اگر یہ کہا جائے کہ ہم ،خاص طور پر اقتصادی معاملات میں ،وقت کے ساتھ ہم قدم نہ ہو پائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ہم نے نہ اپنی جز وقتی یا طویل مدتی پالیسیاں بنائیں اور نہ ہی تجارتی و اقتصادی مراسم بڑھانے پر توجہ دی ،یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی کساد بازاری کے بعد پاکستان ڈیفالٹ ہونے تک پہنچ گیا تھا ۔پاکستان کی معاشی حالت اب بھی کوئی قابل رشک نہیں کہ اسے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے ،تاہم اس دوران اس خبر کی صورت تازہ ہوا کااک جھونکا یہ آیا ہے کہ پاکستان اورایران نے مشترکہ خصوصی اقتصادی زون کےقیام کا فیصلہ کرلیا ہے۔کابینہ نے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کی منظوری دیدی ، دستخط ایرانی صدر کے دورہ کے دوران کیے جائینگے جو 22 سے 24اپریل کے دوران شیڈول ہے،شنید ہےکہ دونوں ممالک نےمفاہمتی یادداشت کےمسودے کو حتمی شکل دیدی ہے ۔پاک ایران مشترکہ خصوصی اقتصادی زون گورنمنٹ ٹوگورنمنٹ سطح پر ریمدان-گبد سرحد پر قائم کیا جائے گا۔خصوصی اقتصادی زون کےقیام سےدونوں ممالک کےدرمیان معاشی تعلقات کومزیدوسعت ملے گی۔حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستان کی جانب سے ایران کیلئے ٹیکسٹائل، زرعی مصنوعات، فارماسیوٹیکلز،آئرن اور اسٹیل مصنوعات برآمد کی جاسکتی ہیں۔اسی طرح مشترکہ خصوصی اقتصادی زون میں درآمدات کے متبادل اشیاء والی صنعتوں کا قیام عمل میں لاکر جاری کھاتوں پر دباؤ کم کیا جاسکتا ہے۔پاکستان سر دست جن معاشی بحرانوں میں گھرا ہے ان سے نبرد آزمائی اسی صورت ممکن ہے کہ وہ نہ صرف خطے میں بلکہ پوری دنیا کے ساتھ اقتصادی و معاشی مراسم بڑھائے،اس کی ابتدا اگر ہمسایہ ممالک سے ہو تو یہ اپنے ساتھ امن کی نوید بھی لائیں گے ۔پاکستان کو کسی کے بھی دبائو میں آئے بغیر اپنی ضروریات اور اپنے مفادات کو مقدم رکھنا ہو گا۔