قارئین کرام !ہماری 900کلو میٹر کی مغربی سرحد سے جڑے ہمسایہ برادر ملک ایران کے صدر جناب ابراہیم رئیسی 3روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے ہیں۔ دونوں دیرینہ دوست ممالک کے گہرے باہمی قومی مفادات کی اہمیت اور ضرورت تیزی سے واضح ہونے پر جناب ابراہیم رئیسی کا یہ دورہ خطے کی تیز تر اور غیر معمولی تبدیل ہوتی صورتحال میں ہر دو ممالک کے وسیع ترمفادات کے حوالے سے اہم ترین ہے۔ دوسری جانب امریکہ نیٹو کی افغانستان سے ایک عشرے کی موجودگی ختم ہونےکےبعد پاکستان میں پیچیدہ سیاسی عدم استحکام کے تسلسل اور اقتصادی بحران کے بعد اسلام آباد سے اپنے روایتی تعلقات کی بحالی کی تگ ودو میں ’’دوبارہ انٹری‘‘ کی شکل میں بڑی ابتدائی سفارتی کامیابیاں حاصل کر چکا ہے یہ اب تاریخی طور پر مکمل ثابت شدہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات جتنے روایتی اور ہر دو ممالک کیلئے وسیع تر مفادات کے حامل رہے ہیں انکی عملی شکل اتار چڑھائو کی ہی رہی دوطرفہ تعلقات کی اس کیفیت کا ذمہ دار واشنگٹن ہی ہے کہ اس نے پاکستان کو اپنا اہم ترین حلیف تو ضرورت پڑنے پر مانا اور بمطابق عملی اقدامات بھی اپنے غلبے کے فریم میں کئے لیکن بڑے اہداف کے حصول کے بعد پاکستان سےمکمل طوطا چشمی اختیار کرکے دوری، ناراضگی اور بے اعتباری کا واضح تاثر بھی دیا تعلقات کی اس تاریخ میں پاکستانی عوام و حکام کا رویہ زیادہ حقیقت پسندانہ رہا ہے کہ ہم نے حلیف کے طور پرباہمی مفادات کے حصول کو ہی اہمیت دی جو بین الاقوامی تعلق کا مرکز و محور ہے لیکن امریکہ کا رویہ ہمیشہ پاکستان کے عوامی مفادات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مخصوص سفارتی فنکاری اختیار کرکے کچھ پروپیپلز معمولی نوعیت کے علامتی اقدامات تو کئے لیکن ہمیشہ پاکستانی لچکدار حکام پر ہی اپنی نگاہ و توجہ مرکوز کی اور بڑے بڑے اپنے اور بیک وقت اعتباری حلیفوں کے (پاکستان میں موجود )مفادات بھی حاصل کئے مجموعی پاکستانی عوامی زاویہ نگاہ کے مطابق عوام سے بےپرواپاکستانی حکومتوں کو اپنی ضرورت و مطلب کے مطابق مینج کرکے پاکستان کو استعمال شدہ ٹشو پیپر کے طور پھینک دیا گیا۔
واضح رہے کہ اس منظر میں جناب صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان میں موجود پاک امریکہ تعلقات کی موجود کیفیت کی صورتحال بہت اہم سفارتی حوالہ ہے جسے زیر بحث لائے بغیر دورے کی اہمیت اور اس کے پاک ایران دوطرفہ اہداف و مفادات کی فطری حقیقت و اہمیت کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا کہ موجودہ پاک امریکہ تعلقات کی صورت پاکستان اب پھر امریکہ کی ضرورت اور امریکہ بھی پاکستانی حکومت کی مجبوری میں نارمل سے کہیں زیادہ بلند درجے کے پاک ایران تعلقات، ہر دو کی ناگزیر ضرورت بن گئی ہے کتنا عجب ہے کہ پاک ایران تعلقات کی کیفیت بھی مختلف عشروں میں عالمی و علاقائی صورتحال اور دونوں کے مشترکہ بڑے مفادات کے ساتھ ساتھ مختلف پوزیشنز کے حوالے سے اتار چڑھائو ( فلیکچویشن) میں ہی رہی خصوصاً اسلامی انقلابات کے بعدکتنے ہی شیریں و تلخ مراحل ہماری دو طرفہ تعلقات کی تاریخ کی حقیقت ہیں، ایسا بھی ہوا کہ ہمارا حریف ایران کا قریب ترین حلیف بن گیا اور ایران کا بڑا حریف ہماری ’’سرپرستی‘‘ کرتا رہا لیکن پاک امریکہ تعلقات کی سب سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے اس تعلق کو حکومتوں و حکام تک ہی محدود رکھا اور کبھی یہ حساب کتاب نہ لگایا کہ اس کے بینی فشری پاکستانی عوام کتنے ہیں؟اور ہیں بھی یا نہیں اسلام آباد واشنگٹن کے تعلقات کی تاریخ کا آخری عشرہ تو اس کی مکمل واضح تصویر تھا جب پاکستانی حکومتیں (سول و ملٹری) 9/11کے تناظر میں افغانستان پر فوکس وار آن ٹیررمیں اپنے انتہائی بنیادی عوامی مفادات کو امریکی صدارتی دھمکی’’کھلا ساتھ یا پتھر کا زمانہ‘‘ پر نچھاور کرکے خود کو امریکہ سے قریب تر ہو گئیں اور عوام کو بھاری جانی و مالی نقصان سے دوچار کرکے امریکہ سے کوسوں دور کر دیا۔ واضح رہے پاکستانی عوام پوری سرد جنگ میں امریکی طنطنے کے باوجود اپنی حکومتوں کے ہم پلہ ہی امریکی قربت کے حامی اور عملاً رہے لیکن امریکی تھنک ٹینکس نے کبھی اس کے دور رس نتائج پر نظر نہیں رکھی اور دنیا اور اپنی حکومتوں کو پاکستان کے ڈگمگانے اس کی بے اعتباری اور چالاکی کا یقین دلاتے رہے یہ پاکستان کے مسلسل عدم استحکام اور مزید ٹوٹ جانے کے بیانیے ہی گھڑتے رہے وہ پاکستانی کیسے بھول سکتے ہیں کہ افغان عوام کے اہم حصے کے خلاف دہشت گردی کی جنگ میں بھارت کی غیر معمول سفارتی موجودگی اور ہمارے پاکستانی عوام کی 80ہزار شہادتوں کا کتنا تعلق تھا سفارت و معاونت کی آڑ میں افغان سرزمین پر بھارت کی یہ موجودگی افغانستان پر امریکی قیادت میں نیٹو کے مکمل کنٹرول کے دوران ہی تو تھی اس پر پاکستانی عوام اپنے حکمرانوں کی حالت کو سمجھنے میں کامیاب رہے اور انہوں نے ’’جوابی جنگ‘‘ سے گریز کرکے بھاری جانی و مالی نقصان اٹھا کر انتہائی برا وقت گزار لیا۔
اس پس منظر میں نیٹو کے افغان سرزمین سے انخلا کے بعد پاک افغان وایران تعلقا ت کی مثال کی حد تک بہتری تینوں ملکوں کے عوام کے لئے ناگریز بن چکی ہے اور اب تو ان کا بلند درجےپر شدید اضطراب پورے خطے، اپنے اپنے ملکوں اور مسلمان فلسطینی بھائیوں کی صہیونی سامراج کیطرف سے نسل کشی کے حوالے سے انتہا ہے کہ نہ بڑی طاقتیں نہ ان ممالک کی اپنی حکومتیں اس کا اندازہ کر سکتی ہیں یہ صورتحال یہاں تک محدود نہیں پاکستان کی جانب دوبارہ امریکی توجہ اس کے مطلب کے لئے نتائج جواباً چین کے ایران و افغانستان پر ثمرآور فوکس سے بنی پیچیدہ اور سب کیلئے مسلسل چوکس رہنے والی صورتحال میں جناب ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان کس قدر اہمیت کا حامل ہے ؟(جاری ہے)
سید حیدر تقی کی رخصتی
ہمارے (ادارتی صفحہ جنگ) کے انچارج اور اپنی معیاری پیشہ ورانہ طویل پریکٹس سے متاثر کن مثال قائم کرنیوالے انتھک صحافی جناب سید حیدرتقی اتوار کی شب کراچی میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اناللہ و انا الہ راجعون ۔جدید اردو صحافت میں رائے عامہ کی تشکیل کے بڑے ذریعےایڈیٹوریل پیج کی اہمیت کو دنیا بھر کے حکومتی سیاسی و صحافتی حلقوں میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں روزنامہ جنگ نے نہ صرف اسکا کامیاب ترین احیاکیا بلکہ جنگ کےادارتی صفحے کو ایک مسلسل قابل تقلید ماڈل بنا دیا ، اس سلسلے میںروزنامہ جنگ کےادارتی صفحے سے منسلک مختلف نقطہ ہائے نظر کے کالم نویسوں، تجزیہ کاروں نے اہم خدمات دیں اور دے رہے ہیں ۔روزنامہ جنگ کے ایڈیٹوریل پیج کے ایم طفیل مرحوم اور سید حیدر تقی جیسے، سنجیدہ، متوازن اور منظم ایڈیٹروں نے بڑی دلجمعی سے صحافتی خدمات انجام دیں۔ مرحوم تقی صاحب سے ہفتے میں میرا دو روز باقاعدہ رابطہ ہوتا، بلاشبہ وہ اعلیٰ صحافتی اخلاق و اقدار کے نقیب اور اپنے کام میں یکتا تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کواپنے جواررحمت میں بلند مقام اور لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے آمین۔