وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کے تاجر بھارت سے تجارتی تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں اور حکومت اِس سلسلے میں ضروری اقدامات پر غور کر رہی ہے۔ اُنہوں نے یہ بیان برطانیہ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے دیا، جس کے بعد ایک بحث چِھڑ گئی کہ ایسا ہونا چاہیے یا نہیں۔ معاملہ تجارت شروع کرنے کا نہیں، بلکہ تجارت کی بحالی کا ہے، مطلب یہ کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان 2019ء تک تجارت ہو رہی تھی، جو بعد میں تعطّل کا شکار ہوئی۔
اِس بیان پر ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت کو آئے ابھی بمشکل ایک مہینہ ہوا ہے اور کابینہ میں یہ معاملہ زیرِ بحث بھی نہیں لایا گیا۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ بھارت میں اگلے ہفتے انتخابات ہو رہے ہیں، جو چھے ہفتے جاری رہیں گے، اِس لیے فی الحال تجارت جیسے معاملات پر بات چیت کا ماحول نہیں ہے، جب تک کہ وہاں نئی حکومت نہیں آجاتی۔
اِتنی سی بات تو کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ وزیرِ خارجہ کا مقصد پڑوسی ممالک کے درمیان بات چیت کا آغاز تھا، کیوں کہ دونوں کے درمیان جس قسم کے پیچیدہ تعلقات ہیں، اِس فضا میں تو سرِدست کوئی بھی نہیں سوچ سکتا کہ تجارت جیسے اہم معاملے پر سوئچ آن کیا اور سامان سے لدے ٹرک ایک دوسرے کی طرف آنے جانے لگ جائیں گے۔ پھر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاملات، معاشی نقطۂ نظر سے دیکھنے کی بجائے سیاسی تناظرمیں دیکھے جاتے ہیں اور یہی سب سے بڑی مشکل ہے۔ اِس بات کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ پہلے سیاسی تنازعات حل ہوں، پھر معیشت اور تجارت بحالی کی باتیں زیرِ غور آئیں۔
اِس معاملے کو کئی زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔کیا یہ مسائل اُس وقت موجود نہیں تھے، جب دونوں ممالک کے درمیان تجارت ہو رہی تھی۔ نیز، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ نئی دنیا میں، جس میں معیشت ہی ہر چیز پر فوقیت رکھتی ہے، مختلف ممالک پرانے تنازعات کے باوجود تجارتی روابط کیسے بحال رکھتے ہیں۔اِس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ پاک، بھارت تجارت کی بحالی سے خطّے پر کیا اثرات مرتّب ہوسکتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت شروع کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی تنازعات ہیں، اِس لیے سب سے پہلے اِنہیں ہی دیکھ لیا جائے کہ اِن تنازعات کی نوعیت کیا ہے اور انہیں حل کرنے کے کیا فورمز موجود ہیں۔کشمیر، دونوں ممالک کے مابین سب سے بڑا اور گمبھیر تنازع ہے، جو اِن ممالک کے وجود میں آنے سے اب تک جاری ہے۔ اِس معاملے پر اقوامِ متحدہ کی واضح قرار داد موجود ہے کہ اِسے رائے شماری کے ذریعے حل کیا جائے، یعنی کشمیری فیصلہ کریں کہ اُن کا مستقبل کیا ہوگا۔
بھارت اور پاکستان اِس تنازعے کے دو فریق ہیں، کیوں کہ کشمیر کے ایک حصّے پر بھارت کا قبضہ ہے، جب کہ آزاد کشمیر پاکستان کے ساتھ ہے۔اب تک کشمیر پر چار جنگیں ہوچکی ہیں اور اسی کے ساتھ سیز فائر معاہدے بھی ہوتے رہے، جیسے اقوامِ متحدہ کے تحت ہونے والا معاہدہ، روس کی ثالثی میں ہونے والا تاشقند معاہدہ، شملہ معاہدہ، جو ذوالفقار بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان ہوا اور پھر امریکی ثالثی میں کارگل معاہدہ۔ لیاقت، نہرو پیکٹ کے بعد، جو پاکستان اور بھارت کے پہلے وزرائے اعظم لیاقت علی خان اور جواہر لال نہرو کے درمیان ہوا تھا، صُورتِ حال بڑی حد تک معمول پر آگئی تھی۔
دونوں ممالک کے درمیان بات چیت بھی ہوتی رہی، تجارت بھی شروع ہوئی، یہاں تک کہ پاکستانی سینما گھروں میں بھارتی فلمز کی نمائش عام بات تھی۔ پنجاب میں واہگہ اٹاری، سندھ میں مونا بائو اور کشمیر میں پُل کے ذریعے لوگوں اور تجارتی مال کا آنا جانا ہوتا۔ پھر جنرل ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے دَور میں ہونے والی1965 ء کی جنگ کے بعد سے یہ تعلقات تلخی میں بدلتے چلے گئے اور بنگلا دیش کے قیام کے بعد تو یہ تعلقات بہت زیادہ خراب ہوئے، تاہم تجارت پھر بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی، جو بالآخر عمران خان اور نریندر مودی کے دَور میں بالکل ختم ہوگئی۔
پلواما واقعے کے بعد مزید خرابی اُس وقت ہوئی، جب مودی سرکار نے بھارتی آئین کا آرٹیکل370 معطّل کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اُسے بھارت میں ضم کر دیا۔ظاہر ہے، یہ تمام غیر قانونی اقدامات پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول تھے اور اُس نے فیصلہ کیا کہ اب بھارت سے تجارتی تعلقات کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اِس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازع کشمیر ہی ہے۔
دوسری طرف، بھارت بھی کچھ الزامات لگاتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سر زمین اُس کے خلاف استعمال ہوتی ہے،تاہم پاکستان اِس طرح کے الزمات کو یک سَر مسترد کرتے ہوئے ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ بھارت پلواما اور ممبئی دوستی ایکسپریس جیسے واقعات کو بطور مثال پیش کرتا ہے اور ایسے واقعات کا تدارک چاہتا ہے۔ اِس سلسلے میں وہ ہر فورم پر، چاہے وہ دو طرفہ ہو یا بین الاقوامی، پاکستان پر الزامات لگانے سے نہیں چُوکتا اور اسے بدنام کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔حالاں کہ دیکھا جائے، تو پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اور جتنا نقصان اس نے اُٹھایا ہے، شاید ہی کسی دوسرے مُلک نے اُٹھایا ہو۔
اگر یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق اقدامات پر سنجیدگی سے غور کریں، تو بہت کچھ بہتر ہوسکتا ہے۔اِس وقت مشرقی بارڈر سب سے ٹھنڈا ہے، حالاں کہ وہاں کا مسئلہ سب سے گرم ہے اور ایسا دونوں ممالک کی افواج کے درمیان امن برقرار رکھنے کے ایک معاہدے کے بعد ہوا، جو اب بھی قائم ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ سنجیدہ کوششوں سے ہر معاملے پر بات چیت ممکن ہے۔
اب یہ دیکھ لیا جائے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی صلاحیت کتنی ہے۔اِس امر پر تقریباً تمام معاشی ماہرین متفّق ہیں کہ سرحدی پڑوسی ایک دوسرے کے ساتھ تجارت سے جتنا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، کوئی اور اتنے فوائد نہیں سمیٹ سکتا۔ لاتعداد ممالک اِس کی مثال ہیں۔ یورپی یونین میں شامل ممالک صدیوں جنگ و جدل کا شکار رہے، پھر اُنہوں نے اپنی یونین بنائی اور آج دنیا کی بڑی طاقت ہیں۔ یونین کے تمام ممالک خوش حال ہیں، مشترکہ شینگن(Schangen) ویزا ہے اور سب کی سرحدیں کُھلی ہیں۔
چین اور بھارت کے درمیان بہت سے اختلافات ہیں، یہاں تک کہ یہ ایک دوسرے سے جنگ بھی لڑ چُکے ہیں، مگر اس کے باوجود دونوں کی باہمی تجارت ایک سو بلین ڈالرز سے زاید ہے۔روس اور چین پچاس سال قبل ایک دوسرے کے شدید مخالف تھے، لیکن اِس وقت تیل سے لے کر سوئی تک کا لین دین کر کے ایک دوسرے کو معاشی مضبوطی دے رہے ہیں۔
آج جو عرب، اسرائیل دوستی کی باتیں ہو رہی ہیں، وہ بھی معاشی تعلقات ہی کے لیے ہیں اور اِسی لیے ’’بھارت، مشرقِ وسطیٰ یورو کوریڈور‘‘ نے جنم لیا۔ ہمارے مقابلے میں عرب اور ایران کی بھارت سے قربتیں اِسی لیے بڑھ رہی ہیں کہ وہ اُس سے تجارت چاہتے ہیں۔ جاپان اور چین دوسری عالمی جنگ سے ایک دوسرے کے شدید ترین دشمن ہیں، لیکن دونوں میں تجارتی تعلقات بحال ہیں۔خود پاکستان میں امریکا کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے، لیکن پاکستان کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر امریکا ہی ہے۔
اِن مثالوں کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ عوام کی بھلائی، مُلک کی معاشی خوش حالی اور ترقّی کے لیے تنازعات کے باوجود تجارتی تعلقات نہ صرف ممکن ہیں، بلکہ ان کے پھلنے پُھولنے کے پورے مواقع بھی موجود ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ سیاسی تنازعات کے ساتھ مُلکی اور عوامی مفادات کو کس طرح لے کر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ معاشی تعلقات کو ترقّی کی نظر سے پرکھا جائے کہ تجارت ایک ٹھوس لین دین کا معاملہ ہے، جس میں کسی ایک کا فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ دونوں ہی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ اِس سے علاقے کی مجموعی ترقّی بڑھتی ہے، جس سے افراطِ زر اور روزگار جیسے گمبھیر مسائل پر قابو پانا ممکن ہوتا ہے۔
اب یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کِن کِن اشیاء کی تجارت ہوتی رہی ہے اور اِس سے عام آدمی کو کتنا فائدہ پہنچتا ہے۔2019 ء سے پہلے جن اشیاء کی تجارت ہوتی رہی، اُن میں پاکستان، بھارت سے کاٹن، نامیاتی کیمیکلز، پلاسٹک، مشینری اور آلات منگواتا تھا، جب کہ بھارت پھل، معدنیات، سوڈا ایش، نمک سمیت دیگر اشیاء لیتا رہا۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مختلف وجوہ کی بنا پر تجارت کا کینوس بہت وسیع نہیں۔ اس کی کئی تیکنیکی وجوہ بھی ہیں، جن میں سے ایک پسندیدہ ترین مُلک قرار دینے کا معاملہ ہے۔
پڑوسی ممالک سے تجارت کو ترجیح اِس لیے دی جاتی ہے کہ یہ سَستی پڑتی ہے۔دونوں طرف کھانے پینے اور استعمال کا ماحول بھی ایک ہی جیسا ہے، پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹرانسپورٹیشن لاگت بہت کم ہوجاتی ہے اور تاجروں کے منافعے کا مارجن بڑھ جاتا ہے۔ روزانہ ہزاروں ٹرک بارڈر کراس کرتے ہیں، تو ہزاروں افراد کو روز گار ملتا ہے اور منڈیوں میں مزید تیزی آتی ہے۔ نیز، تجارت سے عام رابطے بڑھتے ہیں اور سیاسی ماحول بھی ٹھنڈا رہتا ہے۔ اسحاق ڈار کا یہ کہنا تو درست ہے کہ تاجر تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں، لیکن اس میں تیکنیکی سطح پر مشکلات بھی ہیں، جنہیں دُور کرنا ہوگا۔
ماہرین اِس سلسلے میں پروٹیکشن ازم کا حوالہ دیتے ہیں کہ حکومتی سطح پر مختلف صنعتوں پر بہت سی پابندیاں عاید ہیں، جن کی وجہ سے معاملات مشکل ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستانی صنعت کار سمجھتا ہے کہ اس پر بہت زیادہ ڈیوٹی عاید کی گئی ہے، جس کی وجہ سے اُس کا مال منہگا ہونے کے سبب دوسری طرف نہیں بِکتا اور تجارتی توازن بھارت کے حق میں چلا جاتا ہے۔ پاکستانی تاجروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کی نان ٹیرف پابندیاں بہت سخت ہیں، جن کی وجہ سے مال کو آسانی سے بھارتی منڈیوں تک رسائی نہیں ملتی۔
پھر سیاست اور تجارت کو گڈمڈ کرنا اور عوام میں منفی تاثر کی موجودگی بھی ایک اور مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر موسٹ فیورٹ نیشن کے تصوّر کو سیاسی معاملہ سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ یہ ایک خالص تجارتی نظریہ ہے، جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کی تجارت کو ٹیرف اور نان ٹیرف کی رکاوٹیں دُور کرکے مصنوعات کی رسائی منڈیوں تک آسان بناتے ہیں۔فیورٹ نیشن کو ہمارے ہاں’’ پسندیدہ ترین‘‘ کے لفظی معنوں میں لیا جاتا ہے، جس سے بالکل الگ تاثر جاتا ہے، جس کا معیشت سے کوئی تعلق نہیں۔
علاوہ ازیں، اِس امر پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ جب تعلقات میں اونچ نیچ آتی ہے، تو سیاست دان اور خود ساختہ ماہرین سب سے پہلے تجارت بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ سوچے اور جانے بغیر کہ اِس سے دونوں اطراف کے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہوتا ہے، جن میں سے بیش تر مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جو اِس انتہائی قدم سے پِس کر رہ جاتے ہیں۔ ہمیں اب ریلیوں کے ذریعے یا سڑکوں پر مسائل حل کرنے کی بجائے سفارتی طریقوں کا استعمال بھی آجانا چاہیے۔
ظاہر ہے، اگر سَستی اشیاء دست یاب ہوں، تو منہگائی کم ہوگی اور اس کے عام آدمی پر خوش گوار اثرات مرتب ہوں گے۔ معیارِ زندگی بلند ہونے سے سب سے زیادہ فائدہ سرحدی علاقوں میں ہوگا کہ وہاں روزگار بڑھے گا۔ واضح رہے، دونوں اطراف کے یہ گائوں خاصے پس ماندہ ہیں، جنھیں تجارت سے سہارا ملے گا، لیکن سیاست میں کسی کے پاس یہ سوچنے کا وقت نہیں۔ ہم نے خود پنجاب کے سرحدی علاقوں میں جاکر دیکھا کہ وہ اب تک تجارت کے دن یاد کرتے ہیں۔
اُن میں سے زیادہ تر تو تجارت بند ہونے سے معاشی طور پر قلاش ہوگئے کہ روزگار کا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔ دوسری طرف کی بھی یہی خبریں ہیں۔ ہمارے خطّے میں نعرے بازی کو معیشت پر فوقیت حاصل ہے اور لوگ تجارتی معاملات سے واقفیت کے بغیر ہی جذبات میں بہہ جاتے ہیں، وگرنہ امریکا، چین ہی کی تجارت دیکھ لیں، جو تمام تر دشمنیوں کے باوجود آٹھ سو بلین ڈالرز سے زاید ہے، یعنی دنیا میں سب سے زیادہ۔
وزیرِ خارجہ کے بیان کے بعد تاجر تنظیموں، ممتاز تاجروں اور معیشت دانوں کے بیانات بھی سامنے آئے، جن میں سے زیادہ تر نے تجارت بحالی کی حمایت کی۔ سیاسی معاملات و تنازعات کا فیصلہ تو حکومت اور سیاسی جماعتیں ہی کرسکتی ہیں، لیکن حکومت کو کسی بھی فیصلے تک پہنچنے کے لیے عوام کا اعتماد بھی چاہیے۔ اِس مقصد کے لیے پارلیمان موجود ہے، جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی بھی ہے، تو کئی بڑے تاجر بھی اس کا حصّہ ہیں، تو اس فورم پر یہ فیصلہ کرنا آسان ہوگا کہ بھارت کے ساتھ کِن طریقوں سے تجارتی معاملات آگے بڑھائے جاسکتے ہیں۔
اگر یہ قوم مُلک دولخت ہونے کے بعد شملہ معاہدہ کرسکتی ہے،65ء کی جنگ کے بعد تاشقند معاہدہ ہو سکتا ہے، پرویز مشرّف دَور میں کارگل جنگ کے بعد کمپوذٹ ڈائیلاگ اور کشمیر پر سمجھوتے کی طرف بڑھا جا سکتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ تجارتی تعلقات پر کسی فیصلے پر نہ پہنچا جائے۔
کہا جاتا ہے کہ ہمیں کسی صُورت اپنے اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، یہ بالکل درست بات ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا چین اور امریکا باہمی تجارت کرکے اپنے اصولی موقف سے ہٹ گئے، کیا بھارت، چین تجارتی تعلقات میں اُن کے اصولی موقف گم ہو گئے، کیا تُرکی اور اسرائیل نے تجارت کے لیے اپنے اصولی موقف کی قربانی دی؟ پتا نہیں، ہم کس دنیا میں بستے ہیں۔
دنیا بَھر میں پہلے قومی مفاد اور معاشی تقاضوں کی برتری اہم ہوتی ہے۔سارک جیسے فورم کی غیر فعالیت سے بھی بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں، دونوں ممالک کو اِس طرف بھی سوچنا ہوگا۔دنیا نت نئے فورمز بنا کر تجارتی راہیں کھول رہی ہے اور ہم کُھلے فورم بند کرکے خوش ہیں۔ہم نے بارہا کہا ہے اور آج ایک بار پھر دہرائے دیتے ہیں کہ ہمیں تجارت کا معاملہ سیاست کی بجائے، خطّے کے150 کروڑ عوام کی نظر سے دیکھنا ہوگا۔