• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میٹ پولیس نے اسٹیفن لارنس کی والدہ سے وعدہ شکنی پر معافی مانگ لی

لندن (پی اے) پولیس کمشنر سر مارک رولی نے اسٹیفن لارنس کی والدہ سے وعدہ شکنی پر معافی مانگ لی۔ پولیس کمشنر نے بتایا کہ گزشتہ عشروں کے درمیان مناسب تفتیش میں ناکامی قطعی ناقابل قبول ہے۔ اسٹیفن لارنس کو 22 اپریل 1993میں نوجوان سفید فام گروپ نے خنجر زنی کے ذریعہ قتل کردیا تھا۔ میٹ نے اس واقعے کی تفتیش میں انتہائی شدید غفلت کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے قاتلوں میں سے صرف 2 ملزمان ڈیوڈ نورس اور گیری ڈوبسن ہی کو 2012 میں عمر قید کی سزا سنائی جا سکی، دیگر 3 بڑے ملزمان نیل، جیمی اکاؤرٹ اور لیوک نائٹ کو سزا نہیں ہوسکی۔ بی بی سی نے گزشتہ سال ایک چھٹے مبینہ ملزم ماتھیو وہائٹ کی نشاندہی کی تھی، جس کا 2021میں 50 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ مقتول اسٹیفن لارنس کی والدہ نے بیرونس لارنس نے اپنے پہلے انٹرویو میں کہا تھا کہ اسٹیفن کے قتل کی تحقیقات دوبارہ کی جانی چاہئے۔ اپنے بیٹے کی 31ویں برسی پر انھوں نے کہا تھا کہ بی بی سی کی تفتیش کے بغیر تو فیملی کو معلوم ہی نہ ہوتا کہ انھوں نے وہائٹ کے بارے میں کیا کیا؟۔ وہ غالباً اسٹیفن کے قتل کا محرک تھا لیکن میٹ پولیس نے اس کے بارے میں کچھ نہیں کیا، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیا چھپا رہے ہیں، وہ سامنے آکر یہ کیوں نہیں بتاتے کہ انھیں کیا معلوم ہے۔ سرمارک نے کہا کہ بیرونس لارنس کو ان کے تمام سوالات کے جواب ملنے چاہئیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ان سے ملاقات کے بارے میں لکھا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر میٹ وارڈ نے، جو ڈورمیٹ کیس کے انچارج تھے، بیرونس لارنس سے اسکاٹ لینڈ یارڈ سے ملاقات کیلئے کہا تھا، اس ملاقات کے بعد انھوں نے کہا تھا کہ وہ وہائٹ کے بارے میں تحریری وضاحت طلب کریں گے اور اس حوالے سے اٹھنے والے دوسرے سوالات کا بھی جواب دیں گے۔ 16نومبر کو میٹ وارڈ نے ایک ہفتہ کے اندر اس کی رپورٹ طلب کی تھی، جنوری میں بیرونس لارنس کی جانب سے لکھے گئے مزید خطوط کے جواب میں انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ جواب دینے میں ناکام رہے۔ انھوں نے کہا کہ میں اپنی پروفیشنل شرمندگی اور ذاتی طورپر معافی مانگنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا۔اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ گزشتہ جمعرات کو وکیل عمران خان نے سرمارک کو بیرونس لارنس کی جانب سے خط لکھا، جس میں انھوں نے لکھا کہ میٹ وارڈ نے بیرونس لارنس کی فیملی کو جواب نہ دے کر ان کی توہین کی ہے۔ سرمارک کو ذاتی طورپر مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے خط میں لکھا تھا بیرونس لارنس نے میٹ پولیس کے متعدد افسران سے ملاقاتیں کیں لیکن وہ ان کو اور ان کی فیملی کو مطمئن نہیں کرسکے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرونس لارنس کی مسلسل توہین کی جارہی ہے، اب یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اسٹیفن کے قتل کی تفتیش کے حوالے سے آپ نے جو وعدے کئے تھے اور جو اعلانات کئے گئے تھے، وہ محض کھوکلے تھے۔ خط میں لکھا گیا تھا کہ اگر کمشنر نے ذاتی طورپر اطمینان بخش جواب نہیں دیا تو وارڈ کے طرز عمل کے بارے میں شکایت درج کرائی جائے گی۔ سرمارک نے کہا ہے کہ ہمیں اندازہ ہے کہ لارنس اور Duwayne بروکس کیلئے یہ بہت مشکل وقت ہے، بروقت جواب نہ دے سکنے پر مجھے افسوس ہے، میٹ پر اعتماد کی بحالی میری اولین ترجیح ہے، یہی وجہ ہے کہ ماضی میں پولیس کی ناکامیوں سے متاثر ہونے والوں کے ساتھ ہم کام کررہے ہیں، میں بیرونس لارنس سے معافی کا طلبگار ہوں، جنھیں ان کے تمام سوالات کا بروقت جواب دیا جانا چاہئے تھا۔ انھوں نے یہ بات لندن میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والوں کے پولیس کے بہیمانہ سلوک کےبعد صہیونت مخالفت کے خلاف مہم کے سربراہ کی جانب سے سر مارک سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کئے جانے کے بعد کہی ہے۔ میٹ پولیس نے اسٹیفن کے قتل کے واقعہ کی تفتیش 2020 میں یہ کہہ کر بند کردی تھی کہ تفتیش کے تمام پہلو ختم ہوگئے ہیں لیکن بی بی سی نے اپنی تفتیش کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ تمام ممکنہ طریقے بروئے کار نہیں لائے گئے تھے۔ میٹ نے اس کی تردید کی تھی اور وہائٹ کے موت سے کئی سال پہلے سے بعض کلیدی شاہد نظر نہیں آرہے تھے۔ اپنے انٹرویو کے دوران بیرونس لارنس نے سرمارک کے نام خصوصی پیغام میں کہا تھا کہ 3 مبینہ ملزمان اب بھی آزاد ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اس کے گواہ موجود ہیں اور اگر وہ دلچسپی لیں تو شاید وہ معاونت کریں اگر آپ جاکر نہیں دیکھیں گے تو آپ کو کبھی کچھ نہیں ملے گا۔ بی بی سی قتل کے اس واقعے کی مسلسل تفتیش کررہا ہے اور شواہد اکٹھے کرنے کے مواقع سے واقف ہے اور اس سے میٹ بھی واقف ہے۔ بیرونس لارنس کا کہنا ہے کہ ان کی فیملی کو ہمیشہ یہ سمجھنے پر مجبور کیا گیا کہ اسٹیفن کے قتل کے حوالے سے ایک سکوت طاری ہے لیکن آپ کی تفتیش سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ بات کرنا چاہتے ہیں، ان کی پاس پولیس کو فراہم کرنے کیلئے معلومات بھی ہیں لیکن پولیس نے جا کر شواہد حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، جس کی وجہ سے مبینہ ملزمان زندہ ہیں اور آزاد گھوم رہے ہیں۔ انھیں کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ پولیس کا اس کی تفتیش کرنے اور ان سے پوچھ گچھ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

یورپ سے سے مزید