زندگی کا یہ حق ہے کہ وہ ’زندہ‘ ہو اور والد صاحب ؒ نے زندگی کا یہ حق خوب ادا کیا- چہرہ زندہ - گفتگو زندہ- روح زندہ- لباس نفیس رنگ جاندار۔ لباس سے بچپن کی بات یاد آئی کہ ایک روز ہم دونوں بھائی والدہ صاحبہ کے ساتھ بازار جانے کیلئے گھر سے نکل رہے تھے، والد صاحب ؒنے بلند آواز میں والدہ صاحبہ کیلئے ہدایت جاری کی ’’انہیں مردہ رنگ کے کپڑے مت لے کر دینا انہیں زندہ رنگ کے کپڑے پہنایا کرو‘‘۔ ان دنوں ہم شاید رنگوں کی زندگی اور مردنی کا فلسفہ ابھی اچھی طرح سے سمجھتے بھی نہ تھے۔
میرا بچپن ہنگامہ خیز تھا، میں کھیلوں کا شوقین تھا، کرکٹ کھیلتا تھا اس پر کوئی روک نہیں تھی، ٹیبل ٹینس کا شوق جنون کی حد تک تھا، اس پر بھی کوئی قدغن نہیں تھی یہاں تک کہ پتنگ بازی بھی ممنوعات کی فہرست میں شامل نہ تھی۔ اس حوالے سے ایک بات آج تک یاد ہے، لاہور میں ٹیبل ٹینس کے ایک ٹورنامنٹ میں میں Under16 کیٹے گری کے فائنل تک پہنچ چکا تھا اور فائنل مقابلہ جمعرات کے روز تقریباً مغرب کی نماز کے وقت کھیلا جانا تھا اور مشکل یہ تھی کہ جمعرات کے دن ہمارے گھر مجلس ذکر منعقد ہوتی، والد صاحب پندرہ بیس منٹ انتہائی علمی گفتگو فرماتے پھر مغرب کی نماز پڑھی جاتی اور چائے کے بعد مجلس برخاست ہو جاتی میرے لئے ہدایت یہ تھی کہ مجھے مجلس ذکر میں بالعموم اور نماز میں بالخصوص لازم شامل ہونا ہے، اور مجھ میں نماز سے غیر حاضر ہونے کی اجازت مانگنے کی ہمت نہ تھی، خیر نماز پڑھنے کے بعد جلدی جلدی جب ٹورنامنٹ کے ہال میں پہنچا تو پتہ چلا کے وقت گزر چکا ہے اور میرے خلاف walk over دیا جا چکا ہے، مجھے صدمہ ہوا اور واپس گھر آ گیا، معاملہ جب والد صاحب کے علم میں آیا تو انہوں نے تاسف کا اظہار کیا مجھے پاس بلایا، پیار کیا اور کہا یہ ساری بات تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی میں تمھیں اسکا کوئی حل بتا دیتا۔
والد صاحبؒ کا خاندان گو معتدل مگر برصغیر کا معروف اہلحدیث گھرانہ تھا یہاں صبح شام قرآن و سنت کی صدائیں گونجتی تھیں اور دعوت و تبلیغ ہی اس گھرانے کا نمایاں وصف تھا مگر ماجرہ یہ ہے کہ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ والد صاحب نے مجھے سامنے بٹھا کر بہت زیادہ دینی گفتگو میرے ساتھ کی ہو، اس کی حکمت تو وہی سمجھتے ہو نگے! لیکن حقیقت یہی ہے کہ مسلک کے معاملے میں انکا مشرب وسیع تھا اور ہر خیال کا آدمی انکی مجلس میں آرام سے بیٹھ سکتا تھا۔
جس معاملے میں قطعاً کوئی رو رعایت نہ تھی وہ نماز تھی، جس معاملے میں والد صاحب کی طرف سے مجھ پر سب سے زیادہ سختی کی گئی وہ نماز ہی تھی۔ صبح کی نماز نہ پڑھو گے تو ناشتہ نہیں ملے گا، آج میں تمھیں مغرب کے وقت مسجد میں تلاش کرتا رہا تم مجھے نظر نہیں آئے۔ سچ یہ ہے کہ یہ سختی، مہربانیوں سے بڑھ کر تھی، اس نے نماز کی اہمیت کو میرے دل پر نقش کر دیا تھا۔ نماز، اسکا سلیقہ، اس کا خشوع، خضوع یہ والد صاحب ؒ کا خاندانی ورثہ تھا، ہمارے جد امجد حضرت عبداللہ غزنوی کے بارے میں شیخ المحد ثین میاں نذیر حسین دہلوی ؒ فرمایا کرتے تھے
’’مولوی عبداللہ حدیث ہم سے پڑھ گیا اور نماز پڑھنی ہمیں سکھا گیا‘‘۔ یہ خشوع و خضوع کا ورثہ والد صاحب کا بہت بڑا سرمایہ تھا۔
ایک بار رات کے وقت میں انکے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ نماز میں سجدے کے دوران بلند آواز سے گڑ گڑا رہے ہیں اور رو رہے
ہیں، کمرے کی فضا میں عجب کیفیت تھی میں تاب نہ لا سکا اور فوراً کمرے سے باہرنکل گیا۔
زبان دانی، زبان میں مہارت، یقیناً حضرت والد صاحب کے زمانہ طالب علمی میں انکا مسئلہ رہی ہو گی، انکے اس دور کی ڈائریاں، ہاتھ سے لکھے اوراق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے مختلف زبانوں میں مہارت کیلئے خاصی عرق ریزی کی تھی، اس خطے میں دین کا کوئی سنجیدہ طالب علم اُردو عربی، فارسی، انگریزی سیکھے بغیر سچ مچ کی ترقی نہیں کر سکتا، پھر مولانا ابو الکلام آزادکی نصیحت بھی انکے پیش نظر ہوگی جس کے بارے میں شیخ العربیۃ مولانا محمد بشیر سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ ایک بار مولانا ابوبکر غزنوی نے مجھ سے فرمایا: بشیر صاحب میں آپکو ایک نصیحت کرتا ہوں جو مولانا ابو الکلام آزاد نے مجھے اس وقت کی تھی جب وہ میرے والد مولانا دائود غزنوی سے ملاقات کیلئے لاہور آئے تھے۔ انہوں نے کہا:ابو بکر تین زبانیں سیکھو عربی، اُردو، انگریزی، اور ایک زبان میں اتنی مہارت حاصل کرو کہ آپ اسے خوب لکھ بول سکیں، دوسری دو زبانوں کو بقدر ضرورت سیکھ لو۔ میٹرک کے امتحان کے بعد انہوں نے مجھے عربی سیکھنے کیلئے دارالعلوم میں حافظ عبدالرشید مرحوم کے پاس بھیج دیا، عربی گرائمر یعنی صرف و نحو کوئی بہت آسان چیز نہیں ہے بالخصوص گردانیں یاد کرتے ہوئے اور ابواب کی صرف صغیر یاد کرتے ہوئے مجھے احساس ہوتا کہ یہ لفظوں کو رٹتے چلے جانا (ضرب، یضرب، ضرباً فھوضارب) شاید مشق لاحاصل ہے۔ میں نے اس بات کا تذکرہ والد صاحب سے کیا انہوں نے جواباً کہا۔ نہیں! یہ مشق لا حاصل نہیں، تم خاموشی سے انہیں رٹتے چلے جائو ایک دن تمھیں اس کی افادیت خود سمجھ میں آجائے گی... انہوں نے سچ فرمایا تھا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)