• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند ہفتے قبل ایشیا کے سب سے امیر شخص مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی سب کو یاد ہوگی ۔ایک تقریب کے دوران انکشاف ہوا کہ اننت امبانی مسلسل لا علاج بیماری کی وجہ سے سٹیرائیڈ کھانے پر مجبور ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بے تحاشا فربہ ہو چکا ۔ اس دوران کیمرہ جب مکیش امبانی کی طرف گیا تو بے بسی سے وہ آنسوئوں کے ساتھ رو رہا تھا۔اس کی دولت بیٹے کی لاعلاج بیماری کا کوئی حل نہ نکال سکی ۔ انسان بے بس ہے ۔ سب انسان بے بس ہیں ۔ یہ ہے زندگی ۔ سب سے اہم سبق اس میں یہ ہے کہ آپ اس دنیا میں اپنی زندگی کو ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ نہیں بنا سکتے ، خواہ کتنی ہی دولت آپ کے پاس موجود ہو ۔ بلڈ پریشر گرے گا تو تکلیف ہوگی۔ شوگر بڑھے گی تو تکلیف ہوگی ۔ موٹاپا آلگے تو بیماریاں شروع ۔ کوئی جنیاتی نقص، ساری زندگی تکلیف ۔ ایک وقت میں آ پ باکسر محمد علی کی طرح طاقت کا نمونہ ہوں تو اس کی بیماری بھی پھر آپ کے سامنے ہوگی ۔

یوں بُنی ہیں رگیں جسم کی

ایک نس ٹس سے مس اور بس

زمین پر سیٹل ہونے کے بعد انسان نے خوراک ذخیرہ کرنا شروع کی ۔ جب مستقل پیٹ بھر کے کھانا شروع کیا تو آہستہ آہستہ وزن بڑھنا شروع ہوا۔خاص طور پر اس وقت، جب انجن اور پہیے سمیت مشینی ایجادات کی بھرمار ہو گئی ۔ جو لوگ مالی طور پر مضبوط تھے، انہوں نے ہر جسمانی کام کیلئے ملازم رکھ لیے۔ بڑھتے بڑھتے چربی کے انبار تیس چالیس کلو گرام اضافی وزن کی صورت میں تبدیل ہونے لگے، جسے اٹھائے رکھنا ایک شدید مشقت کا کام ہے۔ انسان تیس چالیس کلو چربی اٹھانے پر مجبورہو جاتا ہے ۔پھر بھی اس سے نجات کی کوشش نہیں کرتا۔ بعض لوگوں میں جینیاتی طور پر موٹاپا والدین سے ورثے میں ملتا ہے۔ ان میں بچپن ہی سے موٹا پے کارجحان ہوتا ہے لیکن بیشتر میں یہ 25، 26سال کی عمر کے بعد شروع ہوتا ہے۔ جب قد بڑھنے کی عمر مکمل ہو جاتی ہے ۔کھانے کے ہر لقمے سے حاصل ہونے والی توانائی جسے آپ جسمانی کام کرکے ختم نہ کر سکیں، وہ جمع ہوتی رہتی ہے۔ جب ساڑھے سات ہزار کیلوریز اکٹھی ہوچکتی ہیں، تو وزن ایک کلو گرام بڑھ چکا ہوتا ہے۔ اس امر پر خصوصی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے کہ بڑھنے کی عمر تک جسم کو خوراک کی ضرورت کچھ اور طرح کی ہوتی ہے۔ اس کے بعد خوراک کم کر دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہمارا کھانا یہ ہے کہ دن میں تین بار تین تین گندم کی روٹیاں بلکہ گھی سے بھرپور پراٹھے ۔ ساتھ تلے ہوئے آلو اور سافٹ ڈرنکس۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ سافٹ ڈرنک کیا ہے؟ وہ پانی جس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بھری جاتی ہے۔ ایک گلاس مشروب میں بیس اکیس چمچ چینی۔ زبان کا چٹخارا پورا ہونا چاہیے، جسم کا چاہے جو بھی حال ہو ۔ اربوں روپے مالیت کا جو جسم آپ کو دیا گیا ہے۔یہ اگر شوگر سے ناکارہ ہو جاتا ہے یا رگوں میں چربی جم جائے ، ہائی بلڈ پریشر سے اگر گردوں کو نقصان پہنچتا ہے تو بھی پریشانی کی کیا بات ہے۔ یہ جسم ہمیں خدا کی طرف سے مفت ملا ہے ۔ ایک وائرل ہو جانے والی وڈیو میں ایک شخص گھی کا پورا کنستر آگ پر رکھے ایک بہت بڑے برتن میں انڈیل رہا تھا ۔عبارت یہ لکھی تھی کہ پھر لوگ حیران ہوتے ہیں کہ رات کو اچھا بھلا کھانا کھا کے سویا تھا ۔ صبح مر کیسے گیا۔ یہ وہ صورتِ حال ہے، جس میں تیس کے پیٹے میں وزن بڑھنا شروع ہوتا ہے، چالیس کے پیٹے میں اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور پچاس کو چھوتے ہوئے آپ بلڈ پریشر اور شوگر دونو ںکے مریض بن چکتے ہیں۔ پچاس سال کی عمر میں آپ کا جسم اس قدر کمزور ہو چکا ہوتا ہے، جتنا اسے 90برس کی عمر میں ہونا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ 70برس کی عمر میں کام کرنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔چار قدم بھی انسان پیدل چل نہیں سکتا کہ سانس اکھڑنے لگتا ہے۔ اضافی وزن کے نتیجے میں جب ریڑھ کی ہڈی پر بوجھ پڑتا ہے تو اس کے کسی نہ کسی مہرے میں تکلیف شروع ہو جاتی ہے۔انسان کی ذائقے کی اعلیٰ حس کو بڑی بڑی کمپنیوں نے منافع کمانے کیلئے استعمال کیا۔ چینی، کاربونیٹڈ سافٹ ڈرنکس اور نت نئی ایسی چیزیں ایجاد کی گئیں، جو ذائقے کا چٹخارہ پورا کر دیتی ہیں۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم نے پھل کھانا چھوڑ دیے ۔ البتہ دکاندار سے مشروب مینگو یا ایپل فلیور ہی کا مانگتے ہیں ۔ یہ فلیور صرف اور صرف دھوکہ ہوتا ہے ۔ اس میں پھل کی کوئی غذائیت موجود نہیں ہوتی ۔کسی فاسٹ فوڈ ریستوران چلے جائیں۔ آپ کو برگر اور ایسی دوسری تلی ہوئی چیزیں مل جائیں گی، جو بہت مزیدار ہوں گی۔آلو تیل کواسفنج کی طرح چوس لیتا ہے۔ سونے پر سہاگا یہ کہ جسمانی کام کی ضرورت نہیں۔ نوکررکھ لیجیے۔ ایسے بھی گھر ہیں، جہاں گھر والے چار عدد اورملازم پانچ عدد ہیں۔ وہ گھر تو پھر ملازموں کا ہی ہے۔ Privacyمکمل طور پر ختم ۔وہ وقت جو انسان خود اپنے کاموں میں صرف کر سکتا تھا، وہ اب نوکروں کو ڈیل کرنے میں صرف ہوتا ہے۔

یہ زندگی نہیں، زندگی کی نقالی ہے۔ یہ زندہ رہنے کا دھوکہ ہے۔درحقیقت ہم مر چکے ۔زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی کوشش میں ہم خود کو کئی طرح کے عذابوں میں پھنسا چکے ۔ دنیا خدا نے آسان بنائی ہی نہیں تو انسان کیسے اسے آسان بنا سکتاہے۔

تازہ ترین