہے ڈیموکریٹک پارٹی کی اصل قوت اعتدال پسند نوجوان ووٹرز ہیں جنکی حمایت کے بغیر وہ اقتدار میں نہیں آسکتے۔ سیکورٹی کونسل میں سیز فائر کے حق میں حالیہ ریزولوشن میں امریکہ کا ووٹ نہ ڈالنے یا ویٹو کرنے سے گریز، امریکی حکومت کا جنگ بندی کیلئے اسرائیلی حکومت پر دباؤ اور صدر جو بائیڈن کی طرف سے غزہ کے شہر رفح پر ممکنہ اسرائیلی حملے کی مخالفت کچھ حد تک بدلتی امریکی پالیسی کی غمازی کر رہی ہے۔ اگر ڈیموکریٹک پارٹی کو نومبر میں کانگریس کا الیکشن جیتنا ہے اور صدر جو بائیڈن کو دوبارہ صدر منتخب ہونا ہے تو انھیں مشرقِ وسطیٰ میں ا من کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرنے کیلئے دباؤ بڑھانا ہوگا۔ ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام کنزرویٹیو امریکیوں میں خاصے مقبول ہیں تاہم معاشی محاذ پر اپنے مخالف صدر بائیڈن کو رگیدنے میں انھیں مشکلات کا سامنا ہے چنانچہ انھیں صدر بائیڈن کی پیرانہ سالی اور غیرقانونی تارکین وطن کی امریکہ آمد جیسے معاملات پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے۔ صدر بائیڈن کے دور حکومت میں افراط زر کمتر سطح پر ہے، بیروز گاری کی شرح بھی انتہائی کم ہے، ملک معاشی ترقی کی طرف گامزن ہے اور اس ترقی و خوشحالی میں تارکین وطن کی محنت بھی شامل ہے۔ امریکہ کی بے تحاشہ منافع کمانے والی بڑی کارپوریشنز اور دولت مندوں کی کوشش ہے کہ ٹرمپ کو دوبارہ صدر منتخب کروایا جائے تا کہ ان کو سابق صدر ٹرمپ کی طرف سے دیا جانے والا ٹیکس ریلیف برقرار رہےجبکہ لبرل نوجوان امریکیوں اور مینارٹیز کی بڑی تعداد صدر بائیڈن کی پالیسیوں کا تسلسل چاہتی ہے جس میں سب سے بڑی سہولت فری علاج معالجے کی ہے۔ اگرچہ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے مگر اسی دور میں نوکریوں کی بہتات ہے اور عام لوگوں کی تنخواہوں اور آمدنی میں اضافہ ہوا ہے جس کا فائدہ موجودہ بائیڈن حکومت کو ہوگا۔ روس اور بعض دوسرے تیل پیدا کرنیوالے ممالک تیل کی قیمتوں میں اضافہ چاہتے ہیں تاکہ امریکی معیشت کو کمزور کیاجا سکے جس کا فائدہ سابق صدر ٹرمپ اٹھا سکیں۔ مشرق وسطیٰ میں جنگی صورتحال بھی تیل کی سپلائی اور قیمتوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ پاکستان امریکہ تعلقات امریکی صدر کی دوبارہ کامیابی یا تبدیلی سے مشروط نہیں بلکہ ان کو چین، افغانستان اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات اور ڈیلنگ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)