دنیا کی بدترین قوم: سورۃ البقرہ کی متعدد آیات میں بنی اسرائیل کی تاریخی سرگزشت بیان کرنے کے بعد مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ جن لوگوں کی سابقہ روایات حکم عدولی، منافقت، فریب پر مبنی رہی ہیں، ان سے لمبی، چوڑی توقعات نہ رکھو، ورنہ جب ان کے پتھر دلوں سے تمہاری دعوتِ حق ٹکرا کر واپس آئے گی، تو تم دل شکستہ ہوجائوگے۔ یہ لوگ تو صدیوں سے بگڑے ہوئے ہیں۔ اللہ کی جن آیات کو سن کر تم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، اُنہی سے کھیلتے، تمسخر کرتے، مذاق اڑاتے، اُن کی نسلیں بیت گئی ہیں۔
دینِ حق کو مسخ کرکے انہوں نے اللہ کے فرمان کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال لیا ہے اور اب ان کی دینی اور اخلاقی پستی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ یہ اپنے مفروضات اور اپنی خواہشات کے مطابق گھڑی ہوئی بے سروپا باتوں کو دین سمجھے بیٹھے ہیں اور جھوٹی توقعات کے بل بُوتے پر اپنے آپ کو جنّت کا ٹھیکے دار سمجھنے لگے ہیں۔ ان کی خود فریبی، خوش فہمی اور جسارت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ بمطابق ارشادِ الٰہی یہ کہتے ہیں کہ ’’دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں، لیکن اگر جہنم میں گئے بھی تو محض چند دنوں ہی کے لیے جائیں گے۔ ان سے کہو کہ کیا تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا کوئی پروانہ ہے۔‘‘ (تفسیر، سورۃ البقرہ، آیت 79)۔
گویل قبیلے نے یہودیوں کی منافقت کا پردہ چاک کردیا: شعبان 2ہجری، فروری 624عیسوی میں تحویلِ قبلہ کے سلسلے میں حکمِ الٰہی نازل ہوا کہ بیت المقدس کے بجائے قبلہ، خانہ کعبہ کو بنایا جائے، چناں چہ کعبۂ ابراہیمی ؑکی جانب منہ کرکے نماز ادا کی جانے لگی۔ اس کا ایک بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ کم زور اور منافق یہود جو مسلمانوں کی صفوں میں محض اضطراب و انتشار پھیلانے کے لیے داخل ہوگئے تھے، کھل کر سامنے آگئے۔ اس طرح مسلمانوں کی جماعت بہت سے غداروں اور منافقین سے پاک ہوگئی۔
احبار یہود اپنی خباثتِ نفس کے اظہار کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا۔ ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپؐ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ میرا دین اور ملّتِ ابراہیمیؑ ایک ہی ہیں، تو پھر آپؐ نے اپنا قبلہ شام سے کعبہ میں کیوں تبدیل کیا؟ اگر آپؐ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپؐ کے دین میں آئیں تو پھر آپؐ کو قبلہ سابقہ طریقے کے مطابق تبدیل کرنا ہوگا۔‘‘ اس تجویز سے ان کا مقصد اسلامی معاشرے کو فتنے میں مبتلا کرنا تھا، چناں چہ اللہ نے ان کی اس خباثت اور بدنیتی کو سورۃ البقرہ کی آیات 142 تا 145 میں آشکار فرما دیا۔
سورۃ الاخلاص کا نزول: یہودیوں کی ایک اور جماعت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا، ’’ہم یہ جانتے ہیں کہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے خلق فرمایا ہے، لیکن آپ ؐ ہمیں یہ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟‘‘ ان کی یہ خرافات سن کرمزاجِ نبویؐ برہم ہوا۔ اس وقت جبرائیلِ امین، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے ’’سورئہ اخلاص‘‘ لے کر نازل ہوئے اور کہا۔ ’’اے نبی مکرمؐ! آپ ان کی ہرزہ سرائی پر رنجیدہ نہ ہوں، آپؐ انہیں یہ جواب دیں کہ ’’اللہ تعالیٰ یکتا ہے، بے نیاز ہے، وہ نہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے، نہ کوئی اس کا ہم سر ہے۔‘‘ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سورہ اخلاص سنائی تو بولے، ’’ہم یہ تو جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پروردگار ہے اور اس کو کسی نے پیدا نہیں کیا، لیکن آپؐ ہمیں یہ بتائیں کہ وہ کیسا ہے؟‘‘ اس موقعے پر ایک مرتبہ پھر حضرت جبرائیلؑ ’’سورئہ زمر‘‘ کی آیات لے کر حاضر ہوئے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ایسی قدردانی نہیں کی، جیسا کہ اس کا حق ہے اور قیامت کے دن تمام زمینیں اس کے قبضۂ قدرت میں ہوں گی اور تمام آسمان اس کے دائیں دستِ قدرت میں لپٹے ہوئے ہوں گے اور جس کو وہ (اُس کا) شریک ٹھہراتے ہیں، وہ اس سے بلند ہے۔ پاک اور برتر ہے۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ انہیں بتا دیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہم و گمان سے ارفع و اعلیٰ ہے اور اس کے احکامات کو تقدیر و مامور نہیں کیا جاسکتا۔ نہ اس کی حقیقت وہم و گمان میں سما سکتی ہے اور نہ ہی اس کی مثال کا تصوّر کیا جاسکتا ہے۔‘‘ (سیرتِ ابن اسحاق، جلد 2 ،صفحات 369، 368)۔
جادو، سحر پر مبنی مذہبی وقار کا زوال: یہودیوں کے تین مشہور قبائل میں بنو قینقاع ویسے تو پیشے کے اعتبار سے زری گر اور سنار تھے، لیکن یہ سب سے زیادہ بہادر اور شجیع بھی تھے۔ اُن کی حویلیاں اور قلعے جنگی اسلحے سے بَھرے رہتے تھے۔ انصار عموماً اُن کے مقروض اور زیربار رہتے کہ یہود کے سودی کاروبار کے جال نے انصار کو بری طرح جکڑرکھا تھا۔ یوں بھی انصار، مالی طور پر اُن سے کم زور ہونے کے ساتھ ساتھ بُت پرست اور ناخواندہ تھے۔ یہودیوں کے جادوٹونوں کے سبب وہ انہیں خود سے زیادہ مہذّب اور شائستہ سمجھتے ہوئے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ جن لوگوں کے بچّے زندہ نہیں رہتے تھے، وہ منّت مانتے کہ اگر ہمارا بچّہ زندہ رہا، تو ہم اُسے یہودی بنادیں گے۔
چناں چہ مشرکین میں یہودیت بتدریج پھیل رہی تھی، یہاں تک کہ قرضوں کی کفالت میں لوگوں کے بال بچّے اور خواتین بھی رہن رکھوالیتے۔ دولت کی فروانی کے سبب زنا اور بدکاری بھی عام تھی، جس کو یہ برا نہیں سمجھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد مدینے میں ایک اصلاحی انقلاب آیا اور یہودیوں کی وہ تمام عاداتِ خبیثہ، جو مالت و دولت، مذہبی پیشوائی اور جادو ٹونے کے کمالات کے پیچھے چھپی ہوئی تھیں، آشکار ہونے لگیں۔ جوں جوں اسلام پھیلتا جارہا تھا، یہودیوں کا مدّتوں سے قائم جھوٹ و فریب اور جادو، سحر پر مبنی مذہبی وقار زوال پذیر ہورہا تھا، جو اُن کے لیے سخت پریشانی اور اذیّت کا باعث تھا۔
بنو قینقاع کے یہودیوں کی جلا وطنی: بدر کی فتح نے جہاں ایک طرف قریشِ مکّہ کو اپنی پوری قیادت اور جنگجو رہنمائوں سے محروم کردیا تھا، وہاں دوسری طرف وہ یہودیوں کے لیے بھی ایک خوف ناک خواب تھی، جس نے مدینہ میں اُن کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ یہود قبائل میں بنو قینقاع ہی سب سے جری اور بہادر تھے۔
چناں چہ سب سے پہلے انہوں نے ہی اعلانِ جنگ کی جرأت کی اور معاہدہ توڑ ڈالا۔ یہ شوال دو ہجری کی بات ہے کہ ایک انصاری کی اہلیہ جو حجاب میں تھیں، مدینہ کے بازار میں ایک یہودی کی دکان پر آئیں، حسبِ عادت یہودی نے ان کی بے حرمتی کی، لیکن اب حالات تبدیل ہوچکے تھے، ایک انصار مسلمان یہ دیکھ کر غیرت سے بے تاب ہوگیا، اس نے یہودی کو قتل کر ڈالا۔
جس پر تمام یہودیوں نے مل کر اس مسلمان کو قتل کر ڈالا۔ دراصل بنو قینقاع کے یہودیوں کی سرکشی شدّت اختیار کرچکی تھی۔ ان کی شرارتیں، خباثتیں اور مسلمان خواتین سے چھیڑ چھاڑ اور بے حرمتی کے واقعات بڑھتے ہی چلے جارہے تھے۔ بنو قینقاع، مدینہ شہر کے اندر رہائش پذیر تھے۔
آنحضرتؐ نے بارہا ان لوگوں کو درس و نصیحت کی اور انہیں رشد و ہدایت کی دعوت دیتے ہوئے شریفانہ زندگی گزارنے کی تاکید کی، جب کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق صحابہؓ ان کے ہر ظلم و ستم کو برداشت کرتے رہے، لیکن جب معاملہ نقضِ امن، بغاوت اور مسلمان خواتین کی سرِعام بے حرمتی تک پہنچ گیا، تو صحابہ کرامؓ کے اصرار پر آپؐ نے انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ فرمایا اور مجاہدین کے ایک لشکر کے ساتھ بنو قینقاع کا رُخ کیا۔
یہودیوں نے جب آپ ؐ کو دیکھا تو قلعہ بند ہوگئے۔ آپؐ نے سختی کے ساتھ اُن کا محاصرہ کرلیا، جو پندرہ دن تک جاری رہا، لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کے دِلوں میں رُعب ڈال دیا اور انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ مجاہدین نے اُن سب کو گرفتار کرلیا۔ اس موقعے پر عبداللہ بن ابی نے منافقانہ کردار ادا کیا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت اصرار کرکے اُن سب کی جاں بخشی کروادی۔ آپؐ نے انہیں حکم دیا کہ فوری طور پر مدینہ سے دُور چلے جائیں، چناں چہ یہ سب ملک شام کی جانب کُوچ کرگئے اور تھوڑے ہی دنوں بعد اُن میں سے اکثر کی موت واقع ہوگئی۔ (ابنِ ہشام جلد 2 ص 47 تا 49)
حضوراکرمؐ کے قتل کی ناپاک سازش: رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ اور اس کے قُرب و جوار میں یہودیوں کے تین بڑے قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ یثرب کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ویسے تو یہ تینوں قبیلے ہی مسلم دشمنی، فتنہ انگیزی، عداوت و شرپسندی میں ایک سے بڑھ کر ایک تھے، لیکن ان تینوں میں سے بھی بنو قینقاع سب سے بڑے فسادی تھے۔ یہودیوں کا دوسرا بڑا قبیلہ بنو نضیر تھا، یہ قبیلہ مدینے کے اطراف بڑے بڑے قلعوں اور حویلیوں میں رہائش پذیر تھا اور اس کا سردار حئی بن اخطب تھا، جو یہودیوں کا مذہبی عالم بھی تھا۔
فتحِ خیبر کے دوران اس کی صاحب زادی، حضرت صفیہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئی تھیں۔ اس قبیلے نے نہایت گھنائونی سازش تیار کی اور نعوذباللہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ربیع الاوّل، 4ہجری کی بات ہے، اللہ کے نبی،ؐ بنو نضیر پر واجب الادا خوں بہا پر گفت و شنید کے لیے بنو نضیر کے پاس تشریف لے گئے۔ ان لوگوں نے آپ ؐ کو ایک گھر کی دیوار کے ساتھ بٹھادیا اور ایک بدبخت یہودی عمرو بن حجاش کو بھاری بھرکم چکّی دے کر بالا خانے پر چڑھادیا کہ وہ اس چکّی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر گرادے۔
ابھی یہ شخص اوپر چڑھا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے مطلع فرمادیا۔ آپ ؐ فوراً اٹھے اور مسجدِ نبویؐ روانہ ہوگئے۔ یہ حضورؐ کو قتل کرنے کی دوسری کوشش تھی۔ صحابہ کرامؓ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ وہ شدید غصّے کے عالم میں تھے، لیکن حضوراکرمؐ نے ان پر فوری حملہ کرنے کے بجائے صحابی محمد بن مسلمہ کے ذریعے الٹی میٹم دیا کہ دس دن کے اندر مدینے سے نکل جائو، ورنہ تم سے جنگ کی جائے گی۔ عبداللہ بن ابی نے یہودیوں کو پیغام بھیجا، ’’خبردار! مدینے سے نکلنے کی غلطی نہ کرنا، میرے دو ہزار جنگجو تمہارے ساتھ ہیں۔ بنی قریظہ اور بنی غطفان سمیت تمام یہودی مدد کو آئیں گے۔ ان کے خلاف ڈٹ جائو اور ہرگز اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔‘‘
ادھر قریشِ مکّہ نے بھی مکمل حمایت اور کمک بھیجنے کا یقین دلایا۔ یہودی سردار حئی بن اخطب کو اتنی زیادہ حمایت کی امید نہیں تھی۔ اُسے یقین تھا کہ سامنے سے ہم اور پیچھے سے ہزاروں منافق اور یہود جنگجو مل کر مسلمانوں کا قلع قمع کردیں گے۔ چناں چہ اُس نے الٹی میٹم کے جواب میں لکھ بھیجا کہ ہم تو یہاں سے نہیں نکلیں گے، آپ سے جو ہوسکے ،کرلیں۔ بنو نضیر کے بڑھتے ہوئے جرائم اور پھر بارہا آنحضرتؐ کے قتل کی کوششوں نے مسلمانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کردیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کا انتظام حضرت ابنِ امِ مکتوم کے حوالے کیا اور بنو نضیر کے علاقے کی طرف روانہ ہوگئے۔ جنگ کا علَم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ یہودیوں نے جب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، تو قلعہ بند ہوکر تیر برسانے لگے، اب انہیں بنو قریظہ اور بنو غطفان کے مسلح لشکر اور عبداللہ بن ابی کے دو ہزار جنگجوئوں کا شدّت سے انتظار تھا، لیکن اُن میں سے کوئی ایک بھی اُن کی مدد کو نہ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس واقعے کی مثال یوں بیان فرمائی ہے۔
ترجمہ: ’’جیسے شیطان انسان سے کہتا ہے کفر کرو اور جب وہ کفر کر بیٹھتا ہے، تو شیطان کہتا ہے، میں تم سے بَری ہوں۔‘‘ (سورۃ الحشر، آیت 16)۔ابھی محاصرے کو چند دن ہی ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں میں رعب ڈال دیا، اُن کے حوصلے ٹوٹ گئے اور یہ جاں بخشی کی صورت میں جلاوطنی پر آمادہ ہوگئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منظور فرمالیا اور انہیں یہ رعایت بھی دی کہ یہ لوگ اسلحےکے سوا باقی جتنا سامان اونٹوں پر لاد کر لے جاسکتے ہیں، لے جائیں۔ چناں چہ یہ اپنا سازو سامان چھے سو اونٹوں پر لاد کر خیبر کی جانب روانہ ہوگئے۔ قرآنِ کریم کی59ویں سورۃ الحشر یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر ہی کے حوالے سے نازل ہوئی۔ اِسی لیے اس سورت کو ’’سورۃ النضیر‘‘ بھی کہتے ہیں۔ (تفسیرسورۃ الحشر، مولانا صلاح الدین یوسف، صفحہ 1553)۔
بنو قریظہ کو غداری کی سزا: یہ لوگ غزوئہ احزاب کے دوران غداری کے مرتکب ہوئے تھے۔ امّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ خندق سے فارغ ہوکر گھر میں داخل ہی ہوئے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوگئے۔ اُن کا سر غبار سے اٹا ہوا تھا۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا۔ ’’آپؐ نے ہتھیار اتاردیے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی قسم میں نے تو ابھی نہیں اتارے۔‘‘ پھر حضوراکرمؐ نے دریافت فرمایا ’’تو اب کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ انہوں نے بنو قریظہ کی جانب اشارہ کیا۔
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں، ’’تو پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے خلاف لشکر کشی کی۔‘‘ (صحیح بخاری، 2813,4117) بنو قریظہ کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا گیا۔ مجاہدین کی تعداد تین ہزار سے زیادہ تھی۔ یہود محاصرے کی شدّت کو دو تین ہفتوں سے زیادہ برداشت نہ کرسکے۔ عبداللہ بن ابی کے منافقین سمیت اُن کا کوئی بھی حلیف ساتھ دینے کو تیار نہ تھا۔ چناں چہ یہود کے سردار، کعب بن اسد نے اوس کے سردار، سعد بن معاذ کی ثالثی میں ہتھیار ڈالنے پر آمادگی ظاہر کردی۔
اُدھر قبیلہ اوس کے لوگوں نے درخواست کی کہ بنو قینقاع ہمارے بھائی خزرج کے حلیف تھے اور یہ لوگ ہمارے حلیف ہیں، چناں چہ اُن کے ساتھ احسان والا معاملہ کیا جائے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیوں نہ ان کا معاملہ تمہارے سردار سعد بن معاذ کے حوالے کردوں؟‘‘ اوس کے لوگ اس پرراضی ہوگئے۔ حضرت سعد بن معاذ جنگِ خندق میں زخمی ہوگئے تھے اور مسجدِ نبویؐ میں استراحت فرما رہے تھے۔ انہیں بلوایا گیا، وہ اپنے گدھے پر سوار ہوکر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اے ابوعمرو! بنو قریظہ نے تمہاری ثالثی میں ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ حضرت سعدؓ نہایت سوجھ بوجھ کے حامل صحابئ رسولؐ تھے اور بنو قریظہ کی عین جنگ کے دوران غداری کے چشم دید گواہ بھی تھے، فرمایا، ’’میں فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے جو لڑائی کے قابل ہیں، انہیں قتل کردیا جائے اور اُن کے بچّوں اور عورتوں کو قیدی بنالیا جائے۔‘‘ فیصلہ سن کر آپؐ نے فرمایا۔ ’’سعدؓ! تم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری 3043,3804,4121)
یہودیوں کے دو قبائل بنو قینقاع اور بنو نضیر کو جلاوطن کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے دُور بیٹھ کرعین جنگ کے دوران مشرکین کو افرادی قوت، اسلحے سمیت ہر طرح کی سہولتیں فراہم کیں اور مسلمانوں کی شکست کے لیے جو کچھ ممکن تھا، وہ کیا، لیکن اللہ کی مدد مسلمانوں کو حاصل تھی۔ چناں چہ اُن کے جرائم کی طویل ترین فہرست کی بِنا پر اُن کے حلیف سردار کا فیصلہ حق و انصاف پر مبنی تھا۔
خیبر، یہودیوں کی جنت: مدینہ منورہ، یہودیوں کے ناپاک قدموں سے پاک ہوچکا تھا، لیکن مدینہ اور اس کے قُرب و جوار کے تمام یہودی مدینے سے سوا سو میل دور شمال مشرق میں ایک سرسبز و شاداب علاقے خیبر میں رہائش پذیر ہوگئے تھے اور خیبر کا علاقہ اسلام دشمنی کا بہت بڑا گڑھ بن چکا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تواتر کے ساتھ خبریں موصول ہورہی تھیں کہ یہاں کے یہودی مدینہ منورہ پر بہت بڑے حملے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
چناں چہ 7محرم7ہجری کو آپؐ چودہ سو سپاہ کے ساتھ خیبر کی جانب روانہ ہوئے۔ یہ چودہ سو افراد وہی تھے، جنہوں نے ’’بیعتِ رضوان‘‘ میں شرکت کی تھی۔ مفسّرین لکھتے ہیں کہ خیبر، اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا، جو اُس نے ایک وحی کے ذریعے اپنے نبی سے کیا تھا۔ ترجمہ ’’اللہ نے تم سے بہت سے اموالِ غنیمت کا وعدہ کیا ہے، جسے تم حاصل کروگے، تو اس نے تمہارے لیے فوری طور پر عطا کردیا ہے۔‘‘ (سورئہ فتح، آیت 20)۔ خیبر کے مقام پر یہودیوں کے14قلعے اور گڑھیاں تھیں۔ آپؐ نے خیبر کا دس دن تک محاصرہ کیے رکھا، یہاں تک کے تمام قلعے اور گڑھیاں فتح ہوگئے۔
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ خیبر میں حضرت علیؓ نے قلعے کا بھاری دروازہ اپنی پیٹھ پر اُٹھالیا، جس کے بعد مسلمان قلعے کے اندر داخل ہوگئے اور خیبر کا سب سے بڑا اور اہم قلعہ بھی فتح ہوگیا۔ خیبر کی فتح کے دوران سیّدنا علی مرتضیٰ، شیرِخدا کی بہادری کے عظیم کارناموں کی بنا پر آپؓ کو ’’فاتح خیبر‘‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔
خیبر کی فتح کے بعد ملنے والے مالِ غنیت کی کثرت کا اندازہ امّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کی اس روایت سے ہوتا ہے، جس میں آپؓ نے فرمایا۔ ’’جب خیبر فتح ہوا، تو ہم نے کہا، اب ہمیں جی بھر کر کھجور ملے گی۔ (صحیح بخاری، 4242) ابنِ عمرؓ نے فرمایا۔ ’’ہم لوگ آسودہ نہ ہوئے، یہاں تک کہ ہم نے خیبر فتح کیا۔‘‘ (صحیح بخاری، 4243) خیبر سے مدینہ پہنچ کر مہاجرین نے انصار کے وہ باغ بھی واپس کردیے، جو ہجرت کے بعد جذبۂ اخوت کے تحت اُن کے سپرد کیے گئے تھے۔ کیوں کہ اب اُن کے پاس مال اور کھجور کے درخت خیبر میں موجود تھے۔ (تفہیم المسلم 83/3 ،کتاب الجہاد)
خیبر سے یہودیوں کے سربراہ اور عالم، حئی بن اخطب کی بیٹی اور یہودی سردار، کنانہ بن ربیع کی بیوی صفیہ گرفتار ہوئیں۔ صفیہ، بنو قریظہ اور بنو نضیر کی چشم و چراغ، مذہبی پیشوا اور سب سے بڑے سردار کی صاحب زادی تھیں، چناں چہ حفظِ مراتب کا خیال کرتے ہوئے آپؐ نے انہیں آزاد کردیا۔ (صحیح بخاری، 4200)۔وہ اپنی آزادی کے فیصلے پر حیران ہوتے ہوئے بولیں ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مَیں اب واپس اپنے قبیلے میں نہیں جانا چاہتی، بلکہ میں نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘
چناں چہ صحابہ کرامؓ کے مشورے پر آپؐ نے انہیں نکاح کی پیش کش کی، جسے حضرت صفیہؓ نے اعزاز سمجھتے ہوئے قبول کرلیا اور حضورؐ نے اُن کی آزادی کو اُن کا حق مہر قرار دیا۔ (صحیح بخاری، 371,4200,4201) مدینہ واپسی پر وادی صہبا پہنچ کر ولیمے کا اہتمام کیا گیا۔ (صحیح بخاری 4211)۔ فتح خیبر کے بعد حضورؐ نے خیبر میں چند روز قیام فرمایا اور یہودیوں کو ہر طرح کی مراعات فراہم کیں، لیکن اللہ کا ارشاد ہے کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔
چناں چہ ایک یہودیہ زینب بنت حرث نے، جو یہودی سردار سلام بن شکم کی بیوی تھی، آپؐ کو ایک زہرآلود بھنی ہوئی بکری تحفے میں بھیجی۔ ابھی آپؐ نے ایک ٹکڑا ہی منہ میں رکھا تھا کہ بکری کی ہڈی نے خود بتادیا کہ مجھ میں زہر ہے۔ (صحیح بخاری شریف کی مختلف احادیث میں اس واقعے کی مکمل تفصیل موجود ہے۔ دیکھیے، صحیح بخاری، حدیث 5777,4249)۔
خیبر سے بھی یہودیوں کا اخراج: یہودیوں کی پوری تاریخ جھوٹ، فریب، منافقت، حکم عدولی اور گھنائونی سازشوں سے بھری پڑی ہے۔ قرآنِ مجید میں جگہ جگہ اُن کی ماضی کی غلیظ حرکات و سکنات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ عہدِ رسالت میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عارضی طور پر خیبر میں رہائش کی اجازت دی تھی، لیکن یہ قوم اپنی عادتِ بد سے مجبور تھی۔
انہوں نے دنیا میں سکون اور امن و امان سے رہنا سیکھا ہی نہ تھا، یہی وجہ تھی کہ یہ پورے دو ہزار سال تک پوری دنیا میں مارے مارے پھرتے رہے کہ دنیا کی کوئی بھی باشعور قوم انہیں اپنے ساتھ رکھنے پر تیار نہ تھی۔ سیّدنا عمر فاروقؓ جیسے عظیم المرتبت اور بارعب امیرالمومین کا زمانہ تھا۔ وہ عمر فاروقؓ کہ جن کی شکل دیکھ کر شیطان بھی اپنا راستہ بدل دیتا تھا۔ جن کے دورِ حکومت میں بائیس لاکھ اکیاون ہزار تیس مربع میل رقبے پر اسلامی پرچم لہراتا تھا۔ جنہوں نے پونے دو ہزار سال بعد بیت المقدس کو نصاریٰ سے آزاد کروایا۔
اس عظیم الشان فتح کے دارالخلافہ، مدینہ منورہ سے منسلک وادئ خیبر کے یہودی اپنے انجام سے بے خبر ریشہ دوانیوں اور سازشوں میں مصروف تھے اور علانیہ بغاوت پر اُتر آئے تھے۔ سیّدنا عبداللہ بن عمرؓ اپنی جائیداد کے سلسلے میں جب وہاں پہنچے، تو رات کے اندھیرے میں اُن پر حملہ کیا اور زدوکوب کرکے عمارت سے نیچے پھینک دیا۔ چناں چہ مسلمانوں کی مجلسِ شوریٰ نے یہودیوں کے اخراج کا فیصلہ کیا اور خیبر کی سرزمین کو خالی کروالیا گیا۔ (فتح الباری، 207-5)۔
’’اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ‘‘
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنائو۔ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی اُن میں سے کسی سے دوستی کرے، وہ بے شک اُن ہی میں سے ہے۔ ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہِ راست نہیں دکھاتا۔‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت 51) ایک اور موقعے پر فرمایا گیا۔ ’’آپ کہہ دیجیے، اے یہودیو! اور نصرانیو! تم ہم سے صرف اس وجہ سے دشمنیاں کررہے ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور جو کچھ ہماری جانب نازل کیا گیا ہے اور جو کچھ اس سے پہلے اُتارا گیا ہے، اس پر ایمان لائے ہیں اور اس لیے بھی کہ تم میں سے اکثر فاسق ہیں۔‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت 59) قرآنِ کریم کے یہ ارشادات یہود و نصاریٰ کی اسلام دشمنی کا بیّن ثبوت ہیں۔
آج چودہ سو سال کے بعد بھی یہ دونوں مل کر ماضی کی طرح ایک بار پھر فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کے درپے ہیں۔