اس وقت میڈیا کے تمام پلیٹ فارم پر تواتر سے ایک ہی بات کی جا رہی ہے کہ دنیا تیزی سے تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھ رہی ہے۔روس اور یوکرین کی جنگ کے آغاز پر ایلون مسک نے بھی تیسری جنگ عظیم کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔پھر روسی صدر پیوٹن نے بھی اس تاثر کو تقویت دی اور کہا تیسری عالمی جنگ کے دو فریق ہوں گے روس،چین،ایران،یمن،شمالی کوریا ایک طرف ہوں گے جبکہ نیٹو،امریکہ،اسرائیل،اوربرطانیہ دوسری طرف۔ اسرائیل پر ایرانی حملے کے بعد ان خبروں میں مزید تیزی آگئی۔ تا ہم ایرانی حکومت نے اپنے ایک بیان میں واضح طور پر اس حملے کی غرض و غایت اور مقاصد بیان کر دیے۔ایران کے بیان سے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ حملہ فلسطینیوں کی محبت میں نہیں بلکہ شام میں یکم اپریل کو ہونے والے ایرانی سفارت خانے پر حملے کے رد عمل کے طور پر کیا گیا ۔ایرانی انتظامیہ کے بقول انہوں نے اسرائیل میں 50 فیصد اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا جبکہ اسرائیل امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل میں ان میزائل حملوں سے کوئی نقصان نہیں ہوا اور تمام میزائل فضا میں ہی ناکارہ بنا دیے گئے۔ایران ماضی میں بھی اسرائیل پر ’’محفوظ‘‘ حملے کرتا رہا ہے۔عالمی مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ ان’’دوستانہ ‘‘کارروائیوں سے تو عالمی امن کو خطرات لاحق نہیں لیکن غزہ میں افسوسناک انسانی المیہ کسی بڑے تصادم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔یوں تو عالمی سفارت کاری تہ در تہ اثرات رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود غزہ کی صورتحال ایک مختلف توجہ کا تقاضا کرتی ہے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کو درمیان میں سےکاٹ دیا ہے۔اب شمالی اور جنوبی غزہ میں باہمی رابطہ ختم ہو چکا ہے اور پٹی کے سب سے بڑے شہر غزہ کا محاصرہ اسرائیل نے مکمل کیا ہوا ہے۔شمالی غزہ کی مجموعی 10 لاکھ آبادی میں سے 6 لاکھ سے زائد افراد مختلف ہسپتالوں،ا سکولوں، مساجد اور اقوام متحدہ کے شیلٹر ہومزمیں پناہ لیے ہوئے ہیں انکے گھر یا تو ملیا میٹ ہو چکے ہیں یا وہ گھر رہائش کے قابل نہیںرہے۔غزہ کی معاشرت کا یہ عالم ہے کہ وہاں پر پینے کا پانی دستیاب نہیں اور اگر کسی جگہ پر پانی کے ذخائر موجود ہیں تو اسرائیلی افواج کبھی ان میں زہر ملنے کی افواہیں پھیلا دیتی ہیں اور کبھی واقعتاً زہر ملا بھی دیتی ہیں۔غزہ کے شہری ہر قسم کی غذا سے محروم ہیں،صاف پانی ان کے مقدر میں نہیں، صاف ہوا اسرائیلی بمبار طیاروں نے اپنے بموں سے آلودہ کر دی ہے۔ایران کے اسرائیل پر مبینہ حملے کے بعد اسرائیلی درخواست پر طلب کیا جانے والا سلامتی کونسل کابے نتیجہ اجلاس معمول کی کارروائی کے بعد ملتوی ہو گیا ہے۔ایران نے اپنے میزائل داغنے کے بعد یہ بیان جاری کیا کہ اب اس معاملے کو ختم سمجھا جائے۔دراصل یہ پیغام امریکہ اور اسکے تمام اتحادیوں کیلئے تھا کہ ہماری کارروائی کا مقصد فلسطینیوں کی حمایت سے زیادہ دمشق میں موجود ایرانی سفارت خانے پر حملے کا ’’محفوظ‘‘بدلہ لینا تھا۔
دوسری طرف دنیا کے مختلف مقامات پر جنگ کی چنگاریاں سلگ رہی ہیں روس اور یوکرائن جنگ پوری دنیا کیلئے ایک خطرہ بن چکی ہے ان حالات میں اسرائیلی جارحیت نے عالمی امن کو ایک اور خطرہ لاحق کر دیا ہے۔فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی بربریت اور درندگی کے واقعات نے انسانیت کو شرمندہ کر دیا ہے۔معصوم بچوں کی لاشیں وہاں کے کتے اپنے منہ میں اٹھائے پھرتے ہیں،بغیر کفن کے شہداء کو دفن کرنا وہاں کا معمول بن چکا ہے،غزہ کے غیر مسلح شہریوں کو علاج معالجے کی سہولیات دستیاب نہیں غزہ کے تقریباً تمام ہسپتال اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں،تمام عالمی طاقتیں اسرائیلی اقدامات سے صرف نظر کر رہی ہیں،اب تو فلسطین سے محبت رکھنے والا ہر شخص دبے لفظوں میں یہ پوچھ رہا ہے کہ حماس کی کارروائی آخر کس کے اشارے پر کی گئی،کہیں ایسا تو نہیں کہ ایران کی جانب سے کیا گیا حملہ اسی کارروائی کا ایک تسلسل ہے کہ جس سے غزہ کے مسئلے کو جڑ سے ہی اکھاڑ کر پھینکنے کا موقع فراہم کیا جائے یا پھر اسرائیل کو مزید مظالم کا جواز مہیا کیا جا سکے،پاکستان جغرافیائی طور پر انتہائی حساس جگہ پر واقع ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی کسی بھی کشیدگی کےاثرات سے پاکستان محفوظ نہیں رہ سکتا۔دفتر خارجہ نے اگرچہ انتہائی محتاط رد عمل کا اظہار کیا ہے۔لیکن ایران کے ہمسایہ ہونے کے ناطے ہم ان شعلوں کی گرمی سے محفوظ نہیں رہ سکتے جو ایران اسرائیل جنگ کی صورت میں بلند ہو سکتے ہیں۔22اپریل کو ایرانی صدر کا دورہ پاکستان بھی متوقع ہے جس میں متعدد منصوبوں پر پیش رفت کا امکان ہے۔آج جبکہ پوری دنیا جنگ کے شعلوں سے دہک رہی ہے،فلسطین میں انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے،ان حالات میں پاکستان کے عین ہمسائے سے اسرائیل پر حملہ اور اسرائیل کے ایران پر جوابی حملوں کی صورت میں پورا خطہ کس طرح کی جنگ میں لپیٹ آسکتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان مشرقِ وسطیٰ کے مختلف تنازعات میں جس طرح حصہ نہ لینے کی پالیسی پر کاربند رہا ہے توقع ہے کہ پاکستان کی مقتدرہ اسی پالیسی پر گامزن رہے گی اور متوقع عالمی جنگ کے خطرات اور اثرات سے پاکستان کو محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔اگر امریکہ اور عالمی بڑے سر جوڑ کر نہ بیٹھے تو دنیا کو ایک خطرناک تیسری جنگ عظیم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کی تباہی کا اندازہ لگا کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کو جنگ کی طرف دھکیلنے کے بجائے امن کا راستہ اختیار کیا جائے اور تمام تنازعات مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کی جائے۔