یکم اپریل 2024کے اسرائیلی حملے کے جواب میں جس کے نتیجے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12افراد شہید ہوگئے تھے،ایران نے 13اپریل کو اس کا بدلہ لیتے ہوئے اسرائیل پر 100سے زیادہ ڈرون اور میزائل داغے ۔اس کے تقریباً ایک ہفتے بعد عالمی برادری کی مخالفت کے باوجود اسرائیل نے جمعہ کے روز علی الصبح ایرانی شہر اصفہان کے قریب تین ڈرون حملے کئےتاہم انھیں ایرانی دفاعی نظام نے ناکارہ بنادیا۔ ایرانی حکام کے مطابق حملے میں اس کی جوہری تنصیبات محفوظ رہیں، صورتحال کنٹرول میں ہے جبکہ ملک بھر میں تمام پروازیں عارضی بندش کے بعد بحال کردی گئی ہیں۔ایرانی ذرائع کے مطابق اس کا اسرائیل کے خلاف فوری کارروائی کا کوئی منصوبہ نہیں۔اس سے قبل ایرانی حملے کے بعد اسرائیلی کابینہ متذکرہ کارروائی کرنے کے حوالے سے مخمصے میں پڑی رہی۔اس دوران امریکہ جو درپردہ اسرائیل کے ایران پر حملے کے حق میں ہے،صدر جوبائیڈن نےاسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو پر واضح کیا تھا کہ امریکہ ایران کے خلاف کارروائی میں براہ راست حصہ نہیں لےگا۔جمعہ کے روز امریکی نشریاتی ادارے نےسرکاری حکام کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیلی حملوں میں اصفہان کے قریب جوہری تنصیبات کے تحفظ پر مامور ایرانی میزائل بیٹریوں کو نشانہ بنایا گیا ۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس حملے کا مقصد ایران کو اسرائیلی صلاحیتوں کے بارے میں اشارہ دینا تھالیکن کشیدگی بڑھانا نہیں تھا۔حماس نے ایران پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئےکہا ہے کہ اس سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھے گی۔اقوام متحدہ نے اس کارروائی کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اسے روکنے پر زور دیا ہے۔چین، روس اوریورپی یونین نے الگ الگ طور پر ایران اور اسرائیل سے کشیدگی ختم اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہا ہے۔ان کے مطابق پیدا شدہ صورتحال کسی کے مفاد میں نہیں۔عالمی توانائی ایجنسی نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی حملوں کے بعد ایرانی جوہری تنصیبات بدستور محفوظ ہیں۔پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق ایران پر اسرائیلی حملوں کا جائزہ لیا جارہا ہے ۔یہاں یہ بھی واضح ہو کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق تین روز بعد اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ پاکستان کے سرکاری دورے پر آرہے ہیں۔امریکہ اگر ایک طرف اس جنگ کا حصہ نہ بننے کا دعویٰ کر رہا ہے تو دوسری طرف اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فراہم کرنے جارہا ہے، ایک بین الاقوامی میگزین کے مطابق دونوں کے درمیان جو معاہدے ہونے جارہے ہیں ، ان میں جنگی سازوسامان، جس کی کل مالیت 1.3ارب ڈالر ہے ،نہتے فلسطینیوں اور ایران کے خلاف ممکنہ طور پر استعمال ہوگا۔ایران اپنے دفاعی بجٹ میں اسرائیل سے پیچھے، تاہم فوجیوں کی تعداد میں بھاری،اسرائیل کادفاعی بجٹ 67کھرب 66ارب جبکہ ایران 27کھرب 60ارب روپے کا حامل ہے۔اسرائیل 612جبکہ ایران کے پاس 551طیارے ہیں،اسرائیل کے پاس جنگی بحری جہازوں کی تعداد 67اور ایران کے پاس 101جہازوں کا بیڑا ہے۔عالمی میڈیا کے مطابق اسرائیل کے پاس اس وقت 80ایٹم بم ہیں جبکہ ایران کے پاس سرکاری اطلاعات کے مطابق کوئی نہیں۔محل وقوع کے مطابق ایران کے مغرب میں عراق، اردن اور شام کے ممالک اسے اسرائیل سے ملاتےہیں۔مشرق وسطیٰ گنجان آباد خطے پر مشتمل ہے اور اس میں شامل بیشتر ممالک تیل کی خطیرپیداوار کے حامل ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جو 70سالہ دیرینہ فلسطین کا مسئلہ حل کرنے میں تاحال ناکام ہے،اگر ایران اسرائیل کشیدگی کے حوالے سے بھی یہی حال رہا تو دنیا میں امن کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔